پروفیسر ابنِ حسن : کچھ باتیں کچھ تاثرات۔۔۔ شہباز احمد

26 اگست 2009ء   میری زندگی کا ایک یادگار اور سہانا دن تھا ۔ اس دن میری زندگی کی ایک نئی شروعات ہو چکی تھی ۔ میں پنجاب پبلک سروس کمیشن سے تاریخ کے مضمون میں پنجاب ہائر ا یجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کے لئے منتخب ہو چکا تھا ۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ سے میرے نام کی عرضی نکل چکی تھی اور میری تعیناتی کاقرعہ گورنمٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج ، گوجرانوالہ کے نام نکل چکا تھا۔اور وہ حکم نامہ میرے ہاتھ میں تھا۔ اس سے پہلے میں نہ تو اس کالج کے نام اور نہ درو دیوار سے واقف تھا ۔ پروفیسری میرے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔اس کالج کے جغرافیہ سے بھی میں بالکل ناواقف تھا ۔ خیر اگلے دن میں نے اپنے ایک کزن کو ساتھ لیا اور کالج آپہنچا۔ ہم دونوں مین گیٹ جو ان دنوں کالج روڈ کی طرف واقع تھا کالج میں داخل ہوئے اور پرنسپل صاحب کے دفتر کا پتا پوچھ کر وہاں پہنچے ۔پرنسپل صاحب اپنے کمرے میں کچھ پرو فیسر وں کی معیت میں اپنی کرسی پر براجمان تھے ، سلام پیش کیا اور پرنسپل صاحب نے دعا سلام کے بعدبیٹھنے کے لئے کہا اور اپنے پاس ہی بیٹھے ہوے کلر ک جس کا نام لیاقت علی تھاکو حکم جاری کیا کہ نوجوان کے کاغذات جلد از جلد مکمل کرے۔ کلرک نے حکم کی تعمیل کی اوروہ مجھے اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد کارروائی مکمل ہونے کے بعد پھر ہم پرنسپل صاحب کے پاس آئے اور ان کاغذات پر انہوں نے اپنے دستخط ثبت کئے ۔کچھ ہی دیر میں یہ سارا کام مکمل ہو گیا۔ کچھ دیر وہاں پرنسپل صاحب کے دفتر میں بیٹھے رہے اور پھرہم نے اجازت لی اور گھر واپس آگئے۔یہ اگست کا مہینہ تھا اور اوپر سے رمضان بھی چل رہا تھا ۔ پرنسپل صاحب نے کہا کہ پروفیسر صاحب بڑی معذرت کہ رمضان کا مہینہ ہے اس لئے آپ کو چائے کا نہیں پوچھ سکتے ۔ میرے لئے یہ ایک بالکل نیا تجربہ تھا ۔ذہن میں سہانے خواب تھے ، نئی نئی نوکر ی تھی ۔ قواعد و ضوابط کی بھی اتنی سوجھ بوجھ نہ تھی اور نہ ہی کسی سے اپنی شناسائی تھی ،ہم کہ ٹھہرے اجنبی والی بات تھی۔
خیر گھر آکر اگلے دن کالج جانے کے منصوبے بننے لگے کہ کس طرح کالج جایا کروں گا۔یہ تمام معاملات طے پاگئے اور پھر اگلے دن آٹھ بجے کالج پہنچ گیا۔میں کالج میں ایک نووارد تھا کسی سے بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ لہٰذا ایک نیا تعلق بنا نا تھا ہر کسی سے ۔ تاریخ کے مضمون میں میری تعیناتی تھی ۔ چند ایک بچے جو تاریخ پڑھ رہے تھے ان سے میری شناسائی کروا دی گئی اور اگلے ہی دن ان کو پڑھانے کی تیاری شروع کر دی گئی ۔ صرف سات طالبعلم تھے جو تاریخ کا مضمون پڑھ رہے تھے۔
پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ چل نکلا اور کالج میں آنا اور جانا بھی ۔ پہلا پہلا سال تھا صرف ایک ہی کلاس تھی جس کو پڑھانا ہوتا تھا باقی کچھ وقت بزرگ پروفیسروں کی باتیں اور تجربات سننے میں گزرتا اور سٹاف روم میں اخبار پڑھنے میں۔ان کی خوش گپیوں سے محظوظ ہونے کا موقع ملتا۔ان دنوں کالج سٹاف روم آباد تھا تمام لوگ وہاں تشریف لاتے تھے ۔جو لوگ زیادہ تر اپنا وقت سٹاف روم میں گزار کرتے تھے ان میں پروفیسر توقیرفاروق صاحب، لیاقت علی باجوہ صاحب ،پرفیسر امجد بٹ صاحب ،پروفیسر سیلم صا حب ،پرفیسر محمد منیرصاحب اور پروفیسرمحمد نعیم ملک صاحب۔
کالج کا سٹاف روم ایسے بھرا رہتا کہ کسی میلے کا سماں لگتا تھا۔وہاںسینئیر استادوں کے ساتھ ملنے اور بات کرنے کا موقع ملتا ہر کوئی اپنے تئیں ایک دوسرے کی بڑھ چڑھ کر عزت کرنے کی کوشش کرتا، چائے کے دور چلتے اور خوب لطفیہ بازی بھی ہوتی۔ ملکی سیاست ،معیشت، کھیلوں، فلمی دنیا اورفلمی ستاروں پر بات ہوتی۔اس گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ صرف اور صرف پرفیسر توقیر صاحب لیا کرتے تھے ۔ ان کو فلمی ستاروں اور کھیلوں پر عبور حاصل تھا۔کرکٹ کے تو وہ شیدائی تھے۔
ایک عرصہ تک تو کالج سٹاف روم میں ہی اٹھنا بیٹھنا چلتا رہا۔پھر آہستہ آہستہ کالج کے دوسرے اساتذہ سے بھی شناسائی ہوتی گئی۔میرے بیج کے بھی کچھ لوگ اس کالج میں میرے ساتھ تعینات ہوئے تھے ان کے ساتھ بھی بات چیت اور سلام دعا چل نکلی ۔ان میں محمد منیر ، محمد نعیم ملک اور محمداویس چوہدری شامل تھے۔
ابنِ حسن کی پیدائش ٢ مارچ ١٩٥٤ئ؁ گلی نمبر چار ، کنور گڑھ، ضلع قصور میں ہوئی ۔ ان کے والد کا نام سید محمد حسین تھا۔ابنِ حسن نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے شہر قصور سے ہی کیا۔ میٹرک کا امتحان ١٩٦٩؁ میں انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول ،قصور سے پاس کیا۔١٩٧٢؁ میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے انہوں نے لاہور کا رخ کیا کیونکہ لاہور کو کالجوں اور یونیورسیٹوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ وہ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا خاندان کوئی روایتی سید خاندان نہیں تھا ۔وہ خود محنت کرنے والے لوگ تھے ۔ نمود ونمائش کا تو ان میں نام تک نہ تھا۔ان کے والد محترم بھی انگریزی کے ایک منجھے ہوئے استاد تھے۔اپنے والدکے متعلق وہ خود بھی اکثر اپنے دوستوں سے ذکر کیا کرتے تھے کہ ان کے والد محترم ایک اچھے استاد تھے۔اس بات کی تصدیق ان کے ایک ساتھی ،پروفیسر فیض اکبر خاں (شعبہ اردو،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ )نے بھی کی کہ ابنِ حسن کے والد بہت اچھے استاد تھے۔اور انہوں نے کہا کہ میں بھی ان سے کچھ دن انگریزی پڑھتا رہا ہوں۔ابنِ حسن اکثر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ انگریزی ادب کی طرف ان کا رجحان صرف اور صرف ان کے والد کی وجہ سے ہو ا کیونکہ ان کے گھر میں کتابیں موجود ہوتی تھیں تو سکول سے واپسی پر کوئی نہ کوئی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیتا تھااور اس طرح مجھے انگریزی ادب پڑھنے کا شوق چرایااور میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی ان کا اپنا ایک نام اور مقام تھا۔ دوران تعلیم وہ مختلف نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔اور اس طرح انہوں نے گورنمنٹ کالج میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ گورنمنٹ کالج لاہور کیونکہ برصغیر پاک و ہند کی ایک قدیم درسگاہ ہے اور یہ ادارہ بے شمار روایات کا بھی امین ہے۔جو بھی اس ادارے کے ساتھ تعلق بناتا ہے وہ اسی کا ہو جاتا ہے۔انہی روایات میں سے ایک روایت غیر نصابی سرگرمیوں کی ہے جس میں ابن ِ حسن نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کچھ سال پہلے روزنامہ ڈان (انگریزی ایڈیشن) میں ایک تحریر پڑھی جس میں ابنِ حسن کا بھی ذکر تھا ۔صاحبِ تحریر نے اس بات کا ذکر کیا کہ ابنِ حسن نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ماؤ (ماؤزے تنگ چین کا ایک انقلابی تھا) کے نام سے ایک انقلابی سوسائٹی بنائی تھی کیونکہ وہ خود بھی ایک انقلابی شخصیت تھے۔اپنے زمانہ طالبعلمی کے دور میں وہ طلبا ء سیاست میں بھی بہت فعال تھے۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پھرانہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز شعبہ تعلیم سے کیا۔١٩٨٠ء میں وہ شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ ١٢ نومبر ١٩٨٠ئ؁ کو انہوں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا۔ ان کی پہلی تعیناتی پنڈدادن خان ، ضلع جہلم میں ہوئی ۔ایک عرصہ تک وہ پنڈ دادن خان کالج میں پڑھاتے رہے۔ کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج اوکاڑہ میں بھی پڑھایا۔٨ نومبر ١٩٨٤ئ؁ کو ان کا تبادلہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ میںہو گیا۔ ان کے ایک دوست ڈاکٹر راشد ( کالج ڈسپنسر) عرصہ سے اس کالج میں کام کر رہے ہیں بتایا کہ کافی عرصہ تک وہ میرے پاس ہی اس ڈسپنسری میںبیٹھا کر تے تھے۔ وہ بہت ہی بذلہ سنج انسان تھے۔ اس کالج میں کوئی بھی ان کا ثانی نہیں تھا۔وہ نہایت شریف اور ملنسارانسان تھے۔
وہ علم کا ایک بحرِ بیکراں تھے ۔ مگر انہوںنے کبھی بھی اس چیز کا دعویٰ نہیں کیا تھا کہ میں کوئی انگریزی ادب کا عالم فاضل ہوں۔ عاجزی و انکساری ہر وقت ان کے چہر ے پر نمایاں ہوتی تھی۔ وہ کبھی بھی کھل کر نہیںہنستے تھے صرف زیرِ لب مسکرایا کرتے تھے۔ ان کی حس مزاح بھی کمال کی تھی اور ان کے مزاح میںکبھی بھی کسی کی ہتک کا عنصر شامل نہ ہوتا تھابلکہ ہر کوئی ان کے مزاح سے لطف اندوز ہوتا تھا ۔ ان کے کمرے میں ہر وقت لوگ آتے جاتے رہتے تھے۔ چائے کے دور چلتے تھے ، سنجیدہ اور علمی گفتگو ان کے کمرے کا خاصہ تھے۔ان کے کمرے میں بیٹھنے والوں میں سرفراز علی شیخ (لیکچرارشعبہ سیاسیات ،آج کل گورنمنٹ پوسٹ گریجوئٹ اسلامیہ کالج لاہور میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں)، محمد اقبال چیمہ( لیکچرار اردو،آج کل گورنمنٹ پوسٹ گریجوئٹ اسلامیہ کالج لاہور میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں)،میاں انعام الراحمن (اسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ سیاسیات) اور دوسرے اور بہت سے دوست شامل تھے جو ان کے کمرے میں کسی نہ کسی کام سے آتے جاتے رہتے تھے۔لاہور سے بھی بہت سے ان کے دوست تھے جن میں ظفر علی خان( پروفیسر انگریزی) ،محمد عارف(پروفیسر بیالوجی) طاہر یوسف بخاری (پروفیسر انگریزی) بابر یعقوب ( ابن ِ حسن کے درینہ دوست ، بہت اچھے دوست اور گورنمنٹ کالج لاہو ر کے کلاس فیلو ،آج کل اسلام آباد میں پرنسل سکریٹری ہیں) اور فتح محمد وغیرہ شامل ہیں۔
وہ دوسروں کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ۔نہ صرف اپنے دوستوں بلکہ ہر ضرورت مند کی وہ مدد کے لئے تیار رہتے تھے ۔ وہ ایک کھرے اور سچے انسان تھے ۔ اس مادی دور میں بھی کبھی انہوں نے دولت اکٹھی کرنے کانہ سوچا بس اپنی تنخواہ پر گزارہ کیا اور اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی اور وہ بھی اچھے اداروں سے۔وہ کئی ایک ضرورت مند طلبا ء کی فیس اپنی جیب سے جمع کروا دیا کرتے تھے۔ ان کو کتب ، وردی یا کوئی بھی جس چیز کی ان کو ضرورت ہوتی تھی وہ اپنی جیب سے ان کو دلوا دیتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔
میرا ان کے ساتھ تین سال تک تعلق رہا میں نے ان کو کبھی بھی کالج سے چھٹی کرتے نہیں دیکھا وہ اپنا کام پوری دیانت داری سے کرتے تھے ۔ اور وہ اپنی عمر کے اس حصے میں بھی نوجوانوں سے زیادہ تونا اور تندرست نظر آتے تھے۔ میں نے ان کو شائد ہی کبھی بیماری کاذکر کرتے ہوئے سنا اور جب پھر وہ بیمار ہوئے تو وہ بیماری ان کے لئے آخری بیماری ثابت ہوئی۔ پھر اچانک وہ ایک دو دن کالج نہیں آئے ۔ جب پتا چلا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے تو ہم کچھ دوستوںنے پروگرام بنایا کہ ان کے گھر جا کر ان کی خیریت دریافت کرنی چاہیے۔ وہ ٥٣ اے۔ماڈل ٹاون میں رہتے تھے۔ پھر ایک دن میں ، میاں انعام الرحمن،ریاض احمدسَحر،فاروق احمد اور اکبر علی ان کے گھر پہنچ گئے ۔ وہ ہمیں دیکھ کر بڑے خوش ہوئے۔ حال احوال دریافت کیا ۔ کافی دیر تک بات چیت کرتے رہے او ہماری موجودگی میں وہ اپنے آپ کو بہتر محسوس کر رہے تھے ۔ پھر ہم سے کہنے لگے یا ر میں اس حالت میں تم لوگو ں کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا ہو ں کیونکہ آج سب گھر والے باہر گئے ہوئے ہیں۔ ہم نے کہا شاہ صاحب کوئی بات نہیں جب آپ صحت یاب ہو کر کالج آئیں گے پھر مل کر آپ کے کمرے میں ہی چائے پیئں گے ۔ہم ان کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہے اور ان کا موڈ بہت اچھا ہو گیا اورپھر انہوں کہا کہ یار تم لوگو ں نے اچھا کیا کہ چکر لگا لیا ۔مگر خدا کی قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، ہماری بھی شائد ان سے یہ آخری ملاقات تھی اور اگلے دن جب ہم کالج پہنچے تو ابھی پہلی کلاس پڑھا کر ہی فارغ ہوئے تھے کہ پیغام ملا کہ ابنِ حسن کا انتقال ہو گیا ہے ۔وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ ہم سب حیران اور ششدر تھے کہ یہ کیا ماجرا ہوا۔ ہر کوئی پریشان تھا ۔ ہم سکتے میں تھے کہ ابھی کل کی تو بات ہے وہ اچھے بھلے ہم سے یہ کہ رہے تھے کی یار اب میری طبیعت پہلے سے بہتر ہے اور میں کل کالج ضرور آؤں گا ،وہ تو کالج نہ آئے مگر اجل نے ان کو آ لیا۔اس گھر میں ان کے پاس صرف ان کی ایک بیٹی اور شریک حیات ہی موجود تھیں ۔ جب ان کی طبیعت کچھ زیادہ بگڑی تو کالج سے ان کے ایک دو قربیی دوستوں کو گھر والوں نے فون کر کے بلایا تاکہ ان کو ہسپتال تک لے جایا جائے مگر ان کے پہچنے سے پہلے ہی ان کی روح قفس عنصر ی سے نکل چکی تھی۔
ان کے ایک شاگرد محمد اشرف رانا ان کو یاد کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ بطور استاد کالج میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ہزراوں طلباء کی انہوں نے تربیت کی اور ان کو پڑھایااور ان کے وہ شاگرد آج مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کار ہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے کچھ شاگرد جنہوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے شعبہ تعلیم ہی کو اپنے روز گار کا ذریعہ بنایا۔ کہتے ہیں کہ انگریز زبان و ادب پر ان کو یکساں عبور حاصل تھا ۔ گرائمر میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔راوئیتی انداز سے ہٹ کر وہ انگریز ی گرائمر اور انگریز ی ادب اس انداز سے پڑھاتے تھے کہ ان کی کہی ہوئی باتیں یا پڑھایا ہو آج بھی ہمیں ازبر ہے اور ان کی محنت شاقہ ہی تھی جس کی بدولت آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں اور ایک باعزت طریقہ سے اپنا روز گار کما رہے ہیں۔طلباء ان کے بڑے گرویدہ تھے۔ وہ جتنا طلبا سے محبت اور شفقت سے پڑھاتے تھے اتنا ہی ان کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کیا کرتے تھے۔کلاس میں پڑھائی کے دوران کسی طالبعلم کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ کوئی شرارت کرنے کی بھی سوچے ۔ان کی کلاس میں بڑا نظم و ضبط ہوتا تھا۔ہر کوئی بڑی توجہ سے ان کا لکچیر سن رہا ہوتا تھا۔ان کے پڑھانے کا انداز بہت ہی نرالا تھا ۔وہ پڑھاتے تو انگریز ی ادب تھے مگر جب کبھی کوئی مثال دینے کی ضرورت پیش آتی تو وہ مثال یا پنجابی زبان و ادب یا کرشن چندر یا کسی اور معرو ف اردو ادب پارے سے مثال پیش کرتے تھے۔
مزاج کے اعتبار سے وہ جلالی طبیعت رکھتے تھے ، کوئی بھی غلط بات نہ وہ خود کرتے تھے اور نہ ہی وہ ایسی کسی بات کو اپنے مزاج کے خلاف برداشت کرتے تھے وہ دوسروں کی عزت بلا تخصیص رنگ ،نسل ،ذات اور مذہب کے کرنے کے قائل تھے ۔ان کے دروازے چاہے وہ ان کے گھر کے ہوں یا پھر کالج کے ہر کسی کے لئے کھلے تھے ۔وہ ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے ۔ سچے اورسچے ہیومنیٹرین Humanitaratiran))تھے ۔لوگوں کو وہ ان کے ظاہر ی رتبے یا مال و متاع کی وجہ سے عزت نہیں کرتے تھے بلکہ ایک انسان ہونے کے ناتے وہ دوسروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔وہ ضرورت مندوں کی مدد اس طرح کیا کرتے تھے کہ ایک ہاتھ سے دیتے تھے تو دوسرے کو پتا نہیں چلتا تھا۔کالج کے درجہ چہارم کے ملازمین کی بھی وہ مالی مدد کیا کرتے تھے۔کئی طلبا ء کی فیس اپنی جیب سے جمع کروا دیا کرتے تھے اور کیسی کو خبر تک نہیںہوتی تھی۔دامے درمے ،سخنے قد مے دوسروں کی بے لوث مدد کرنا ان کا معمول تھا۔ وہ صرف ایک استاد ہی نہیں تھے بلکہ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ شعبہ تعلیم کے علاوہ بھی ان کا ایک حلقہ ارباب تھا ۔صحافی ۔ شعرا، ادیب اور نامور شخصیات کے ساتھ ان کے تعلقات تھے۔ پروفیسر منیرعصری جو گورنمنٹ اسلامیہ کالج سے ہی ریٹائر ہوئے تھے ان کا بھی ابنِ حسن کے دوستوںمیں شمار ہوتا تھا ۔ وہ ازراہ تفنن ان کو پیر جی کہا کرتے تھے اور منیر عصری بہت خوش ہوا کرتے تھے ۔ وہ ابنِ حسن سے شاعر ی پر مختلف انگریز ی شعراء کی کتب لیا کرتے تھے اور ان کا مطالعہ کرتے تھے اور جب وہ کوئی کتاب واپس کرتے تھے تو پھر کسی اور کتاب کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ابن ِ حسن بلا ترد کتب ان کو دے دیا کرتے تھے۔ اسی طرح پروفیسر غلام رسول ملک (مرحوم) ، پرفیسر طارق جاوید جنجوعہ (بطور صدرِ شعبہ اردو ،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے ریٹائر ہوئے) اور پر وفیسرسید الطاف حسین شاہ گیلانی ( شعبہ تاریخ،گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے ریٹائر ہوئے) بھی ان کے بہت ہی ملنسار دستوں میں شامل تھے ۔ یہ لوگ اکثر اوقات ان کے کمرے میں آیا کرتے تھے اور ان سے مختلف موضوعات پر بات چیت کیا کرتے تھے۔ وہ ایک بڑے ہی بذلہ سنج انسان تھے۔ وہ استاد تو انگریزی ادب کے تھے مگر ان کا علم اس قدر وسیع تھا کہ وہ مذہب ، تاریخ ، انتھروپالوجی، سوشالوجی ، اورموسقیی پر ایک سند رکھتے تھے۔ وہ کسی بھی موضع پر سیر حاصل بحث کر سکتے تھے۔
وہ کلاسیکل موسیقی کے بہت دلدادہ تھے۔ان کے پسندیدہ موسقاروں میں سہگل ، پٹ وردھن ، طلعت ، منی بیگم شامل تھے۔وہ موسیقی اور پرانی کتابوں کے لئے ہمیشہ اپنے دوستوں سے رابطے میں رہتے تھے اور وہ ان سے کہا کرتے کہ فلاں گانا ہو تو مجھے دے دینا۔ وہ پرانے گانوں،کتابوں اور انٹیک چیزوں کی تلاش میں ہمیشہ سرگرداں رہا کرتے تھے۔
ان کے ہزاروں شاگرد اس وقت مختلف شعبہ جات میں کام کر رہے ہیں اور ملک کے طول و بلد میںپھیلے ہوئے ہیں ۔ ان کے کچھ شا گرد جنہوں نے اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شعبہ تعلیم کو ہی اپنے روزگار کا ذریعہ بنا یا اور ان شاگردوں میں سے کچھ نے ان کے فکر اور فلسفہ کو آج تک زندہ رکھا ہو ا ہے اور اس کے لئے آج بھی وہ کام کر ہے ہیں ۔ ان کے کچھ ہونہار شاگرد درج ذیل ہیں۔
محمد اشرف رانا (اسٹنٹ پروفیسر انگریزی، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج ، گوجرانوالہ)
محمد شفیق (اسٹنٹ پروفیسر انگریزی، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج ، گوجرانوالہ)
ریاض احمد سَحر (اسٹنٹ پروفیسر اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج ، گوجرانوالہ)
محمد شفیق ملک(اسٹنٹ پروفیسر انگریزی، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ سٹلائیٹ ٹاؤں ، گوجرانوالہ)
امتیاز حسین(اسٹنٹ پروفیسر ارودو، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ سٹلائیٹ ٹاؤں ، گوجرانوالہ)
کاشف حسین(لیکچرار ارودو، گورنمنٹ شاہ حسین ڈگری کالج ،ٹاؤن شپ لاہور)
حبیب اللہ (لیکچراراردو ،گورنمنٹ ڈگری کالج قلعہ دیدار سنگھ، گوجرانوالہ)
صبغت للہ وائیں(مشہوراتھلیٹ)
ابن ِ حسن کے کچھ مضامین جو مختلف رسائل میں چھپ چکے ہیں اور ہر خاص و عام سے دادوتحسین سمیٹ چکے ہیں ۔ یہ مضامین اگر آج بھی کوئی پڑھنا چائے اور ان کے ان مضامین سے لطف اندوز ہونا چاہے تو وہ ان کو اس ویب سائٹ سے حاصل کر سکتا ہے ۔ وہ مارکسسٹ انٹرنیٹ آرکائیو کے اردوپیج کے ایڈیٹر تھے ۔ اس آرکایؤ پر دنیا بھر کامارکسسٹ اور نقلابی لٹریچر موجود ہے ۔ اس میں ابنِ حسن کا بہت زیادہ حصہ ہے وہ دوستوں سے مختلف کتب کے تراجم کرواتے اور اس کام میں خود بھی ان کی معاونت کرتے اور اس کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اس آرکایؤ پر ڈال دیتے ۔ اور جس کا جی چاہے وہ اس مواد کو مفت میں حاصل کر سکتا تھا۔ابنِ حس کی وفات پر اس آرکایؤ نے ان کو خراج تحسین پیش کیا تھا اور آج بھی ان کی تصویرصفحہ اول کے مارکسسٹوں ( مارکس ،لنین، وغیرہ) کے ساتھ اس کے پہلے صفحے پر لگی ہوئی ہے۔ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ ایک پکے مارکسسٹ تھے اور وہ اس کی عملی تصویر بھی تھے۔وہ کسی کے خلاف ظلم ہوتا ہو انہیں دیکھ سکتے تھے۔ان کے کچھ مشہور مضامین۔
موسیقی اور بدلتا ثقافتی وجود۔
ہم عصر حقیقت نگاری اور فیض۔(یہ مضمون ایک انقلابی اور ادبی پرچہ ارتقاء جو کراچی سے چھپتا ہے میں شامل ہے)
شعورکا بحران(یہ مضمون حال ہی میں ایک انقلابی پرچے لال سلام میں ان کے ایک شاگرد صبغت للہ وائیں نے چھپوایا ہے)
ان کی وفات کے بعد کالج کے کچھ دوستوں نے جو منصوبے بنائے ان میں یہ طے پایا کہ کالج میں ایک بک بینک بنا دیا جائے جہاں مختلف مضامین کی کتب رکھوائی جائیں اور وہ کتب بوقت ضرورت ان طلبا کو د ی جائیں جو کتب نہیں خرید سکتے ہیں۔شعبہ انگریزی کو ان کے نام سے منسوب کر دیا جائے۔ ایک ابن حسن فلسفیکل سوسائٹی بنائی جائے کیونکہ وہ نہ صرف انگریزی ادب کے استاد تھے بلکہ فلسفہ تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ۔ وہ صرف اور صرف اس سب کے نہیں بلکہ وہ اس سے زیادہ کے مستحق تھے لیکن ہم لوگ ایسے لوگوں کو اپنی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔انہوں نے اس کالج میں ایک لمبا عرصہ گزاراتھا اور یہ ان کا حق تھا کہ اس کالج کے شعبہ انگریز ی کو ان کے نام سے منسوب کر دیا جاتا۔مگر ایسا نہ ہو سکا اور وہ منصوبے تشنہ لب ہی رہے ۔کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ اس کی صرف اور صرف ایک وجہ تھی کہ وہ ایک سوشلسٹ تھے اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ کوئی مسلمان ایک سوشلسٹ کے نام پر کالج کے کسی کونے کا نام رکھ دیتا۔ لہذا جو منصوبے بنائے گئے وہ منصوبے ہی رہے اور صرف ان کی آخری آرام گاہ پر ہی ان کے اہل خانہ نے ایک کتبہ لگایا ۔اورکالج میں بس اتنا ہو اکہ ان کے ایک ہونہار طالعلم محمد اشرف رانا نے جس کمرے میں وہ براجمان ہوا کرتے تھے اس کمرے کے باہر ان کے نام کی تختی لکھوا کر لگوا دی جس پر ـــ” ابن حسن روم” کے الفاظ کندہ ہیں۔کہتے ہیں انسان مر جاتا ہے مگر اس کے افکار کبھی نہیں مرتے ہیں ایسا ہی کچھ ابن حسن کے ساتھ بھی ہوا کہ وہ تو اس دنیا کو داغ مفارقت دے گئے مگر ان کے نظریات آج بھی زندہ ہیںاور وہ لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ وہ ٢٦ جنوری ٢٠١٢ئ؁ کو اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے ۔پسماندگان میں انہوں نے بیوہ، تین بیٹیا ں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ ان کے سب بچے ان کی حیات میں ہی اپنی تعلیم مکمل کر چکے تھے۔میں اپنی اس تحریر کو احمد ندیم قاسمی کے اس شعر کے ساتھ ہی ختم کرتا ہو۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ںہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

Facebook Comments

شہباز احمد
اسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ تاریخ ، گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply