الوداع! عمران خان۔۔آغر ؔندیم سحر

الوداع! عمران خان۔۔آغر ؔندیم سحر/  آخر کار ایک طویل جدوجہد کا خاتمہ ہوا اور ملک میں جاری سیاسی انتشار اور گہما گہمی اپنے اختتام کو پہنچی۔تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا اور یہ دن تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔عمران خان ۳ سال ۷ ماہ اور ۲۳ دن وزیر اعظم رہے’اس سارے عرصہ میں عمران خان نے پاکستان کی سالمیت اور خودداری کا علم بلند کیے رکھا’نہ خود جھکا اور نہ ہی قوم کو جھکنے اور بکِنے دیا۔میری اس بات کی گواہی اورسیز پاکستانی دیں گے’گزشتہ تین سال سات ماہ میں انھیں دوسرے ملکوں میں جو عزت اور اعتماد ملا’بہ خدا! تاریخ میں اس سے قبل نہیں ملا مگر افسوس یہ ہے کہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ملک کا منتخب وزیر اعظم عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

تاریخ یہ لمحہ بھی یاد رکھے گی کہ جس دن عمران خان کو عہدے سے ہٹایا گیا’وہ اس روز بھی اس ‘‘غیرت مند’’قوم کے لیے کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کر رہا تھا’وہ آخری روز بھی پورے اعتماد کے ساتھ گرج رہا تھا’قوم کو غیرت اور خود داری کا درس دے رہا تھا۔عمران خان کے دورِ حکومت کا خاتمہ جہاں ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا وہاں دوسری طرف اس کے ‘‘ذاتی’’مشیروں اور الیکٹیبلز نے بھی کوئی بہتر کردار ادا نہیں کیا ،لیکن خیر جو ہو ا سو ہوا۔

دس اپریل کی رات بارہ بجے عمران خان نے اپنا بریف کیس اور ذاتی گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور وزیر اعظم ہاؤس سے بنی گالہ روانہ ہو گیا اور یوں ان کے ساتھ ہی پاکستان کی تاریخ بھی تبدیل ہو گئی۔

اس بات میں قطعاً دو رائے نہیں کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں مجموعی طور پربیڈ گورننس رہی’مہنگائی’لاقانونیت سمیت کئی مسائل کا سامنا رہا جس کا الزام ان کی کابینہ میں موجود ان چہروں کو بھی جاتا ہے جو حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کو دھوکا دیتے رہے اور عمران خان نے ان پر اندھا اعتماد کیا۔

المختصر! تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ راتوں رات عدالتیں بھی لگ سکتی ہیں’چھٹی والے دن سوموٹو بھی ہو سکتا ہے اور تاریخ اس بات کو بھی نہیں بھولے گی کہ وہ خط جس کا شور تھا’عدالت نے وہ خط دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا’تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ جب عالمی سازش ہو رہی تھی’عمران خان عدالتوں کو للکارتا رہا’اعلیٰ اداروں کے سربراہوں کو للکارتا رہا کہ ضمیر فروشوں کو پہچانو! مگر عدالتیں اور ملک کے‘‘ غیرت مند’’سربراہان کا تو جیسے ایک ہی ایجنڈا تھا سو وہ پورا ہوا۔آپ مجھے غدار کہیں یا توہین عدالت کا مرتکب’مگر یہ سچ ہے کہ عمران خان کے خلاف فیصلہ یک طرفہ تھا اور یہ یک طرفہ فیصلہ عمران خان کو پہلے سے زیادہ مضبوط کر گیا۔فیصلہ دینے والے اور فیصلہ لینے والے’سب تاریخ میں دفن ہو جائیں گے مگر یاد رکھنا عمران خان تاریخ میں سرخرو ہو چکا۔

عمران خان کی حکومت مجموعی طور پر ناکام رہی’اس سے مجھے قطعاً اختلاف نہیں کیوں کہ یہ حقیقت ہے اور مجھے یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں مگر میں ملاں فضل الرحمن جیسے سازشی اور نقاب پوش آدمی کو صدراور بیل پر رہا ہونے والے شہباز شریف کو کیسے وزیر اعظم مان لوں’کیا میں ان کے کردار سے واقف نہیں؟ بلکہ ان کے کردار سے کون واقف نہیں؟۔

مجھے افسوس ہے کہ اس عوام نے عمران خان کو ہٹانے کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا’وہ بنتا نہیں تھا۔عمران خان کی بیڈ گورننس سے ہم سب تنگ تھے مگر عمران خان کے بدلے میں جن کو لایا جا رہا تھا’ہم سب نے ان کو تیس سال بھگتا ہے۔ہم نے ایک دفعہ بھی نہیں سوچا کہ ہم کس انسان کے ساتھ بغاوت کر رہے ہیں’وہ شخص جو تین سال سات ماہ اور تئیس دن بعد جب اقتدار سے رخصت ہو رہا تھا تو اس کا بینک بیلنس اور پراپرٹی وہی تھی’جو اقتدار میں آنے سے قبل تھی۔اس نے کوئی مل’کوئی فیکٹری اور کسی پراجیکٹ میں اپنا شیئر نہیں رکھا تھا۔ورنہ گزشتہ ادوار میں جو کچھ ہوتا رہا’کیا میرے‘‘ غیرت مند’’ پاکستانیوں کو علم نہیں؟۔

تاریخ کے وہ گھناؤنے کردار ہمیشہ سیاہ لفظوں میں یاد رکھے جائیں گے جو اس عالمی سازش کا حصہ بنے۔کیسی بھیانک تاریخ ہے کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں سوائے آمروں کے کوئی بھی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔کل جب عمران خان کو بھی ہٹایا جا رہا تھا تو میں غیر ملکی چینلز پر بیٹھے تجزیہ نگاروں کی خوشی بھی دیکھ رہا تھا’یہ وہی طاقتیں ہیں جنھیں پاکستان کی خود مختاری عزیز نہیں۔

یہ سچ ہے کہ عمران خان کا روس جانا ایک بہانہ بنا’حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی طاقتیں گزشتہ تین سالوں سے اسی کوشش میں اور پلاننگ میں مصروف تھیں کہ کس طرح عمران خان کو عہدے سے ہٹایا جائے تاکہ وہ ضمیر فروشوں کی بولیاں انتہائی آسانی سے لگا سکیں۔اقتدار کی ہوس نے نو ن لیگ’پیپلز پارٹی’ایم کیو ایم’بی این پی اور جے یو آئی سمیت ان تمام جماعتوں کو متحد کر دیا جو کل تک ایک دوسرے کے سروں کی قیمت لگانے تک پہنچ گئے تھے’جو کل تک ایک دوسرے کا نام اور شکل تک برداشت نہیں کرتے تھے’آج متحد ہیں۔

یہاں یہ سوال ضررو پیدا ہوتا ہے کہ اگلے جنرل الیکشن میں بھی بھی یہ تمام‘‘محب وطن’’متحد ہوں گے یا ووٹ کے لالچ میں دوبارہ قوم کو بے وقوف بنائیں گے اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جائیں گے۔

میری خواہش ہے کہ یہ سب متحد رہیں اور نئے الیکشن میں اکیلا عمران خان ان کا مقابلہ کرے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔اور یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا شہباز شریف باقی مدت پوری کریں گے یا قوم کو ‘‘لالی پاپ’’دے کر دوبارہ الیکشن کی جانب بڑھیں گے۔نیب کو ختم کرنے کا ٹاسک بھی شہباز شریف ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ اپنے بڑے بھائی سمیت اتحادیوں اور اپنے اہلِ خانہ کے کیسز ختم ہو سکیں’کیسی افسوس ناک بات ہے کہ وہ لوگ جو ضمانتوں پر ہیں’وہ ملک کی تقدیر کا فیصلہ کر رہے ہیں اور عوام اس پر خوشی منا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سب کبھی نہیں بھولیں گے کہ اپوزیشن اور ان چوروں لٹیروں نے ملک کے اداروں کے ساتھ مل کر عالمی سازش کا کامیاب بنانے میں جو کردار ادا کیا’وہ اس قدر بھیانک ہے کہ پاکستان خدا نخواستہ اگلی کئی صدیاں اس کی سزا بھگتے گا’ہم اس وقت ان‘‘ محب وطن’’ پاکستانیوں سے پوچھیں گے کہ اب بتائیں تاریخ میں کون زندہ رہا اور کون ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔شہباز شریف حکومت میں آئے یا ان کے بھائی ذرداری اور ملاں فضل الرحمن’عالمی دنیا میں پاکستان کا امیج برقرار رہتا ہے یا نہیں’ہم سب دیکھیں گے اور ہم سب ان کا عبرت ناک انجام دیکھیں گے جنھیں نے انتہائی اہم موڑ پر پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کا سودا کیا’ہم اور ہماری نسلیں ان گھناؤنے چہروں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply