• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حساس سیاسی حالات کامختصر جائزہ۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

حساس سیاسی حالات کامختصر جائزہ۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

پاکستانی تاریخ کو پچھلے چند ہفتے انتہائی حساس نوعیت کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا اور ہر لمحے بدلتی صورتحال نے ہر دلچسپی رکھنے والے کو حیرا ن کئے رکھا اور حالات پچھلے چند سالوں سے یکسر مختلف دکھائی دے رہے تھے خاص کر حکومت کے اداروں کے ساتھ تعلقات کی سطح پر۔ حکومت میں موجود سیاسی جماعت نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے ہر طرح کی تگ دو کی مگر ہر لمحے اس کی امیدیں دم توڑتی چلی گئیں اور وہ اپنے اقدام سے ملکی سطح پراپنے آپ کو تنہا کرتی چلی گئی حتیٰٰ کہ اپنے بھی ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔

اور آئینی طریقہ سے حکومت کو ہٹانے کے لئے پاکستان کی اپوزیشن اور اداروں کو انتہائی محتاط مگر انتہائی اور معمول سے ہٹ کر فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے وزراء پر ایک دن کا اعتماد کرنے کا  رسک بھی نہیں لیا گیا۔ اتنی سرعت کے ساتھ استعفوں کا دور دورا بھی معاملے کی حساسیت کا اشارہ دے رہا ہے۔

اگر اختتام پذیر ہونے والی حکومت کو دیکھا جائے تو ان کے وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اوراگر کارکردگی کو دیکھا جائے تو معاشی، انتظامی اور خارجی سطح پر ملک و قوم کو کچھ بھی نہ دے سکی بلکہ حالات بد تر ہوتے چلے گئے اور قوم و ملک کی ان سے وابستہ امیدیں ہر آئے دن دم توڑتی چلی گئیں۔ ان حالات کا اگرمختلف پہلووں سے جائز ہ لے کر نقطے سے نقطہ ملایا جائے تو ابھرنے والی تصویر کچھ یوں بنتی ہے۔

جب اختلافات کے باوجود اپوزیشن کی جماعتیں متحد ہوجائیں، پاکستان کی سلامتی کے ادارے غیر جانبداری کے دعوے اور اپنے منظور نظر کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیں اور حکومت میں موجود پارٹی اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آئین کی خلاف ورزی تک اتر آئے مگر قومی ادارے اپوزیشن کے ساتھ مل کر آئین کی حفاظت کے ضامن بن جائیں تو ایسے میں ان الزامات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی خاص طور پر جب اپنے ہی ساتھ چھوڑ جائیں۔

جو ادارے آج تک ان کے ساتھ ایک پیج پر تھے ان کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے اور عالمی برادری پر کھلے عام بے بنیاد الزامات لگانا شروع کر دیے جائیں تو معاملہ گڑ بڑ ضرور لگتا ہے۔ الزامات کی سیاست کبھی بھی سمجھدار، کامیاب اور دلیر لوگوں کی نشانی نہیں ہوتی۔ مدبر لوگ سوچ، پالیسی اور عمل کے زریعے لاحق خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں جبکہ کمزور لوگ چیخ و پکار سے۔ آزمائش سے گزرنے کے بعد ہی حقیقت عیاں ہوتی ہے، حقائق کے سامنے آجانے کے بعد بھی دھوکہ کھانے کو عقلمندی نہیں کہا جاسکتا اور آزمائی ہوئی چیز کو دوبارہ آزمانا خطرناک غلطی ہوتی ہے۔

عوام کو حکمرانوں کو گفتار دیکھ کر نہیں بلکہ عمل کو دیکھ کر پہچاننا چاہیے کہ کس کا عمل ملک قوم کی بہتری میں ہے اور کس کا عمل ملکی مفادات کے خلاف ہے۔ ہمیں سیاسی قائدین کے رویے بھی دکھنا چاہییں کہ کون ملکی مفاد کی خاطر مفاہمت کی سیات کر رہا ہے اور کون بد اخلاقی اور انتشار کی؟ ہمیں ہمیشہ غیر جانبداری سے سوچنا چاہیے ہمیں فیصلہ کرتے وقت کبھی بھی پسند نا پسند اور انا کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے اور خاص کر موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں غیر جانبدار سوچ کو قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مطابق ہے۔

جب ایک دفعہ سوشل میڈیا کو آپ اپنی پسند دکھا دیتے ہیں تو پھر یہ ہمیشہ سے آپ کو آپ کی پسند، نا پسند کی بنیاد پر مواد تجویز کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح آپ کی پسند، نا پسند پر مبنی سوچ پختہ ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کبھی بھی درست سمت کا تعین نہیں کر پاتا۔ اس وقت میں عوام کو صرف ایک پہلو کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ اگر تحریک انصاف کے بارے دوسری اپوزیشن جماعتوں کے الزامات کو دیکھا جائے اور پھر ان کو ان کی حمائت، امیدوں اور کارکردگی کا جائزہ لگایا جائے تو ان الزامات میں وزن معلوم ہوتا ہے۔

حکومت میں آنے سے پہلے ان کو مالی امداد کی بھرمار تھی جس کی بنیاد پر ہی کچھ حلقوں کی امیدیں ان کے ساتھ وابستہ ہوئی تھیں اور جوں ہی وہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی مالی امداد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا جاتا ہے اور پھر ان کی کارکردگی کی بنیا د پر اگر دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ شائد ان سے پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کا کام لینا مقصود تھا جو کسی بھی ملکی کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ آج بھی کچھ سادہ ذہن لوگ حکومت کو مظلوم تصور کر رہے ہیں اور ان میں زیادہ اکثریت ان لوگوں کی ہی ہے جو حقائق کو کم دیکھتے ہیں مگر سوشل میڈیا پر ان کا زیادہ انحصار ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر۔

عالمی میڈیا اور کچھ وی لاگرز کی طرف سے، حکومت کے جاتے ہوئے ایسے اقدامات، کی طرف بھی اشارہ دیا گیا ہے جو انتہائی خطرناک سوچ کی عکاسی کرتے ہیں مگر چونکہ یہ خاص میڈیا پر اکتفا کرنے والے اور اپنی سوچ کو استعمال نہ کرنے والے سادہ لوگوں کی ہمدردی والی سوچ کو تبدیل کرنے سے اس لئے قاصر ہے کہ وہ اپنی حصول معلومات کی اس خاص ڈگر پر چل رہے ہیں جہاں اس طرح کی سوچ اور معلومات کا عمل دخل ہی نہیں ہوتا جو ان کو حقیقی تصویر دکھا سکے۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ عمراں خان اگر تو اپنی اس سوچ اور عمل کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے جس کی بنیاد پر کچھ نام نہاد دانشور پچھلے چند سالوں سے پشین گوئیاں کررہے تھے تو آج ملک ایک مستقل خطرناک گھیر گھمٹ میں گھر چکا ہوتا اور اس سے نکالنا مشکل ہوچکا ہوتا جس کے بہت ہی کم مواقع تھے مگر چند جزباتی، سادہ اور ناعاقبت اندیش تو امیدیں لگائے بیٹھے تھے جن پر پانی پھر گیا اور پاکستان کو اس نام نہاد سوچ سے نجات مل گئی۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو اس حکومت کے حق اور سچ پر مبنی ہونے کے انحصار کا تکیہ پاکستان کے اداروں کی حمائت پر کئے ہوئے تھے وہ بھی اداروں کی حمائت کو دیکھ کر ڈھٹائی دکھائی دے رہے ہیں جو نا انصافی کی دلیل ہیں۔ اب اگر دوبارہ وہی مالی اعانت اور بیرونی حمائت کی سلسلہ شر وع ہوتا ہے تو پھر عوام کو یقین کر لینا چاہیے کہ اس طرح کی حمائتیں جو حکومت میں پہنچانے کے لئے تو ہوں مگر جب حکومت مل جائے تو ہاتھ کھینچ لیں۔

کبھی بھی مخلص نہیں ہوتیں اور اس کا اعتراف اور گواہی بھی جماعت کے اندر سے مل رہی ہو تو پھر تو شک کی بھی گنجائش نہیں رہتی۔ رائے کا قائم کرنا اور سیاسی حمائت ہر شہری کا جمہوری، قانونی اور آئینی حق ہے مگر اس کا غیر جانبداری سے ملک قوم کے مفاد میں استعامل قومی فرض ہے۔ ہمیں حمائت سے پہلے عمل اور کارکردگی کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ہم امید کرتے ہیں کہ احتساب اور انصاف کے ادارے اپنا کام مکمل غیر جانبداری سے کریں گے اور قوم کے سامنے تمام حقائق رکھیں گے کہ کس طرح سے پاکستان کی سیاست کے ساتھ کھلواڑ کھیلا گیا اور کون کون اس میں ملوث تھا اس کا جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ نہ صرف قوم میں شعور بیدار ہو بلکہ پاکستان کے عالمی سطح پر تعلقات بھی مثبت اور مضبوط کرنے میں مدد ملے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply