• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عمران! قائداعظم کے ہم پلہ سیاستدان،مگر۔۔فاخرہ گُل

عمران! قائداعظم کے ہم پلہ سیاستدان،مگر۔۔فاخرہ گُل

عمران! قائداعظم کے ہم پلہ سیاستدان،مگر۔۔فاخرہ بتول/یہ بات ماننے میں کسی کو عار نہیں ہونا چاہیے کہ عمران خان ہی قائدِ اعظم کے بعد وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو سیاست میں متحرک کیا اور نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ہر طبقے اور ہر عمر کے فرد میں سیاسی شعور بیدار کیا ، عالمی فورمز پر جرات اور بہادری سے اسلام کا مقدمہ پیش کیا ، اظہارِ رائے کی آڑ میں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والوں کی سرکوبی کیلئے آواز اُٹھائی اور عوام کے سامنے کئی کرپٹ سیاستدانوں کے چہرے بے نقاب کئے۔

لیکن پھر افسوسناک طور پر ہوا یہ کہ وہی سیاستدان جو اُنکے نزدیک کرپٹ تھے اُن میں سے چند کو اپنے مفاد کیلئے گلے لگا لیا ، وہ نوجوان جو اُنکی شخصیت اور گفتگو کے جادو میں بُری طرح جکڑے جا چکے تھے اُنکی اخلاقیات اس طرح تباہ کیں کہ کسی سے اختلاف کرنے کی تمیز رہی ،نہ اختلافی بحث و مباحثے کی ، بس اُنکے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ آپ ہی سب سے افضل و برتر ہیں اور آپ ہی ہیں وہ پڑھے لکھے اور باشعور عوام جو دنیا کے بہترین لیڈر کے پیروکار ہیں اور آپکے علاوہ باقی سب اُجڈ ، گنوار ، جاہل ، کم پڑھے لکھے اور کم عقل ہیں۔

نواز شریف موٹو گینڈا ،اور گول مٹول گونگلو ، شہباز شریف لومڑ، شاہد خاقان عباسی چوہا، دانیال عزیز بھالو ، طلال چوہدری چمچہ، مولانا فضل الرحمٰن ڈیزل کا ٹینک، زرداری دو نمبری چور ، پرویز الہٰی ڈاکو ، الطاف حسین بھٹکا ہوا مسخرہ، نواز شریف کے ووٹرز جاہل پٹواری، الطاف حسین کے ووٹرز زندہ لاشیں ، آصف زرداری کے ووٹرز کمی کمین مزارعے ، گدھے اور وغیرہ وغیرہ

یہ تمام القابات عمران خان ہی کی طرف سے دئیے گئے جن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے تفصیلی تشریح اُنکے اکثر حامی گالیوں سمیت ہر جگہ کرتے نظر آتے ہیں۔اور عمران خان کی اسی تھپکی کے باعث اُنکے سپورٹرز میں خود کو اعلیٰ  و ارفع سمجھنے کا یہ کمپلیکس اتنا بڑھا کہ وہی لوگ جو نواز دور میں کئی اقدامات پر لکھی گئی تنقیدی پوسٹس کو لائک اور شیئر کرتے نہ تھکتے تھے، عمران خان کے دورِ حکومت میں جب عمران خان کے کاموں پر تنقید کی تو بُرا مان کر چلتے بنے ،کہ آپ تو عمران خان کے خلاف لکھتی ہیں ، حالانکہ میں نے عمران خان کے ہر اُس اقدام پر بھی تعریفی پوسٹ لکھی جسکا اُنہوں نے صرف اعلان بھی کیا ، جس پر کئی لوگوں نے ٹوکا بھی کہ صرف اعلان کی کیا تعریف ، کام ہوا تو دیکھیں گے اور فیسبک میموریز بتاتی ہیں کہ واقعی ان میں سے اکثر محض اعلانات ہی رہے
کیونکہ خان صاحب نے بائیس برس کی جدوجہد میں تن من دھن نچھاور کرنے والے اپنے ساتھیوں کو اقتدار ملتے ہی سب سے پہلے سائیڈ لائن کیا اور اُن بد زبان اور مطلبی افراد کے جھُرمٹ میں حکومت کرنے لگے جنہوں نے واہ واہ کے چپو تھامے خان صاحب کی کشتی ڈبونے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

اور پھر اُنکی ناک کے نیچے کرپشن کا بازار گرم رہا ،لیکن وہ تمام تر وقت سوشل میڈیا کو اپنے حق میں کرنے کیلئے ٹِک ٹاکرز و یو ٹیوبرز سے ملاقاتیں کرنے ، مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے ، جیلوں سے اُنکا اے سی اتروانے ، خواتین سیاستدانوں کے میک اپ اور عُمروں پر فقرے کسنے ، اُنکی نقلیں اُتارنے اور جلسوں میں آئے عوام کو انٹرٹین کرنے میں گزرنے لگا۔اور اُنکے مشیر کف اڑاتے اُنکی تعریفیں کرتے نہ تھکتے کہ واہ جی واہ کیا تقریر کی ہے ، کیا مارا ہے اپوزیشن کو ، اور خان صاحب اپنی کارکردگی پر پھولے نہ سماتے۔البتہ اُنہیں ٹوکنے یا اس طریقہ کار کو غلط کہنے والوں کو فوراً نہ صرف عہدے بلکہ خود سے بھی دور کر دیا جاتا۔

خان صاحب شاید بھول گئے کہ عوام نے اُنہیں اسٹینڈ اپ کامیڈین کے طور پر نہیں چُنا تھا بلکہ اپنا مسیحا مانا تھا کیونکہ وہ اس بات پر یقین کر چکے تھے کہ روایتی سیاستدانوں کی اس قطار میں واحد انسان عمران خان ہی ہیں جو اُنکا سوچیں گے ،اُنکا معیارِ زندگی بلند کریں گے اور ایک ایسے لیڈر کے طور پر پاکستان کا جھنڈا لے کر آگے بڑھیں گے جو پاکستان کو معاشی اور فلاحی ریاست بنانے میں کردار ادا کرتے ہوئے اپنے حِصے کی شمع جلائے گا۔

لیکن افسوس کہ اُنکی “ مَیں “ کو تو تسکین ہی واہ واہ اور تالیوں سے ملتی تھی ،لہذا ہر وقت اور جگہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹتے پائے گئے کہ اُن سے بڑھ کر دنیا کی کسی چیز کو کوئی نہیں جانتا اور دنیا بھر کے لوگ بھی اُنکے علاوہ کسی کو نہیں جانتے۔

عمران خان نے عوام کو یہ تو درست بتایا کہ بیوروکریسی ، عدلیہ ، میڈیا ، صحافت اور تجارت سمیت ہر جگہ مافیا کا راج ہے لیکن سیاسی رموز سے نابلد ہونے کے باعث ان مافیاز کو ختم کرنے کی طرف کوئی قدم نہ بڑھا سکے نتیجتاً معیشت دن بہ دن زوال کی طرف بڑھتی چلی گئی۔

اُنکی حب  الوطنی پر شک نہیں لیکن اسکے باوجود جس طرح ضروری نہیں کہ اچھا تیراک بہترین ڈرائیور بھی ثابت ہو، اسی طرح یہ بھی لازم نہیں کہ کوئی بھی محب الوطن اور نان کرپٹ انسان اچھا حکمران بھی ثابت ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومت چلانے اور زبان چلانے میں بہت فرق ہوتاہے لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خان صاحب دونوں ہی ٹھیک نہ چلا سکے
ہمارا اور ہمارے مُلک کا اللہ   حافظ !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply