سن 1856 کا پاکستان۔۔ انعام رانا

 سن اٹھارہ سو ستاون نے برصغیر میں بہت کچھ بدل ڈالا، ہمیشہ کیلئیے۔ مگر سن اٹھارہ سو چھپن میں وہ سب کچھ بدل رہا تھا۔ عظیم مغل سلطنت قدموں پہ تھی گو ابھی سجدے میں جا کر سر کٹانے میں کچھ دن باقی تھے۔ شاہی محل کا یہ عالم تھا کہ ضعیف بادشاہ سیاست اور محلاتی سازشوں سے بوکھلا کر مطبخ اور حرم میں کھویا تھا۔ لاڈلی ملکہ بیٹے کو ولی عہد بنانے کیلئیے ہر حد پہ جانے کو تلی تھی اور قلعہ معلیٰ کا ہر باسی اک دوجے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ جو سویر صاحبِ دستار تھے، سرِ شام رسوا سربازار تھے۔ قلعے سے نکلئیے تو اک انارکی تھی۔ ٹھگ راہ چلتے لوٹ لیتے تھے۔ بازار میں گرانی تھی، کوتوال کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ باہر سے آئے کمپنی بہادر کے گورے اب اجنبی نہیں لگتے تھے اور انکے دیسی گماشتے من مانی پہ اترے تھے۔
عوام آنے والی آندھی سے بے خبر تماشوں میں مصروف تھی۔ بٹیرے لڑائے جا رہے تھے، مشاعروں کی محفلیں تھیں اور طوائفوں کے کوٹھے تھے۔ جو یہ سب کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے، وہ اس سب کا حصہ بن کر کمانے کی کوشش میں تھے۔ ایسے میں وقت رینگتا ہوا سن ستاون تک لے آیا۔ اک دن اچانک بوڑھے بادشاہ کو خبر ملی کہ دہلی اب بخت خاں اور اسکے جانثاروں کے قبضے میں ہے۔ جو مغل شہنشاہ پورے ہندوستان کا مہابلی تھا، وہ اب دہلی میں چند لونڈوں کا دست نگر بن چکا تھا۔ اجڑتی دہلی کی تاریخ پڑھئیے تو ترس آتا ہے۔ اک گروہ آیا اور شہر تخت پہ قابض ہو گیا۔ نعرہ تھا دین اور بادشاہ کی بحالی، مگر حکم چلتا تھا بخت خان اور ہمنوا کا۔ لکھا ہے کہ شرفا گھروں میں محصور ہو گئے۔ رہے بادشاہ تو اوقات یہ تھی کہ بخت خاں کا سپاہی “سالے بڑھئو” کہہ کر بلا گیا اور شہنشاہ آنکھ نہ اٹھا سکا۔ ایسے میں اگر انگریزی فتح پر کوئی تاریخ نویس سُکھ کا سانس لیتا نظر آئے تو حیران نا ہوئیے۔
گزرے بائیس دن نے مجھے لٹتی ہوئی دلی یاد کرا دی۔ سینکڑوں یا چلئیے دو ہزار کا گروہ اک مذہبی نعرہ لئیے دارلحکومت پہ قابض ہوا۔ بائیس دن تک ریاست نامی اک دوشیزہ ان کے نرغے میں تھی اور جو مجمع چھٹا تو برہنہ و زخمی دوشیزہ کی صورت پہچانی نہیں جاتی۔ کچھ دن قبل ہم نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سربازار برہنہ کی گئی اپنی بہن کا ماتم کیا۔ آئیے اب ریاست نامی ماں کی اس رسوائی کا نوحہ بھی پڑھ لیجئیے۔ دھرنا ختم ہوا، قبضہ چھٹا، لاشیں گرنا بند ہوئیں، شکر ہے رب کا۔ مگر یہ سب کس قیمت پر؟ آنے والے وقت کے تصور سے لرزاں یہ طالب علم سوچتا ہے کہ ناموس رسالت کے قانون کی حساسیت کے باوجود وزارت قانون لفظ کی غیر ضروری تبدیلی کے اثرات کا اندازہ کیوںنہ لگا سکی؟ آخر اک جم غفیر پنجاب سے ٹہلتا ہوا آ کر کیسے شہر کی بڑی شاہراہ پر قابض ہو گیا؟ کئی دن تک مذاکرات نامی کھیل نے طول کیوں کھینچا اور پھر اک ہی رات میں پردہ کیونکر گر گیا۔ ملک میں انتظامیہ اور عدلیہ کی آئینی تقسیم کے باوجود اک جج وفاقی حکومت کو اک انتظامی حکم اور توہین عدالت کا نوٹس کیسے دے سکا؟ آخر کیونکر رات گئے چند سو اہلکاروں کے بجائے دن چڑھے ہزاروں نے اک ناکام آپریشن کر کے ریاست کی کمزوری کو مزید عیاں کیا؟ فوج آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوے دو ٹرک فوجی بھیجنے کے بجائے وزیراعظم کو سرعام “اپنی عوام” سے رحم کے مشورے کیوں دینے لگی؟ ریاست نے اک شرمناک معاہدہ کر کے اپنے بدن پر موجود آخری چیتھڑا بھی کیونکر اتار دیا؟ اور یہ برسر عدالت فوج کو قتل، سازش اور اغوا کا مجرم قرار دے کر قاضی نے کون سا عدل کیا؟ دھرنے سے نکلا کیا؟ ریاست کی برہنگی اور پین دی سری؟
جس قدر سوچتا ہوں، ریاست کا نوحہ مزید شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ صاحبو، سسی سوئی رہی اور بھنبھور لُٹ گیا۔ یہ بائیس دن بہت کچھ بدل گئے۔ اب بلوائی ریاست سے نہیں، ریاست بلوائیوں سے خوفزدہ رہے گی۔ سیاست میں مذہب تو ستر سال سے ڈالا تھا، ناموس رسالت کا تڑکا ایسا لگا ہے کہ خوشبو چہار سو پھیلے گی۔ اب امیدواران روٹی، کپڑا اور مکان نہیں، تحفظ ناموس اور حلف ایمان پر ووٹ مانگیں گے۔ اداروں کا باہمی احترام اور اعتماد پامال ہو چکا۔ قاضی کو حاکم پر اور حاکم کو سالار پہ شک ہے اور رہی پرجا، تو وہ خیر منائے۔ گلوں میں بورڈ لٹکا لیجئیے جس پر اپنے ایمان کو بڑے حروف میں لکھا ہو اور زبان خاموش رہے۔ جانے کون سا حرف گستاخی ہو اور زبان کاٹ دی جائے، پین دی سری۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”سن 1856 کا پاکستان۔۔ انعام رانا

  1. جن کو ووٹ سب سے کم ملتے ہیں ان کی nuisance value سب سے بڑھ کر ہے۔۔۔!
    A nation on the self destruct mode.

Leave a Reply to ابو القاسم فردوسی طوسی Cancel reply