آج پورے ملک کی نظریں عدالت عظمی کی جانب لگی ہیں جہاں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو مسترد کئے جانے پر سوموٹو کیس کی سماعت جاری ہے
مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں
1۔ کیا عدالت نظریہ ضرورت کا شکار ہو جائے گی؟
2۔ کیا بیرونی مداخلت کے ثبوت ملنے پر قائل ہو کر کوئی مضبوط فیصلہ جاری کرے گی جو ملکی سلامتی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کی تحریک کو تقویت بھی دے اور آئندہ کے لئے اس کا راستہ ہمیشہ کے لئے روکنے کی خاطر ایک نظیر بن جائے۔
3۔ یا پھر ایک “ہومیو پیتھک ” قسم کا فیصلہ جاری کر کے تمام فریقین کو راضی بھی کر دے اور سب کو اپنی اپنی عزت بچانے کا محفوظ راستہ بھی
یہ فیصلہ کیا ہو سکتا ہے ؟
ڈپٹی اسپیکر کو یہ رولنگ دینے کا اختیار نہ تھا یا پھر آئین کے آرٹیکل 5 کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا کیونکہ بیرونی مداخلت پر ابھی کوی تفتیش نہ کی گئی
لیکن عدالت کو احساس ہے کہ اگر اس رولنگ کو مسترد کیا گیا تو آئینی بحران اور سیاسی بحران کا خدشہ ہے اور ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا چونکہ قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے لہذا اب نیا الیکشن ہی اس بحران کا امکانی حل ہے
آئینی ماہرین کے نزدیک زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ عدالت قرار دے دے کہ اسمبلی میں ہونے والی کوئ کارروائ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی
ایک امکان اس بات کا بھی موجود ہے اگر عدالت اس نکتے پر قائل ہو جائے کہ
دھمکی آمیز خط کو سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں رکھا گیا جس میں اعلی عسکری قیادت کی موجودگی میں بیرونی مداخلت ثابت ہوا اور اعلامیہ جاری کر دیا گیا اور مزید یہ کہ تحریک عدم اعتماد کی ڈور بیرون ملک سے ہلائی گئی اور پاکستان میں کچھ لوگ دانستہ یا نادانستہ اس سازش کا حصہ بن گئے
مزید یہ کہ منحرف اراکین اسمبلی کے بیانات خریدوفروخت کی خبریں ویڈیوز یہ سب عدالت میں بحث کا حصہ بنا دیا جاتا ہے تو
اس کی روشنی میں عدالت
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو آئینی طور پر درست قرار دے دے
اور پھر اسی تناظر میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی برقرار رکھے
لیکن بڑی پیش رفت یہ ہو کہ بیرونی مداخلت اور بغاوت کے الزامات پر ایک کمیشن مقرر کر دے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور وہ چہرے بے نقاب ہو جائیں جو اس سازش کا حصہ بنے
ایک امکان یہ بھی موجود ہے کہ عدالت عظمی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو تو درست قرار دے دے مگر اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو رد کر دے
بس چند گھنٹوں کی بات ہے
عدالت کا بھی امتحان ہے کہ وہ ملک کو اس آئینی و سیاسی بحران اورہیجانی کیفیت سے کیسے نکالتی ہے ؟
ملکی سلامتی اور خود مختاری کو یقینی بنانے کی خاطر ایک تاریخ ساز فیصلہ
یا پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کرتے ہوئے ایک ہومیو پیتھک فیصلہ
دونوں صورتوں میں عدلیہ کی ساکھ داو پہ لگی ہے
بس تھوڑا سا انتظار!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں