سڑک اور ٹھرک۔۔سیّد مہدی بخاری

مشہور کہاوت ہے کہ سڑک اور ٹھرک انسان کو کہیں بھی لے جا سکتی ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ آج دیکھنے میں آیا۔ صبح ترکی کے شہر بُرصہ سے استنبول جانے کی غرض سے سفر کا آغاز کیا۔ موٹروے پر گاڑی چلاتا رہا۔ بیگم برابر میں بیٹھی بڑے خوشگوار موڈ میں باتیں کر رہی تھی۔ دورانِ سفر ایک لیڈی ٹریفک اہلکار نے میری گاڑی کو رکنے کا اشارہ دیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک ترک لڑکی وردی میں ملبوس فلوروسنٹ گرین جیکٹ پہنے پٹرولنگ کار کے ہمراہ تنہا ہی موٹروے پر کھڑی ہے۔

میں نے اس کے اشارے پر گاڑی سائیڈ پر لگا لی۔ ڈرائیونگ سیٹ سے اتر کر باہر نکلا۔ صاحبو، دیکھا تو کیا ہی ماشااللہ حسین وارڈن تھی۔ بھئی روح راضی ہو گئی۔ ایسی وارڈنز ہوں تو ہر شخص خوشی خوشی چالان کٹوا کے جائے۔ دراز قد، سنہری بال، گوری رنگت اور نین نقش بالکل یونانی۔ سائرن تو اس کی پٹرولنگ کار پر لگا تھا مگر بجنے میرے اندر لگا۔

میں نے انتہائی ادب سے قریب ہو کر “السلام علیکم” کہا۔ اس نے مجھے انتہائی دھیمے لہجے میں “وعلیکم السلام” کہا۔ پھررا سا مسکراتے ہوئے ترک زبان میں بولی ” سرومی اہلیتئی”۔ ظاہر ہے اتنی تو مجھے بھی سمجھ تھی کہ ٹریفک پولیس لائسنس ہی مانگے گی ناں۔ میں بس اسےذرا بغور دیکھنا چاہتا تھا تو میں نے اسے اپنے سفری بیگ سے نکال کر کریڈٹ کارڈ تھما دیا۔ اس نے دیکھا اور بالکل معصوم بچوں جیسا حیران ہوتے ترک زبان میں کچھ بولی اور مجھے کارڈ واپس کرتے پھر بولی “لیسانس”۔ ترک زبان میں لائسنس کو یونہی بولتے ہیں۔

میں نے اس سے سوری کی اور کریڈٹ کارڈ واپس لیتے ہوئے اسے سفر بیگ سے نکال کر اپنا پاسپورٹ تھما دیا۔ اس نے پاسپورٹ دیکھا اور اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر ہلکی سی زمین پر پٹختے کچھ بولی۔ ایسے جیسے بچہ کوئی تنگ آ رہا ہو۔ یقین مانئیے انتہائی پیارا انداز لگا اس کا۔ پھر اس نے مجھے انگلی کے اشارے سے کھڑے رہنے کا کہا اور کچھ سوچنے لگی۔ پھر اس نے گاڑی کی جانب اشارہ کیا اور اشارے سے سمجھانے کی کوشش کرنے لگی۔

میں نے مزید چھیڑ خانی مناسب نہ جانی کہ وہ مزید پریشان ہو جاتی۔ میں نے اسے کہا اوکے سمجھ گیا۔ ڈرائیونگ لائسنس۔ جیسے ہی میں نے ڈرائیونگ لائسنس نکالا وہ اسے دیکھ کر خوش ہوئی اور اتنا پیارا سا مسکرائی جیسے بچے نے اپنی بات توتلی زبان میں بڑے کو سمجھا دی ہو۔ بلاآخر اس نے ہاتھ میں تھامے ٹیب پر لائسنس نمبر ڈال کر کچھ چیک کیا اور مجھے واپس کرتے ہوئے اشارے سے کہا کہ تم جا سکتے ہو۔

گاڑی میں بیٹھا تو بیگم جو یہ سب بغور دیکھ رہی تھی وہ بولی ” شیم آن یو۔ میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی آپ اس کو جان بوجھ کر تنگ کرنے لگے ہوئے تھے۔ جب آپ اکیلے نکلتے ہوں گے تو کیا کیا نہ کرتے ہوں گے؟ ٹھرکی انسان”سفر کا سارا راستہ بیگم کا موڈ نارمل کرنے میں بیت گیا۔ آخر کار وہ نارمل ہو ہی گئی۔ شام کو استنبول میں چلتے دیکھا کہ ایک لڑکی پِکل جوس (pickle juice) بیچ رہی ہے اور اس کو ہر راہ چلتے کو مفت میں ٹیسٹ کروانے کو آگے بڑھ بڑھ کر روک کر ان کو چھوٹی سی گلاسی میں پیش کر رہی ہے۔

لڑکی بہت سلجھی ہوئی معلوم ہوئی۔ محنت کشوں سے مجھے یوں بھی الفت ہے اور ورکنگ وومن کی تو لازمی دلجوئی کرنا چاہئیے۔ میں نے اس بیچاری کا دل رکھنے کو اس کا ٹیسٹ کروانے کی خاطر پیش کردہ جوس تھام لیا۔ بیگم بھی مجھے دیکھ کر رک گئی۔ ایک گھونٹ بھرا۔ انتہا درجے کا کھٹا، نمکین اور سپائسی تھا۔ مجھ سے نہ پیا گیا۔ اس لڑکی کو گلاس واپس تھماتے شکریہ ادا کر کے آگے بڑھنا چاہتا تھا مگر وہ میری جانب “گاہکانہ” نظروں سے دیکھنے لگی۔

اس کی اداس صورت دیکھ کر میرا دل پسیج گیا تو میں نے پانچ لیرے کا ایک گلاس جوس خرید لیا۔ بیگم کو تھمایا۔ بیگم نے گھونٹ بھرا۔ پھر بھرا ہوا گھونٹ اگلتے ہوئے بولی ” یہ کیا شے لے لی ہے۔ خود پسند نہ آئی تو مجھے لے دی۔ میں نے تو آپ کو نہیں کہا تھا کہ خرید لیں۔ اب یہ سارا خود پیئیں “۔ بھلا میں کیسے پی سکتا تھا۔ میں نے کہہ دیا کہ بیگم محنت کش لڑکی تھی بس جذبہ ہمدردی کے زیر اثر خرید لیا۔ بیگم کا سن کر پارہ چڑھنے لگا اور پھر وہی صبح والی کیسٹ چل پڑی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دو گھنٹے بعد اس کا موڈ نارمل ہوا۔ ابھی کچھ دیر قبل وہ بولی ” میں نے نوٹ کیا ہے کہ مجھے آجکل کافی یورن آ رہا ہے۔ کچھ کچھ دیر بعد۔ کہیں مجھے بھی تو شوگر نہیں ہو گئی؟ آپ کے گلوکومیٹر سے چیک کریں ؟”۔ میں پتا نہیں کس دھن میں گم تھا۔ میں نے بے دھیانی میں کہہ دیا ” بیگم صاحبہ۔ شوگر ٹینشن لینے والے کو ہوتی ہے۔ ٹینشن دینے والے کو نہیں۔ تم بے فکر رہو”اب دیکھئیے کب حالات واپس معمول پر بحال ہوں۔ فی الحال تو اونچے درجے کا سیلاب گزر رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply