پاک روس تعلقات اور پائپ لائن۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

17 اکتوبر 2015 کے انگریزی زبان کے پاکستانی اخبار “ایکسپریس ٹریبیون” میں شائع شدہ خبر کے مطابق پاکستان کے وزیر برائے پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور روس کے وزیر برائے توانائی الیکساندر نوواک نے اسلام آباد میں، کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس پائپ لائن کے توسط سے مائع کردہ قدرتی گیس کی ترسیل کی جانی ہے۔ اخبار کی مذکورہ خبر کے مطابق معاہدہ طے پانے کے چار ماہ بعد ممکنہ طور پر صدر روس ولادیمیر پوتن پاکستان تشریف لائیں گے تاکہ پائپ لائن کی تعمیر کی بنیاد رکھے جانے کی تقریب میں شریک ہوں۔
اخبار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک معتمد پاکستانی افسر نے بتایا ہے چونکہ چند ماہ پیشتر تیس سال بعد روس نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کا ایک سمجھوتہ کیا تھا جس کے عوض حکومت پاکستان ٹینڈر جاری کیے بغیر گیس پائپ لائن کی تعمیر کا ٹھیکہ براہ راست روس کی کمپنی ” آر ٹی گلوبل ریسورسز” کو مرحمت کر دے گی۔ افسر مذکور نے یہ بھی بتایا کہ کمپنی مذکور ایک روسی سرکاری کارپوریشن ہے جو گیارہ سو کلومیٹر لمبی پائپ لائن “تعمیر کرو، چلاؤ اور منتقل کر دو” کی بنیاد پر تعمیر کرے گی۔ پائپ لائن پر 2 ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ معاہدے کے مطابق تعمیر کے اخراجات کا پندرہ فیصد حکومت پاکستان دے گی جبکہ 85 فیصد اخراجات روسی کمپنی برداشت کرے گی اور تعمیر کے 25 برس بعد اس پائپ لائن کو حکومت پاکستان کے حوالے کر دے گی۔
3دسمبر 2016 کو چینل الجزیرہ نے خبر دی تھی کہ ولادیمیر پوتن نے وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے دورہ پاکستان کی دعوت رد کر دی۔ مارچ 2016 روس کے صدر کی انتظامیہ نے پوتن کا ایک بیان جاری کیا کہ “پاکستان کے دورے کی ٹھوس وجوہ نہیں ہیں”۔ اب 30 مارچ 2017 کے انگریزی زبان کے ایک دوسرے اخبار “دی نیوز” نے خبر لگائی ہے کہ روس کے صدر شمال جنوب گیس پائپ لائن کی تعمیر کا افتتاح کرنے کی خاطر ممکن ہے مئی 2017 میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اخبار نے احتیاط برتتے ہوئے “ممکن ہے” لکھا ہے کیونکہ روس کے صدر کی آفیشل سائٹ پر ایسے کسی دورے کی اطلاع نہیں ہے اور نہ ہی روس کی جانب سے اس بارے میں کسی اور کی جانب سے کچھ کہا گیا ہے۔
معاہدے پر ڈیڑھ برس پہلے دستخط ہوئے تھے اور ابھی تک زمین سے مٹی کی ایک کسی تک نہیں اٹھائی گئی ہے۔ ایسا نہ ہونے کی کچھ وجوہ ہیں۔ بلومبرگ کے مطابق “آر ٹی، گلوبل ریسورسز” نام کی کمپنی،روسی سرکاری کارپوریشن “روس ٹیکنالوجیز” کی ذیلی کمپنی ہے جو خام مال اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو آنکتی ہے، انتظام کرتی ہے اور بیچتی ہے۔ یوں یہ کمپنی اپنے طور پر تعمیرات کا کام نہیں کرتی بلکہ اپنے آنکے اور انتظام کردہ منصوبوں کی تعمیر کا ٹھیکہ دوسری پیشہ ور کمپنیوں کو دیتی ہے جو ان منصوبوں پر سرمایہ کاری کریں اور کام مکمل کریں۔
یہ کام ڈیڑھ برس سے اس لیے نہیں رکا ہوا کہ پوتن صاحب دورہ پاکستان کرنے پر رضامند نہیں ہیں بلکہ اس لیے رکا ہوا ہے کہ یہ معاہدہ ایک پاکستانی کے توسط سے ہوا تھا۔ اس کا ساتھ کچھ بڑے فرشتوں نے دیا تھا اور پھر اس منصوبے سے وابستہ پاکستان کے دوسرے اداروں اور شعبوں کے سرکردہ افراد بھی منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ پاکستانی دلال ٹھیکہ دیے جانے کے سلسلے میں فرشتوں اور افسر شاہی کے ایماء پر روڑے اٹکا رہا ہے۔
ایک کمپنی جو پائپ لائن تعمیر کرنے کا کام کرتی ہے، کے مالک کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں دو بار پیرس میں پاکستان کے متعلقہ وزیر سے مل چکا ہے، بات بھی ہوئی تھی لیکن بات آگے نہیں چل پا رہی۔ بقول اس کے اگر اسے ٹھیکہ مل جائے تو وہ کل سے پاکستان میں کام شروع کروا سکتا ہے۔ دینے دلانے کا کام تو چلتا ہی رہتا ہے، وہ یہ بھی کرنے کو تیار ہے مگر کہتا ہے کہ دو ارب ڈالر کا کام چار ارب میں تو نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ تو خیر اس نے مبالغہ کر دیا مگر کمیشن ایک جگہ پر نہیں بیس جگہ پر دینا پڑتا ہے چونکہ تعمیر کرنے والی کمپنی نے “آر ٹی گلوبل ریسورسز” کے تعاون سے 25 سال اسے چلانا ہے تو اپنے پیسے پورے کرنے اور منافع کمانے کے لیے وہ اخراجات بہت زیادہ نہیں بڑھا سکیں گے۔ دو ارب ڈالر کے منصوبے میں پچاس لاکھ یا ایک کروڑ یا زیادہ سے زیادہ دو کروڑ ڈالر کمیشن دینے پڑیں تو کوئی بات نہیں لیکن اگر کمیشن ہی پچاس کروڑ ڈالر بنا دیا جائے اور وہ بھی تعمیر ہونے سے پہلے یا مدت تعمیر کے درمیان دینا پڑے تو کوئی ایسے منصوبے میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یہ کوئی بیچنے کا سودا نہیں کہ آپ نے طیارے یا بحری جہاز بیچے۔ آپ کو قیمت ملی اور آپ نے کمیشن یا کک بیک ٹرانسفر کر دی۔
اب یہ بتایا گیا ہے کہ شاید آر ٹی گلوبل ریسورسز دس اپریل تک کسی کمپنی کا نام دے دے جسے اس کی جانب سے ٹھیکا دیا جانا مقصود ہوگا لیکن اگر حصہ مانگنے کا سلسلہ جیسے کا تیسا رہا تو ایک سال مزید بیت جائے گا اور پائپ لائن کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہو پائے گا۔
صدر روس ولادیمیر پوتن کے دورہ پاکستان نہ کرنے سے متعلق “ٹھوس وجوہ نہ ہونے” کا جو بیان تھا اس کا مطلب یہی تھا کہ مفاہمتی یادداشتوں تا حتٰی معاہدوں تک پر دستخط ہو جاتے ہیں لیکن افسر شاہی کی بدعنوانیوں کی وجہ سے کوئی بیل منڈھے نہیں چڑھ پاتی۔ روسیوں کو آج بھی اعتبار نہیں ہے کہ پاکستان کی کسی سیاسی حکومت سے بات کرنا سودمند ہے یا بیکار، ہاں البتہ پاکستان کی فوج سے بات کیا جانا اور معاملہ خیال کیا جائے گا۔ چین نے بھی تو سی پیک کے لیے تحفظ کی ضمانت حکومت وقت کی بجائے فوج سے لی ہے۔ یوں واضح ہوتا ہے کہ روس پاک تعلقات کی ترقی میں امریکہ کی بجائے اپنے ہی بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply