اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

عجب تماشا ہے‘ عقل و شعور محوِ تماشا ہیں۔ ہم ملوکیت کے آسمان سے گرے تو جمہوریت کی کھجور میں جا اٹکے۔ اس شجرِ بے سایہ سے یاری ایسی بے فیض ہے کہ دھوپ لگے تو سایہ نہیں ملتا اور بھوک لگے تو پھل دُور ۔ عجب تشنہ لبی ہے۔ ہم گھر کے رہے‘ نہ گھاٹ کے۔ اہلِ مشرق کا دل مغرب میں جا اَٹکا ہے، اِس لیے سائنسی ایجادات کے ساتھ ساتھ معاشرتی ادب اور سیاسی آداب بھی وہیں سے درآمد کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ہم ہر حال میں اہلِ مغرب کی گڈ بکس میں آنا چاہتے ہیں۔ یکسر غافل ہیں کہ جس طرح سائنسی آلات کی ٹیکنالوجی کا ریموٹ کنٹرول اُن کے ہاتھ میں ہے، اسی طرح جمہوریت ایسے ٹولز کا ریموٹ بھی اُن ہی کے پاس ہے۔ وہ جب چاہیں‘ ایک بٹن دبا کر ہماری ”پھلتی پھولتی“ جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر ہم سے ”بہترین انتقام“ لے سکتے ہیں۔ مقامِ غور ہے‘ انہیں اپنے مرضی کا وائسرائے مل جائے تو مارشل لاء تو کجا‘ ایک نسلی بادشاہت بھی ان کے وارے میں ہے۔ ہاں! اگر کوئی اونچ نیچ کرے تو جمہوریت کی ڈگڈگی پر کسی بھی بچے جمورے کو دائیں سے بائیں کیا جا سکتا ہے۔ مصر میں عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ جمہوری صدر مُرسی انہیں ایک آنکھ نہیں بھایا کہ اُن کا ہم آواز نہیں تھا، اور اس کا تختہ الٹنے والا فوجی ڈکٹیٹر اُن کی آنکھ کا تارا ہے۔ اِسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں ملوکیت کے نسلی تخت پر براجمان بادشاہان کرام اُن کے مہمانان خصوصی ہیں کہ اُن کی پسندیدہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہی حال ترکی کا ہوا چاہتا تھا، ایک جمہوری وزیر اعظم کا تختہ اُلٹنے والے باغی‘ مغربی میڈیا میں انقلابی قرار دے دیے گئے۔ وہ تو بھلا ہو عوام کا‘ جنہوں نے بروقت سڑکوں پر نکل کر اِن نام نہاد انقلابیوں کو ناکام بنایا۔
خودداری ایک بیش قیمت جوہر ہے، اِس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اِس لیے جو بھی قیمت بَن پڑے‘ غیّور قومیں اَدا کرتی ہیں۔ اقبال کا شاہین بھوکا رہنا قبول کرتا ہے‘لیکن بلند پروازی پر سمجھوتا نہیں کرتا، مُردار دیکھ کر کرگس کی طرح زمین بوس نہیں ہوتا۔ اُس کی بلند پروازی‘ اُس کی خودی ہے، اُس کی پہچان ہے، اُس کا جوہرِ ذاتی ہے اور اُس کی بقا ہے۔ کہتے ہیں کہ بارش سے بچنے کے لیے عام پرندے کونے کھدرے ڈھونڈتے ہیں‘ لیکن شاہین بچہ بارش سے بچنے کی تدبیر یہ کرتا ہے کہ بلند سے بلند پرواز ہوتا چلا جاتا ہے، بادلوں سے اوپر چلا جاتا ہے— ”زمینی حقائق“ کو رینگنے والے کیڑوں مکوڑوں کے لیے نیچے چھوڑ دیتا ہے— قصرِ سلطانئ جمہور کے گنبد پر نشیمن انداز نہیں ہوتا۔ فی زمانہ قصرِ سفید سلطانئ جمہور کا ترجمان ہے۔ جمہوریت اور تہذیب کے سارے سرٹیفکیٹ یہاں سے جاری ہوتے ہیں۔
حیرت ہے‘ وہ دین جس میں بتایا گیا ہے کہ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے، بینا کبھی نابینا کے برابر نہیں ہوسکتا اور جاننے والا‘ نہ جاننے والے کے برابر نہیں ہوسکتا‘ اُسی دین کے ماننے والے مقدار کی دنیا کے ایسے اَسیر ہوئے کہ بندوں کو تولنے کی بجائے گننا شروع کر دیا۔ مغربی طرزِ فکر کی اندھی تقلید نے یہی دن دکھانے تھے۔ دراصل ہمیں اپنا سیاسی نظام خود وضع کرنا تھا— لیکن ہم اپنے خدا کو بھول گئے‘ پیغامِ خدا بھول گئے— اور نتیجہ یہ کہ خودداری سے محروم ہو گئے۔ فکر کی پستی کا یہ عالم کہ خود کو دینی راہنما کہلوانے والے بھی جمہوریت کا راگ الاپنے لگے۔ دین کی بجائے جمہوریت کا ”تحفظ“ اِن کا منشور قرار پاتا ہے۔ یہ بھی جمہوری نمک کی کان میں جا کر نمک ہو گئے۔
عادل فاروق کہ ایک شاگردِ ذی فہم ہے‘ اِس کا سوال تھا کہ اہلِ مغرب جنہوں نے یہ جمہوری نظام وضع کیا ہے‘ کیا انہیں اس نظام کی خرابیوں کا علم نہ تھا؟ دراصل چیزیں ہمیشہ اپنے تقابل میں بہتر یا بدتر قرار پاتی ہیں۔ مغرب نے سینکڑوں برس پر محیط ملوکیت اور پاپائیت کا گٹھ جوڑ برداشت کیا تھا،اس لیے اُن کے لیے انقلابِ فرانس ہی سب سے بڑا فکری انقلاب تھا۔ ظاہر ہے‘ ملوکیت کے مقابلے میں جمہوریت ایک بہتر نظام ہے، لیکن وہ قوم جس کے پاس آسمانی ہدایت اور معیار اپنی اصل حالت میں موجود ہو‘ اس کے لیے مقدار کی دنیا کے ضابطوں کی اندھا دھند تقلید قابلِ تعجب ہے۔ شومئی قسمت‘ اِسلام کی تاریخ کے اوائل ہی میں ہم ملوکیت کی گود میں جا بیٹھے۔ معیار کا پیغام سننے والوں کی آنکھیں مقدار نے خیرہ کر دیں۔ اُس وقت باقی اقوامِ عالم میں بھی ملوکیت ہی قائم تھی‘ اس لیے ہمیں اپنی اجتماعی سیاسی خامی پر کوئی اچنبھا نہیں ہوا۔ جب اہلِ مغرب نے بصد کوشش ِبسیار‘ ملوکیت سے جان چھڑائی اور آزادئ جمہور کی طرح ڈالی‘ اُس وقت تک ہم ہنوز ملوکیت کے زیرِ اثر تھے، یوں تقابل میں ہم ایک بار پھر بیک بینچر ہو گئے‘ پیچھے رہ گئے۔ ازاں بعد اہلِ مغرب کی کالونی بن گئےٗ اُن ہی سے تعلیم پاتے رہے اور ان کی اقدار کو معیار سمجھتے رہے۔ مقدار اور گنتی کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا یہ جمہوری نظام ایک بے دین معاشرے کے لیے تو ٹھنڈی ہوا ثابت ہوا، فیصلہ ہو گیا کہ وہ بادشاہ کی مانیں گے‘ نہ پوپ کی‘ بلکہ اپنے فیصلے خود کریں گے، اکثریت جو چاہے گی‘ وہی قانون ہوگا۔ چنانچہ اِس کے منطقی نتیجے میں آج اگر اکثریت شراب نوشی، جوا، بن شادی کے بچےاور ہم جنس پرستوں کی شادی ایسے اقدامات کی توثیق کر دیتی ہے تو یہ قانون ہے جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی اِس پر انگلی اٹھاتا ہے تو وہ گویا اُن کےجمہوری حق پر ضرب لگاتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے مفکرین نے اپنی بگڑی ہوئی تاریخ کی سمت درست کرنے کی بجائے‘ مغرب سے درآمد شدہ ریڈی میڈ جمہوریت کی سلی سلائی اچکن اپنے ہاں بھی امپورٹ کرنے کی ٹھان لی۔ اب یہ جمہوری لباس ہمیں پورا نہیں آتا— کبھی ہماری معیشت کے پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں اور کبھی ہماری اقدار کا سر ننگا ہو جاتا ہے— کہتے ہیں‘ ننگے سر شیطان دھول جماتا ہے۔ چاہیے تھا‘ اور چاہیے ہے کہ ہم اپنا سلسلۂ فکر وہیں سے جوڑیں ٗ جہاں سے انحراف شروع ہوا تھا۔ جہاں سے غلط رخ اختیار کیا تھا‘ وہیں سے اپنےسفر کا آغاز کیا جائے۔ ”وامرھم شورٰی بینھم“ ملوکیت اور پاپائیت دونوں کی نفی ہے۔
پارلیمنٹ کا نام مجلسِ شورٰی رکھنے سے جمہوریت مسلمان نہیں ہو جاتی، پرائم منسٹر کو امیرالمومنین کہہ دینے سے اسلامی نظام قائم نہیں ہوتا۔ اسلامی نظام عدل پر قائم ہوتا ہے، اور عدل کا تعلق مقدار سے زیادہ معیار سے ہے۔ عدل تو دُور کی بات‘ ہم ابھی تک محروموں کو انصاف بھی نہ دے سکے۔ عدل ہر شئے کو اُس کے درست مقام پر رکھنے کا نام ہے۔”ہر مال دو آنے“ عدل نہیں— یہ لوٹ سیل ہے‘ یا پھر لوٹ مار!! ایک طفلِ مکتب اور ایک جہاں دیدہ کی رائے کو برابر وزن دینا عدل نہیں۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے کے حقِ رائے کو برابر تسلیم کرنا عدل نہیں۔ عدل کا اُلٹ ظلم ہے۔ اگر کسی ہسپتال میں ڈسپنسروں کی اکثریت ایک قابل سرجن کے خلاف ہو جائے تو اُن کی رائے کو ایک جمہوری حق تسلیم کرتے ہوئے سرجن کو آپریشن تھیٹر سے نکال باہر کرنا‘ جاں بلب مریض پر ظلم ہے۔عادل اور غیر عادل برابر نہیں ہو سکتے۔ خائن اور امین برابر نہیں ہو سکتے۔
حیرت در حیرت ‘ اسلامی معاشرے میں کسی پربددیانتی کا الزام لگتا ہے، مقدمہ درج ہوتا ہےٗ لیکن اُسے نہ بری کیا جاتا ہے‘ نہ سزا ہی سنائی جاتی ہے۔ اگر کوئی عہدیدار خائن ثابت ہو جاتا ہے تو اُسے قرارِ واقعی سزا ملنی چاہیے‘ عبرت ناک سزا— ایسی سزا جسے دیکھ کر بددیانتی کا ارادہ کرنے والا کبھی سیاست میں آنے کا ارادہ نہ کرسکے۔ اس کے برعکس اگر کسی پر جھوٹا الزام دھرا جاتا ہے ، بہتان لگایا جاتا ہے تو اُس پر حدِ قذف جاری ہونی چاہے۔ ملکی سیاست میں جھوٹ ایک ناقابلِ معافی جرم ہونا چاہیے۔
سلطانئ جمہور کی بات ہو رہی تھی‘ سیاسی اور معاشرتی نظام تو دُور کی بات ‘ بحیثیتِ طبیب ایک عام مشاہدہ ہے کہ طبی معاملات میں بھی مغرب سے درآمد شدہ اَدویات یہاں کے باشندوں کو اُس طرح سے راس نہیں جس طرح اُن کے اپنے لوگوں پر کارگر ہوتی ہیں۔ اُن کا ماحول اور موسم یہاں سےمختلف، اُن کی جینیاتی ترکیب ہم سے ذرا سی مختلف، غذائی عادات سراسر مختلف‘ لامحالہ یہاں اُن کی دَوا اُس طرح کام نہیں کرے گی جس طرح اُن کے اپنے ہاں کام کرتی ہے۔ چین، جاپان اور کوریا ایسے ممالک اِس معاملے میں زیرک ہیں۔ وہ سائینس مغرب کی پڑھتے ہیں‘ اَدویات کا انتخاب مقامی کرتے ہیں۔ ہمیں بھی صرف جمہوری اقدار سیکھنی ہیں‘ کہ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے ٗ لیکن اپنے لیے جمہوری نظام ہم نے یہاں کے مقامی حالات کے مطابق خود تشکیل دینا ہے۔ مادر پدر آزاد جمہوریت اور میڈیا ‘ہمیں مغرب کا غلام بنا دے گا۔ جب تک ہم اِس مغربی ماڈل سے فکری طور پرنجات حاصل نہیں کر لیتے‘ مغرب سے آزاد ہونے کا خواب تعبیر نہیں پا سکتا۔
ایک جاگیردارانہ نظام میں جمہوریت کا ڈھونگ اقتدار کو چند خاندانوں تک محدود رکھنے کی تدبیر ہے۔ جب تک امیر اور غریب کے درمیان معاشی خلیج ناقابلِ عبور رہے گی‘ اس وقت تک جمہوریت دولت مندوں کے ایک لگژری کلب کی ایک ایسی تفریحی سرگرمی ہے‘ جہاں وہ اپنے کاروبار کے تحفظ اور پھیلاؤ کے قوانین وضع کرتے ہیں۔ عرفِ عام میں پارلیمنٹ کی حیثیت دارُالاُمَراء کی ہوگی۔ سلطانئ جمہور‘ درپردہ اہلِ ثروت کے سر پر تاجِ سلطانی سجانے کی تقریب ہے۔
ہمیں اپنے سیاسی نظام کو ‘ نظامِ مملکت کوٗ نظام ِ تعلیم کوٗ اپنے معروضی حالات اور دینی تقاضوں کے مطابق تشکیل دیناہے۔ ڈیموکریسی میں ٹیکنوکریسی کی اس طرح آمیزش کرلی جائے کہ اہلِ علم کی رائے ہر حال میں فائق رہے‘ مقدار اپنے زعمِ حجم میں کسی معیار کو نیچا نہ دکھا پائے‘ کوئی دینی قدر ووٹوں کے بل بوتے پر پامال نہ ہو پائے‘ تو شائد اس تدبیر سے کوئی جمہوری ماڈل ہمیں بھی راس آ جائے۔ تعداد اور مقدار کی بجائے‘ معیار اور صداقت کی طرف رجوع کر لیا جائے تو شائد اسلامی شورائی نظام کے تقاضے پورے ہوپائیں۔ بصورتِ دیگر وہی کچھ ہوگا ‘جو کچھ ہو رہا ہے۔
جب تک لوگوں کی اکثریت تعلیم یافتہ نہ ہو جائےٗ شعور آشنا نہ ہو جائے‘ اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کے قابل نہ ہو جائے‘ کھوٹا اور کھرا پہچاننے کی اہل نہ ہو جائے‘ سب کی رائے کو یکساں شمار کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ جہاز کے کاک پٹ میں سب مسافروں کو یکساں رسائی دینے کی مہم جوئی ‘ملک و ملت کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ رائے دینا صرف اہلِ رائے کا حق ہے۔ امانت صرف اُس کے اہل کو دینے کا حکم ہے۔
؎ اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply