اخلاقی نفسیات (45) ۔ سزا/وہاراامباکر

انصاف (fairness) کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ اخلاقیات کی روایتی سٹڈی اس میں زیادہ مدد نہیں کرتی۔ روایتی خیالات میں انسان خودغرض ہے اور انصاف ایک قسم کی روشن خیال خودغرضی ہے۔ اس میں مقبول تھیوری ٹریورز کی رہی ہے جو جوابی ایثار (reciprocal altruism) کی ہے۔ ٹریورز کہتے ہیں کہ انصاف کے لئے جینیات کا ارتقا اس لئے ہوا کہ جن لوگوں کے جین انصاف پسندی کے تھے، وہ مقابلے کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل گئے۔ اس طریقے سے سے کامیاب گروپ بن سکتے تھے کیونکہ یہ بہترین حکمتِ عملی ہے۔ اور انصاف پسندی کا اخلاقی جذبہ صرف اس لئے ہے کہ ادلے کے بدلے کی طرف مائل کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اکیسویں صدی میں ارتقائی تھیورسٹ اس بات کو جان چکے ہیں کہ “جوابی ایثار” انسان کے علاوہ کسی اور نوع میں مشکل سے ہی ملتا ہے۔ اس کا مشہور دعویٰ ویمپائر چمگادڑ کا کیا جاتا تھا جو چوسا ہوا خون دوسری چمگادڑوں سے شئیر کرتی تھیں۔ اور ان سے جنہوں نے پہلے ایسا احسان ان کے ساتھ کیا ہو۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ محض رشتہ داروں تک محدود تھا۔ (ایوولیوشن میں یہ kin selection تھی)۔ چمپینزی اور کاپوچن بندر میں ایسا کئے جانے کے کچھ لیکن بڑے مبہم شواہد ملتے ہیں۔ ادلے کے بدلے کے لئے صرف اعلیٰ سماجی ذہانت ہی کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے گپ شپ، سزا اور اخلاقی کمیونیٹی کا بننا ضروری ہے۔ اور اس کے لئے زبان اور ہتھیار بھی درکار ہیں تا کہ bully کو ختم کیا جا سکے اور مشترک اخلاقی میٹرکس بن سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادلے کے بدلے کی تھیوری ایک اور بات کی وضاحت میں ناکام رہتی ہے۔ لوگ گروہی سرگرمیوں میں ایک دوسرے سے تعاون کیوں کرتے ہیں؟
ایسا اس صورت میں تو کام کر سکتا ہے جہاں پر دو لوگ ہوں لیکن گروہوں کی صورت میں کسی کے مفاد میں نہیں کہ بدلہ وہ شخص خود لے۔ لیکن ہم ایسا کرتے ہیں۔ سزا دیتے ہیں۔ اور سزا دینا بڑے پیمانے پر تعاون کی ایک کلیدی وجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حوالے سے ایک مشہور تجربہ ارنسٹ فیر نے سویٹزرلینڈ میں کیا۔ بارہ راونڈ کی ایک گیم کھیلنی تھی۔ اس میں آپ اور آپ کے تین ساتھیوں کو ہر راونڈ میں بیس ٹوکن ملنے تھے۔ (ہر ٹوکن تقریباً بیس روپے کا تھا)۔ آپ کے پاس اتنخاب تھا کہ یا تو ٹوکن رکھ لیں یا پھر انہیں گروپ کے مشترک ڈبے میں جمع کروا دیں۔ اور ہر راونڈ کے آخر میں تجربہ کرنے والے اس مشترک ڈبے کو 1.6 سے ضرب دے کر گروپ میں تقسیم کر دیں گے۔ اگر ہر کوئی اپنے تمام ٹوکن ڈبے میں جمع کروا دے تو 80 سے بڑھ کر یہ 128 ہو جائیں گے اور ہر ایک کو 32 ٹوکن مل جائیں گے (جن کے عوض بعد میں اصل پیسے دئے جائیں گے)۔ گروپ کا مفاد اس میں ہے کہ ہر کوئی تمام ٹوکن ڈبے میں ڈال دے۔ لیکن ایک فرد کا مفاد اس میں ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ڈالے۔ اگر باقی سب اپنے تمام ٹوکن ڈال دیں تو پھر ڈبے میں 60 ٹوکن ہوں گے جو ضرب کھا کر 96 ہو جائیں گے اور ہر ایک میں برابر تقسیم ہونے سے یہ 24 ٹوکن ہر کسی کو ملیں گے۔ ایسا کرنے والے شخص کے پاس اس راونڈ کے آخر میں کُل 44 ٹوکن ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شخص کو کمپیوٹر کے آگے بٹھایا گیا۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ گیم کھیلنے والے باقی لوگ کون ہیں۔ لیکن یہ پتا تھا کہ چاروں میں سے کس نے کتنا حصہ ڈبے میں ڈالا ہے۔
اور ہر راونڈ کے بعد فیر اور گاشٹر نے گروپ ممبران کو تبدیل کر دیتے تھے۔ ہر بار نئے پارٹنرز کے ساتھ کھیلنا تھا۔ اس صورت میں بھروسہ بنانے کا موقع نہیں تھا اور نہ ہی بدلہ لینے کا (یعنی کہ اپنا حصہ نہ دے کر)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر “سخت منطقی” شخص کے لئے انتخاب واضح ہے۔ ہمیشہ حصہ صفر ڈالا جائے۔ لیکن شرکاء ایسا نہیں کرتے تھے۔ اوسطاً دس ٹوکن پہلے راونڈ میں ڈالے جاتے تھے۔
جس طرح گیم آگے بڑھتی رہی، لوگوں کو کچھ پارٹنرز کی خودغرضی بھگتنی پڑی اور یہ حصہ کم ہوتا گیا۔ چھٹے راونڈ تک یہ چھ ٹوکن تک رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے تجربات میں نتائج ایسے ہی رہتے ہیں۔ یہاں پر کچھ سرپرائز نہیں تھی لیکن جس وجہ سے یہ سٹڈی شاندار ہے، وہ اس سے اگلا راونڈ ہے۔ چھٹے راونڈ میں تجربہ کرنے والوں نے ایک نیا اصول متعارف کروایا۔ آپ کو یہ علم ہو جائے گا کہ ہر پارٹنر نے کتنا حصہ ڈالا۔ اب آپ کے پاس ایک آپشن ہے۔ آپ دوسرے کھلاڑیوں کو “سزا” دے سکتے ہیں۔ اپنے ایک ٹوکن سے دستبردار ہو سکتے ہیں جس کے بدلے میں اس خاص شخص کو تین ٹوکن چھوڑ دینے پڑیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر بھی “سخت منطقی” شخص کے لئے انتخاب واضح ہے۔ کبھی بھی کسی کو سزا نہیں دینی چاہئے۔ سزا کی قیمت تو خود ہی دینی پڑے گی۔ اور جس کو سزا دی جا رہی ہے، اس کے ساتھ دوبارہ کھیلنا بھی نہیں کہ بدلا لینے سے آئندہ کا تعاون ملے یا اپنے سخت مزاج ہونے کی ساکھ سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر 84 فیصد لوگوں نے کم از کم ایک مرتبہ سزا دینے کا انتخاب کیا۔ اور اس سے بھی اہم نتیجہ یہ کہ سزا دینے کے بعد تعاون بہت بڑھ گیا۔ بارہویں راونڈ تک اوسط حصہ بڑھ کر پندرہ ٹوکن تک پہنچ چکا تھا۔
بڑے رویے کو سزا دینے سے اچھا رویہ بڑھتا ہے اور سب کو فائدہ دیتا ہے۔ اور جب سزا کا خوف ختم ہو جائے تو لوگ خودغرضی دکھاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایسا کیوں کہ زیادہ تر کھلاڑیوں نے سزا دینے کے لئے قیمت ادا کرنے کا انتخاب کیا؟ ہمیں یہ بہت ناپسند ہے کہ لوگ صرف لیں جبکہ دیں کچھ بھی نہیں۔ ہم دھوکے بازوں اور موقع پرستوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔ ہم خوش ہوتے ہیں اگر ان کے ساتھ برا ہو اور ایسا ہونے میں اپنا حصہ بھی ڈالتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا سمجھ لینا آسان ہے کہ مساوات کی اخلاقی قدر کی بنیاد “جوابی ایثار” پر ہے لیکن یہ درست نہیں۔ مساوات کی بنیاد کسی کے تسلط اور غلبے کے خاتمے کی قدر پر ہے۔ دھونس جمانے والے بدمعاش کو دھول چٹا دینے کا خوشگوار احساس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب لوگ کسی چیز میں اکٹھا کام کرتے ہیں تو عام طور پر ان کی خواہش یہ رہتی ہے کہ سب سے زیادہ محنت کرنے والے کو اس میں سب سے زیادہ فائدہ ہو۔ جب لوگ پیسے یا انعام تقسیم کرتے ہیں تو سب میں برابر تقسیم کرنا صرف ایک خاص کیس ہے جب سب نے برابر حصہ ڈالا ہو۔ جب کچھ نے زیادہ حصہ ڈالا ہو، یا پھر خاص طور پر کچھ ایسے ممبران ہوں جن کا کوئی بھی حصہ نہیں ہو تو لوگ ایسا کبھی نہیں چاہتے کہ ہونے والا فائدہ برابر تقسیم ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصاف کی یہ قدر ہمارے اخلاقی غصے کی حمایت کرتی ہے جب کوئی ہمارے ساتھ فراڈ کرے اور اس کا تعلق صرف ہمارے اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے سے نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply