عید بازار۔۔فرزانہ افضل

عید بازار۔۔فرزانہ افضل/جونہی رمضان کے بابرکت مہینے کا آغاز ہوتا ہے عید کی تیاری کے سلسلے میں بازاروں میں کپڑوں جوتوں اور جیولری کی دکانوں پر خواتین اور نوجوان لڑکیاں خوب جوش و خروش سے خریداری میں مصروف نظر آنے لگتی ہیں۔ مارکیٹوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور جب سے کورونا کی وبا نازل ہوئی ہے تو حفاظتی اقدامات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ درزی حضرات کو تو سر کھجانے کی فرصت نہیں رہتی، یوں حواس باختہ نظر آتے ہیں اور سلائی کے کپڑوں کے انبار تلے ہوش و خرد سے اکثر بیگانہ ہو جاتے ہیں اور کپڑوں کے ڈیزائن  یا ناپ وغیرہ میں گڑ بڑ ہونا تو عام سا واقعہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں گاہکوں کے ساتھ بھی  چخ چخ ہوتی  اکثر نظر آتی ہے۔ بھئ اتنا ہی کام پکڑیں جتنا پورا کر سکتے ہیں۔ کام اوور لوڈ ہو تو ٹینشن بھی اوور لوڈ ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب اشیائے خورد و نوش میں مہنگائی میزائل کی طرح اوپر جاتی ہے۔ ماہ رمضان میں جیسے باقی تمام کاروبار گرم جوش ہو جاتے ہیں اور پورے سال کے برابر کی کمائی اسی مہینے میں کرنا چاہتے ہیں ویسے ہی چیریٹی ادارے بھی کمر کس لیتے ہیں اور بلاناغہ تمام دیسی ٹی وی چینلز پر اپنی دکان سجائے براجمان ہوتے ہیں۔ مجبور اور بے کس افراد کی ویڈیو فلم دکھا کر لوگوں کو زکوٰۃ و خیرات کی تحریک دی جاتی ہے۔ صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کے نام پر جمع شدہ رقم کس تناسب سے اور کس مد میں خرچ ہوتی ہے اس کا کوئی حساب کتاب چندہ دینے والوں کے علم میں نہیں ہوتا۔ وطن عزیز میں زیر تعمیر عمارتوں پر ان خیراتی اداروں کے بورڈ دکھا کر یا پانی کی فراہمی کے لیے لگائے گئے نلکوں کی ویڈیو بنا کر ثبوت کے طور پر پیش کر دی جاتی  ہیں۔ یا پھر کسی فوڈ بینک میں خوراک کے پیکٹ   وصول کرتے ہوئے مستحق افراد کو دکھا کر ہمدردی  بٹوری  جاتی ہے ،اور لوگوں میں خدا ترسی کے جذبات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی جاتی ہے۔

خیر بہت سے خیراتی ادارے مثلاً ایدھی فاؤنڈیشن یا چھیپا ایمبولینس سالہا سال سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں جن پر کوئی سوال اٹھانے کا جواز ہی نہیں بنتا۔ مگر آج کے دور میں کوئی بزنس فرم ہو یا خیراتی ادارہ دونوں کی اپنی مارکیٹنگ حکمت عملی ہوتی ہے اور اشتہارات وغیرہ کا بجٹ ہوتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں دن میں کئی بار ہمیں ان رمضانی خیراتی اداروں کے فون آتے ہیں ۔ زکوٰۃ ایک مذہبی فریضہ ہے، صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے، جبکہ خیرات ایک ذاتی فعل ہے۔ مستحق افراد کی مدد اور انسانیت کی خدمت نا صرف بحیثیت مسلمان بلکہ انسان ہونے کے ناطے سے ہم سب پر فرض ہے ، مگر یہ بات ذہن میں ضرور آتی ہےکہ برطانیہ اور ترقی یافتہ ملکوں کے خیراتی اداروں نے کبھی زبردستی فنڈریزنگ کی کوشش نہیں کی، نہ ہی ان کے ایسے کوئی ٹیلی تھونtelethon یعنی ٹی وی پر پروگرام دکھائی دیتے ہیں، البتہ ان چیریٹیز کے اشتہارات ضرور چلتے ہیں ۔ فنڈریزنگ کے پروگرام مقامی سطح پر منعقد ہوتے ہیں، کبھی کبھار واک وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے حصہ لیتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کی رجسٹرڈ چیریٹیوں کے پروگراموں میں ہماری دیسی فنڈ ریزنگ پروگراموں کیطرح مہمانوں کو چندہ دینے پر مجبور یا شرمندہ نہیں کیا جاتا، جس کی جس قدر استطاعت ہوتی ہے وہ ادا کر دیتا ہے ، جس کو نہایت تشکر کے ساتھ انتظامیہ قبول کرتی ہے۔ بہت سے افراد ذاتی حیثیت میں اپنے منتخب چیرٹی اداروں کو ماہانہ کی بنیاد پر فنڈ ادا کرتے ہیں۔

جیسے کسی کاروباری ادارے یا کمپنی کا ایگزیکٹو بورڈ ہوتا ہے اور تنخواہ دار عملہ انتظامات اور معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے اسی طرح چیریٹی تنظیم کا نظام رضا کاران کے سپرد ہوتا ہے۔ ان رضاکاروں کا ٹرسٹی بورڈ بنایا جاتا ہے جو بلا معاوضہ کام کرتے ہیں۔ ان ٹرسٹریز کو ڈائریکٹرز، گورنرز یا کمیٹی ممبران بھی کہا جاتا ہے۔ چیرٹی ادارے کے معاملات کی حتمی ذمہ داری بورڈ کے ان ممبران کی ہوتی ہے۔ تمام کاموں کو احسن طریقے سے سرانجام دینا اور چیرٹی ادارے کے مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ بعض چیریٹی کرنے والے اپنے ٹر سٹی بورڈ کو تنخواہ بھی دیتی ہیں مگر اس کے لیے ادارے کے آئین میں اس شق کا ہونا لازمی ہے اور اس بات کا چیریٹی کمیشن سے معاہدہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر چیریٹی کمیشن ان ٹرسٹیز کو بد انتظامی یا بدفعلی کے مرتکب پائے تو وہ اپنے اختیارات کے تحت ان کو معطل یا نااہل قرار دے سکتا ہے۔ کسی بھی چیریٹی ادارے کے ٹرسٹیز کے نام چیریٹی کمیشن کے رجسٹر سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سب بہت محنت سے پیسہ کماتے ہیں، لہذا جہاں بھی زکوۃ یا امداد دینے کا ارادہ کریں، سوچ سمجھ کر دیں۔ بہت سے لوگ دکھاوے کے لئے اور اپنی شان بڑھانے کے لئے چندہ دیتے ہیں اس بات کا ضرور خیال رکھیے کہیں ذرہ بھر بھی ریاکاری سے آپ کے ماہ رمضان کی عبادت ضائع نہ ہو جائے ۔ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہونے پائے۔ اور سب سے بڑھ کر قدیم اور زریں اصول “اوّل خویش بعد درویش “پر عمل کرنا نہ بھولیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply