سوئزرلینڈ کی عورت۔۔عاطف ملک

سوئزرلینڈ کی عورت۔۔عاطف ملک/وہ ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا، ادھیڑ عمر اور شرارتی، کلین شیو، سر سے گنجا، بھاری جسم اور مسکراتا چہرہ۔۔جیسے ہی اُس نے بات شروع کی، مجھے علم ہوگیا تھا کہ وہ ایک شرارتی آدمی ہے۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے کی مسکراہٹ اس کا  پتہ  دے رہی تھی، مسجد کے لاوڈ سپیکر سے ہوتے اعلان کی طرح چاروانگ شور مچاتی۔

آنکھوں میں چمک اصل میں زندگی ہے۔ بچوں کی آنکھوں میں جھانکیے، جوانی کو چھوتے لڑکے لڑکیوں کی آنکھوں میں دیکھیے، ادھیڑ عمروں کی نگاہوں پر نظر ڈالیں، کچھ بوڑھے بھی مل جاتے ہیں کہ نظر بےشک کمزور ہو گئی ہو مگر آنکھ کی چمک زندہ ہوتی ہے۔ ایسوں کے ساتھ بیٹھ جائیے، یہ کچھ نہ کچھ نکالیں گے۔ یہ سپیرے ہیں، بین بجائیں یا نہ بجائیں اپنی پٹاری سے کچھ ایسا نکالیں گے کہ حیران کر دیں گے۔

وہ میرے سامنے بیٹھا تھا مگر مجھ سے بات نہیں کر رہا تھا بلکہ میز پر میرے ساتھ بیٹھی گردن تک کٹے گھنگھریالے بالوں والی پُروقار خاتون سے بات کررہا تھا، گوری، نازک سی عینک لگائے پُراعتماد خاتون۔ مجھے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ شرارت کر رہا ہے، کسی لغویت یا بےہودگی کے بغیر بس ایک شرارت، اسکی آنکھیں شرارت کا پتہ دے رہی تھیں۔ میں پوری طرح ان دونوں کی گفتگو کی طرف متوجہ تھا۔

وہ شرارتی آدمی تھا اور پہلی ملاقات میں ہی وہ مجھے اچھا لگا تھا۔ شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذہین آدمی تھا، اس کی آنکھوں کی چمک اس کی شرارت کے ساتھ ساتھ ذہانت کا بھی پتہ دے رہی  تھیں ۔ میں نے ملاقات سے پہلے ہی انٹرنیٹ سے اُس کا سی-وی پڑھ لیا تھا۔ وہ قبیلہِ بنی اسرائیل کا فرد تھا۔ اس کا تعلیمی سفر بھی دلچسپ تھا۔ اسرائیل میں حیفہ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس فرسٹ الیکٹریکل انجینئرنگ کرنے کے بعد امریکہ آکر اس نے آنکھوں کی ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی تھی۔ مختلف یونیورسٹیوں میں ریسرچ اور پڑھانے کے بعد اب وہ ہارورڈ میڈیکل سکول میں فُل پروفیسر تھا، جہاں وہ الیکٹرو آپٹکس میں ریسرچ کرتا تھا۔ مگر ہارورڈ یونیورسٹی کے اُس یہودی پروفیسر میں اُس لمحے میری دلچسپی میز پر پڑے مختلف کھانوں اور اُس کی قابلیت سے قطع نظر اُس کی شرارت کی وجہ سے تھی۔

وہ سوئزرلینڈ کی رہنے والی خوبصورت خاتون دوپہر کو میرے ساتھ ہی ٹرین کا سفر کرکے اوسلو سے آئی تھی۔ وہ اپنی فیلڈ میں بڑا نام تھا، انسٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجینئرنگ جسے عام زبان میں آئی ٹرپل ای کہتے ہیں، اس کا فیلو ہونا کوئی آسان بات نہیں۔ دنیا کے ماہرین کی صف میں بھی کمال کے درجے پر ہوں تو فیلو کا رتبہ ملتا ہے۔ وہ آئی ٹرپل ای کی فیلو تھی، خوبصورت، آئی ٹرپل ای کی فیلو خاتون۔

مگر اُس وقت کسی اور چیز سے قطع نظر میں ان دونوں کی جانب اُن کی گفتگو کے رنگ کی وجہ سے متوجہ تھا۔

ریسٹورنٹ کی میز پر ہم مختلف قومیتوں کے لوگ بیٹھے تھے، اور ہم سب کا ملنا بھی عجب تھا۔ زندگی اتفاقات سے پُر ہے اور اوسلو سے دو گھنٹے کے سفر پر واقع اس چھوٹے سے قصبے کے ایک ریسٹورنٹ میں ہمارا رات کے کھانے کے لیے اکٹھا ہونا بھی عجب اتفاق تھا۔

تین دن قبل اوسلو کے ریڈیسن ہوٹل کے کانفرنس ہال میں اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرکے میں واپس اپنی نشست پر بیٹھا ہی تھا کہ ساتھ بیٹھے نارویجن نے اپنا تعارف کرواتے کہا کہ وہ اوسلوسے دو گھنٹے کی مسافت پر واقعہ قصبے یووک کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔ کہنے لگا کہ دو دن بعد ہم اپنی یونیورسٹی میں اسی موضوع پر سمپوزیم کروارہے ہیں، سو اچھا ہوگا کہ آپ وہاں بھی اپنے اس مقالے کو پیش کریں۔ آپ ناروے کا ایک خوبصورت مقام بھی دیکھ لیں گے کہ ہمارا شہر ناروے کی سب سے بڑی جھیل مجوسہ کے کنارے ہے، اور یونیورسٹی کیمپس سے جھیل کا خوبصورت منظر بھی نظر آتا ہے۔ مجوسہ جھیل کی لمبائی ایک سو سترہ کلومیٹر ہے اور بعض مقام پر اس کی چوڑائی پندرہ کلومیٹر ہے۔ اوسلو سے ٹرین وہاں جاتی ہے، یہ سفر بھی بہت خوبصورت ہے؛ پہاڑ، جھیل اور دیہات کے ساتھ سے جاتی ٹرین لائن اور گرمیوں میں ہر سو پھیلا سبزہ، مجھے یقین ہےکہ آپ یہ سفر کبھی نہ بھولیں گے۔ آپ ٹرین کے آنے جانےکا کرایہ خود ادا کریں گے مگر ہماری یونیورسٹی آپ کے تین دن ہوٹل کی رہائش اور باقی خرچ اٹھائے گی۔

مسافر نے اپنی ہتھیلی پر نظر ڈالی، سفر کی لکیر بل کھاتی یووک کو جاتی تھی، اور اب میں اس شام دونوں ماہرینِ تعلیم کی کھانے کی میز پر ہوتی گفتگو کا ایک حصہ تھا۔

سوئزر لینڈ کے بنک کیوں دنیا بھر کی کالی کمائی کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہیں؟ کیا آپ کو اس بات سے کوئی پریشانی، کوئی شرمندگی نہیں ہوتی ؟
سوال کرتے پروفیسر کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
جی، ایسا نہیں ہے۔ پہلے کسی زمانے میں ایسا ہوگا مگر اب تو ہمارا بینکنگ سسٹم بہت شفاف ہے۔
شفاف؟ دنیا بھر کے ڈکٹیٹروں اور لٹیروں کے پیسے سوئزرلینڈ کے بنکوں میں ہیں، اور آپ کہہ رہی ہیں کہ وہاں کا بینکنگ سسٹم شفاف ہے۔ ہاں، اگر یہ شفاف ہے تو افریقی ممالک کے غاصبوں کے لیے ہوگا کہ وہ اپنا لوٹا پیسہ سوئزرلینڈ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ نازی دور میں یہودیوں سے لوٹا پیسہ اور مال ابھی تک سوئس بنکوں میں ہے۔

دیکھیئے، سوئزر لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی کوئی بندرگاہ نہیں ہے۔
جی، لینڈ لوکٹ جیسے افغانستان ہے۔

ہمیں آپ افغانستان سے تو نہ ملائیں۔ میں کہہ رہی تھی کہ ہمارا ملک چھوٹا سا   ہے۔ ہماری آبادی صرف اسی لاکھ کے قریب ہے۔ ہمارے آبا ؤ اجداد مویشی پالتے تھے اور ہمارا مویشی اور پنیر پر گذارا تھا، سو اس کم آمدنی کی بنا پر ہم نے اپنے بینکنگ سسٹم کو ترقی دی۔ ہم محنتی اور ایماندار لوگ ہیں۔

اور آپ کا بینکنگ سسٹم دنیا بھر میں کرپٹ ترین ہے۔

آپ کو میں اپنی تاریخ کا بتا رہی تھی۔ بینکنگ سسٹم بڑا محنت سے بنایا گیا۔ اس میں کچھ کمی رہ گئی ہوگئی۔

رہ گئی ہوں گی یا رکھی گئی ہوں گی۔

میں آپ سے بحث میں نہیں پڑتی۔ موجودہ دور میں سوئزر لینڈ نے ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی ہے۔ ہماری مشینری، ہماری گھڑیاں، ہماری یونیورسٹیاں دنیا بھر میں صفِ اول میں آتی ہیں۔ ہم مہذب لوگ ہیں۔ اس بنا پر اب ہم اپنے بینکنگ سسٹم کو شفاف بنا رہے ہیں۔

آپ ضرور مہذب ہوں گے مگر آپ کے معاشرے نے عورتوں سے جو سلوک روا رکھا وہ تو بہت سے سوال اٹھاتا ہے۔

میں چونک پڑا کہ گفتگو یک دم ایک اور موڑ لے رہی تھی۔ خاتون جو اب تک سوئزر لینڈ کے بینکنگ سسٹم کے دفاع کی کوشش کر رہی تھیں۔ اس نئے حملے کا مقابلہ نہ کر پائی، اُس نے ہتھیار ڈال دیے۔

آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ سوئز لینڈ کی عورتوں نے بنیادی حق لینے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے۔ یورپ میں ہوتے ہوئے سوئس عورتوں کو ووٹ کا حق نہ تھا۔ کیا کوئی مان سکتا ہے کہ ہمیں یہ حق انیس سو اکہتر میں ملا۔ جی، انیس سو اکہتر جب کہ دنیا کے دوسرے کونے میں واقع نیوزی لینڈ کی عورتوں کو ہم سے اسی سال پہلے ووٹ کا حق حاصل ہو گیا تھا۔

ہمارے پڑوسی ملک جرمنی میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ہم سے تریپن سال پہلے مل چکا تھا مگر ہم سوئس عورتیں اس حق کے لیے کئی  دہائیاں لڑتی رہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ انیس سو اکانوے میں سوئس سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اپینسیل انیررودن کی ضلع میں عورتوں کو مقامی سیاست میں ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا۔ یہ بھی اس وجہ سے ممکن ہوا کہ دو عورتیں سپریم کورٹ میں مقدمہ لے کر گئیں اور عدالت سے ووٹ کا حق لینے میں کامیاب ہوئیں۔

خاتون کی آواز میں درد اور اس کے چہرے پر اس جدوجہد کا اظہار نظر آرہا تھا۔ مگر وہ ابھی بھی خوبصورت نظر آرہی تھی؛ غمزدہ مگر خوبصورت۔ پروفیسر ابھی بھی مسکرا رہا تھا۔

انیس سو اکانوے اور یورپ میں واقع سوئزر لینڈ میں ضلعی انتخابات میں عورت کو ووٹ کا حق نہ تھا،  میں نے سوچا یہ تو کوئی جھوٹ لگتا ہے۔
مگر اس امتیازی سلوک کی وجہ کیا تھی؟

مرد اور صرف مرد، یہ یورپی مرد بڑے ظالم ہیں۔

اوہ، یہ تو موضوع کہیں اور جارہا ہے۔

پروفیسر مسکرایا، مگر جرمنی اور دوسرے ممالک میں بھی تو یورپی مرد تھے، شاید آپ کا خیال صرف سوئس مردوں کے لیے درست ہو۔

چلیے، یہی درست سمجھیئے۔ آپ کو میں بتاتی ہوں کہ انیس سو پچاسی میں ایک ریفرنڈم کے بعد سوئزرلینڈ میں شادی شدہ عورت کو کچھ آزادی ملی ورنہ اس سے قبل تو شوہر قانونی طور پر اپنی بیوی کو کسی نوکری سے روک سکتا تھا، بلکہ بنیادی ضرورت جیسے بنک اکاونٹ کھلوانے سے روک سکتا تھا۔ خاتون کی آواز بھرائی تھی۔

گرجوں کی گھنٹیاں تواتر سے بج رہی تھیں مگر رولیکس، اومیگا اور دوسری قیمتی گھڑیاں بنانے والے ملک میں وقت عورت کے لیے ساکت کھڑا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس ریسٹورنٹ میں بیٹھے اُس لمحے مجھے ادراک ہوا کہ چودہ سو سال پہلے عورت کو وراثت میں حصہ دینے کا حکم کتنا بڑا اور آفاقی حکم تھا۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply