گمنام کتبوں کی داستان۔۔سویرا بتول

رات کا سناٹا ہر سوں پھیل رہا تھا۔ افق پر چھاٸے سیاہ بادل اور کالی گھٹا رات کی سیاہی پر مہر ثبت کر رہے تھے۔ یہ شب کا نصف پہر تھا، جب وہ یکدم ایک خوبصورت خواب سے بیدار ہوٸی تھی۔ شب کی ساعتیں اپنی وحشت سمیٹے گزرتی جا رہیں تھیں۔ ہر سوں چھاٸی خاموشی فضا کو مزید وحشت ناک بنا رہی تھی۔ وہ کئی ساعتیں اس مقام پر خاموش بیٹھے گزار سکتی تھی، جہاں جگہ جگہ شہدائے گمنام کے کتبے ہماری بے حسی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ یہ شہید ناصر صفوی کی صدا تھی، جو شب کے اس پہر اپنے رب سے مناجات میں مشغول تھے۔ شہید اپنے رب سے راز و نیاز کرتے گویا تھے: “میں نے دیکھا اور ہر عاقل کی آنکھ دیکھے گی کہ خدا کی محبت ہر محبت سے زیادہ شیریں تر اور اُس کے فرمان کی اطاعت شیطان اور شہوتِ نفس کی اطاعت سے محبوب تر ہے۔ لوگو! ہمیشہ رہنے والے عذاب سے بچنا کہ جس کا وعدہ انبیاء نے بدکاروں سے کیا۔ جلد ہی گزر جانے والے دنیا کے گناہوں سے پرہیز کرنا، عاقلانہ تر اور حتمی رحمت و لذت اور آرام دہ بہشت کی امید، فانی، خیالی اور احتمالی لذت سے مستحکم تر اور استوار تر ہے۔”

یہ اُس نواب صفوی کا گمنام کتبہ تھا، جو اپنے امام (عج) کے عشق میں اپنی ہمسر کے ہمراہ خون میں نہلایا گیا۔ وہ گھنٹوں سوچتی کہ کیا ان کے گھر بار نہیں تھے؟ ان کے سامنے پرآساٸش زندگیاں موجود نہ تھیں؟ وہ چاہتے تو عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے، خوشحال ہری بھری۔ مگر انہوں نے ہماری طرح اہل بیت (ع) سے زبانی عشق کے دعوے نہیں کئے اور حسین (ع) تک پہنچ گئے۔ ابھی وہ محو حیرت تھی کہ شہید محرم علی کی قبر پر ابر رحمت ہونا شروع ہوئی۔ گمنام کتبہ جہاں فقط برسی کے موقع پر ہجوم عام ہوتا ہے، آج اس ابر باراں کے برسنے پر نوحہ کناں تھا۔ یہ اُس جری کی قبر تھی جس کے قصے زبانِ زدعام نہ کیے گئے۔ اُس جیسا شیر دل شاید ہی کسی ماں نے پیدا کیا ہو، جو ہر لحظہ اپنے کردار اور گفتار سے یہ کہتا دکھاٸی دیا کہ میں امام عصر (عج) کا سپاہی ہوں۔ یزید دوراں کو موقع نہیں دوں گا کہ میرے امام (عج) کی اہانت کرے۔ اس قبر کا گمنام کتبہ آج بھی اپنے پیاروں کا منتظر ہے۔

وہ اکثر سوچتی کہ خود کو عاشق الشہداء کہلانے والے کیا آج جانتے ہیں کہ محرم علی کے اہل خانہ کس حال میں ہیں؟ اُس گھر کی شکستہ دیواریں کس کی بےحسی پر نالاں ہیں؟ وہ بیوہ جو چار دن کی دلہن تھی، آج کس کسمپرسی میں زندگی گزار رہی ہے؟ کیا یہی شہداء کے لہو سے عشق کے تقاضے ہیں۔؟ ابھی اُس کا ضمیر اسے جھنجھوڑ ہی رہا تھا کہ کہیں سے خرم ذکی کی صدا آٸی۔۔ بیدار ہو جاٶ بھاٸیو کہ ہم نے امام حسین (ع) سے فقط زبانی عشق نہیں کیا، مظلوم کے حامی رہو اور ستمگر کے خلاف میدان میں رہو۔ یاد رکھو کہ کربلا ختم نہیں ہوٸی بلکہ آج بھی “کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا” کی صدا گونج رہی ہے۔ اس صدا اور اس شخصيت سے کون واقف نہ تھا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والا پاکستان کا یہ نامور اور بہادر صحافی فقط چالیس برس کا تھا،جب تکفیریت کے ہاتھوں موت کے گھاٹ چڑھا۔

اس کا قصور فقط یہ تھا کہ اس نے ملک میں مذہبی انتہاء پسندی اور فرقہ پرستی کو چیلنج کرنے کے لیے بے خوفی سے آواز بلند کی تھی۔ ان کے علاوہ شہید پروفیسر تقی ہادی، ڈاکٹر حیدر علی، ڈاکٹر محمد علی نقوی، شہید محسن نقوی، شہید ناصر عباس ملتان، شہید عارف حسین الحسینی اور ایسے ہزاروں شہداء کے گمنام کتبے موجود ہیں، جو مذہبی جنونیت کی نظر ہوٸے۔ یہ پاکستان کے وہ چند شہداء تھے، جن پر بہت کم قلم اٹھایا گیا۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ اور نسل کشی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اگر ارباب اختیار نے اس طرف توجہ نہ دی تو شاید یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہوسکے۔ ملک کے بہترین معمار مذہبی جنونیت اور انتہاء پسندی کی نظر ہوٸے۔ بلاشبہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ افسانہ نہیں حقیقت ہے۔ شناخت کرکے ہمیں مارے جانے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ باقاعدہ طور پر شناختی کارڈ پر علی اور حسین لکھا دیکھ کر گولیوں سے بھن دینا عام بات ہے۔

آج بھی ہمارے ہزاروں جوان جو ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں، کال کوٹھریوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، نہ انہیں اُن کا جرم بتایا جاتا ہے اور نہ ہی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ جبری گمشدگی کی داستان اتنی ہی پرانی ہے، جتنی شیعہ نسل کشی کی۔ آخر اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ کب تک ہمارے قبرستان عباس (ع) کے عَلم سے پُر ہوتے رہیں گے؟ کب تک ہم لاشیں لیکر دھرنے دیتے رہیں گے؟ تکفیری فکر کو پشت پناہی فراہم کرنے والے آج تک قومی دھارے کا حصہ کیوں نہ بنے؟ تکفیری فکر کو پروان چڑھانے والے آج تک کسی عدالتی کاروائی سے کیوں نہ گزرے؟ کیا ریاستِ مدینہ کے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟ کیا ہم ایک مردہ قوم ہیں، جہاں ایک مکتب سے مخصوص افراد کو مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور کوٸی پرسان حال نہیں؟ کیا علی (ع) اور حسین (ع) کہنا اتنا بڑا جرم ہے۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply