ربِّ کعبہ کے سامنے۔۔طیبہ ضیا چیمہ

جس وقت آپؐ اپنے وطن مکہ مکرمہ سے کفار کی ظلم و زیادتی کی بناء پر ہجرت فرما رہے تھے، آپؐ نے فرمایا: اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے، تو مجھے کس قدر محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔ ، (ترمذی) جب آپؐ نے مدینہ کو اپنا وطن و مسکن بنا لیا تو چوں کہ آپؐ مکہ مکرمہ سے فطری و جبلی محبت تھی، بارگاہِ الٰہی میں دست بہ دعا ہوئے: اے پروردگار! مدینہ کو ہمارے نزدیک محبوب بنا دے۔

جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ محبت پیدا فرما۔ (بخاری و مسلم) خانۂ کعبہ کی موجودہ شکل وہ نہیں ہے جس شکل میں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔ مختلف زمانوں کے دوران بیت اللہ نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ ان میں درج ذیل مواقع سامنے آتے ہیں : اسلام سے قبل کے زمانے میں قریش نے خانۂ کعبہ کی تعمیرِ نو کی، صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ کے ہاتھوں اس کی تعمیرِ نو ہوئی، اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف نے تعمیر کروایا، آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں اس کی تعمیر کروائی۔

یہی خانہ کعبہ کی موجودہ شکل ہے۔ اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں جن میں ہر کونے کے نام کی ایک دلیل ہے۔ رکنِ یمانی کی جانب رکنِ عراقی اور شامی ہے۔ رکنِ حجرِ اسود اس کونے کو کہا جاتا ہے جس میں جنت کا یہ مبارک پتھر نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ حطیم ہے جو خانہ کعبہ کا ہی حصہ شمار کیا جاتا ہے۔

خانۂ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں طویل عرصے تک کسی منظم ترتیب کے بغیر کھولا جاتا رہا تاہم شدید بھیڑ کے باعث اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرہ درپیش ہوا، لہٰذا یہ امر اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس دروازے کو سال میں صرف دو مرتبہ کھولے جانے تک محدود کر دیا جائے۔ پہلی مرتبہ شعبان میں غسلِ کعبہ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ اس کے غسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر ذوالحجہ کے مہینے میں۔

رمضان المبارک میں ربِ کعبہ کے سامنے کھڑے ملک کی سالمیت کی دعا کرتے ہوئے نبی اقدس ﷺ کا وطن مکہ مکرمہ سے محبت کی کیفیات یاد آ گئیں تو آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو، یہ ممکن نہیں بلکہ وطن کی ایک ایک شے سے محبت ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسلم شریف میں حضور نبی کریم ﷺ کی دعاء منقول ہے کہ اے پروردگار! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، خلیل اور نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لیے وہی بلکہ اس کے دو چند کی دعا کرتا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply