ایک تحریک عدم اعتماد کی کہانی(1)۔۔افتخار گیلانی

پاکستان کی رنگ بدلتی سیاست میں لگتا ہے کہ پچھلے ایک ہفتہ سے جیسے ٹی۔20کرکٹ میچ چل رہا تھا۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے لیڈران اراکین پارلیمنٹ کی تعداد اور عوام ہمہ تن گوش پارٹیوں کے اسکور پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ 1999میں کچھ ایسی ہی صورت حال بھارت میں پیش آئی تھی، جب اپوزیشن نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔مجھے یاد ہے کہ 17اپریل، 1999کو جس روز تحریک پر ووٹنگ ہونی تھی، کہ صبح سویرے5بجے میرے گھرپر فون کی گھنٹی بجی۔ صحافی چونکہ رات گئے تک ڈیوٹی پر ہوتا ہے ، اسلئے کسی صحافی سے سحر خیزی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ پارلیمنٹ میںجو پارٹیاں ابھی غیر جانب دار تھیں، ان کے اراکین کے گھروں کے باہر سن گن لینے کے بعد آدھی رات کے بعد ہی میں گھر لوٹ کر سویا تھا، کہ گھنٹی کی آواز نے جگایا۔ پہلے لگا کہ شاید عالم خواب ہے۔ مگر فون اٹھانا ہی پڑا۔ دوسری طرف بتایا گیا کہ پارلیمانی امور کے وزیر اور ان دنوں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ماسٹر اسٹریٹی جسٹ پرمود مہاجن بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس ، جس کے لوک سبھا میں تین اراکین ہیں، کیا ان میں سے سبھی حکومت کے حق میں ووٹ ڈالیں گے؟ ایک روز قبل جموں میں وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے نیشنل کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلا کر بی جے پی کے حق میں ووٹنگ کرنے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ ورنہ وہ تب تک جنتا دل کی زیر قیادت یونائیٹد فرنٹ کا حصہ تھی۔ مگر دیر رات رپورٹ آئی تھی کہ پارٹی کے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر پروفیسر سیف الدین سوز نے علم بغاوت بلند کرکے میٹنگ میں فاروق عبداللہ کو خوب کھری سنائی تھی اور ان کو بتایا تھا کہ ان کے والد شیخ عبداللہ بی جے پی کو اسپورٹ کرنے کے بجائے حکومت قربان کرنے کو ترجیح دیتے۔ بی جے پی حمایت کے عوض فاروق کے صاحبزادے عمر عبداللہ ، جو پہلی بار لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوگئے تھے ، کو وزارت میں لینے پر راضی ہوگئی تھی۔ میں نے مہاجن کو بتایا کہ’’ جس حد تک میں نیشنل کانفرنس کو جانتا ہوں، اسکے کسی اراکین پارلیمان کا پارٹی لیڈر کے خواہش کے برعکس جانا ناممکنات میںسے ہے۔ یہ ایک خاندانی پارٹی ہے اور اسکا کوئی لیڈر ضمیر کی آواز پر پارٹی لیڈرشپ سے بغاوت نہیں کریگا۔سوز نے پارٹی فورم پر بی جے پی حکومت کی حمایت کرنے کی مخالفت کی ہوگی، مگر وہ سیاسی خود کشی کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔‘‘ چونکہ تجزیہ قیاس پر کیا جاتا ہے، اسلئے یہ ضروری نہیں کہ ہر بار درست بھی ہوگا۔ یہی میرے ساتھ بھی اس دن ہوا۔ سیف الدین سوز کے ایک ووٹ نے مہاجن کے حساب کو گڑبڑا کر واجپائی کی 13ماہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا ا ور اسی کے ساتھ ان کو عمر بھر کیلئے نیشنل کانفرنس سے نکال باہر کردیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مہاجن رات بھر دہلی میں علاقائی میڈیا کے نمائندوں کو فون کرکے ان کے علاقے کے اراکین پارلیمان کے موڈ کے بارے میں معلومات اکھٹی کر رہے تھے۔ ان کے فون کے بعد میں نے سوز کے گھر پر رابط کیا، تو معلوم ہوا کہ وہ کل رات گئے جموں سے بذریعہ ٹرین دہلی کیلئے روانہ ہوئے ہیں اور صبح 8بجے تک واپس آئینگے۔ مئی 1998کو جوہری دھماکوں اور پھر فروری 1999کو لاہور کا بس سفر کرنے کے بعد واجپائی نے بین الاقومی محاذ پر دھاک تو بٹھا دی، مگر داخلی محاذ پر انکو سخت چلینچز کا سامنا کرنا پڑا۔ مارچ1998کے انتخابات میں بی جے پی کو 543 اراکین کے ایوان میں 182سیٹیں حاصل ہوگئی تھیں۔ اتحادیوں کی وجہ سے حکومت کو 283اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں کئی اتحادیوں، خاص طور پر تامل ناڈو کی آل انڈیا انًا ڈی ایم کے یعنی اے آئی اے ڈی ایم کے کی سربراہ جے جیہ للتا نے واجپائی حکومت کو جیسے کانٹوں پر رکھا ہوا تھا۔ وقت بے وقت نئے نئے مطالبات اور بالآخر اپریل 1999میں سبرامینم سوامی کی ایما پر اس کے 18اراکین نے حکومت سے حمایت واپس لے لی، جس کے بعداپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی۔ خیر اس دن میں نے لوک سبھا کی پریس گیلری کا رخ کیا اور اگلی صف میں کونے کی سیٹ پر براجمان ہوا۔ یہ سیٹ سفارتی گیلری سے متصل ہے اور یہ گیلری بھی پریس گیلری کی طرح کھچاکھچ بھری تھی۔ پاکستانی سفیر اشرف جہانگیر قاضی میری سیٹ سے متصل دوسری طرف سفارتی گیلری سے کارروائی دیکھ رہے تھے۔ ہال میں اپوزیشن لیڈر شرد پوار اور دوسر ی طرف مہاجن ایک ایک رکن کے پا س جاکر ووٹ شمار کر رہے تھے۔ ووٹنگ کے وقت ہیجان انگیز لمحات میں قاضی اور دیگر سفارت کار ہمارے پاس آکر معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جے جیہ للتا کے فیصلہ سے قبل فروری میں جب واجپائی لاہور میں تھے، ان کے ایک اور حمایتی ہریانہ کی انڈین نیشنل لوک دل نے مہنگائی کا حوالہ دیکر اور کسانوں کے ایشو کو لیکرصدر کے آر نارائینن سے ملاقات کرکے ان کی حکومت سے حمایت واپس لی تھی۔ مگر ایوان میں ووٹنگ تک ان کو مہاجن حکومت کے خیمہ میں واپس لانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جب پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس فروری میں شروع ہوا تھا، تو اس کے سامنے بہار میں صدراتی راج نافذ کرنے کی نوٹیفیکشن کی توثیق کرنا بھی شامل تھا۔ دلتوں کے دو بہیمانہ قتل عام کے واقعات کے بعد آئین کی دفعہ 356کا استعمال کرکے واجپائی نے بہار کی لالو پرساد یادو کی اہلیہ رابڑی دیوی کی قیات میں راشٹریہ جنتا دل حکومت کو برطرف کرکے گورنر رول نافذ کر دیا تھا۔ اسکی پارلیمنٹ سے توثیق باقی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply