عمران پر بھٹووالا سکرپٹ آزمایا جارہا ہے؟۔۔گل بخشالوی

رمضان کے پہلے دن ،3  اپریل 2022 پاکستا ن کی تاریخ کا ایک اور اہم ترین دنوں میں سے ایک قرار دیا جائے گا ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے وقفہ سوالات و بحث میں وفاقی وزیر قانون کے مختصرخطاب کے بعد سپیکر قاسم سوری نے متحدہ اپوزیشن کی قرارداد آئین کے منافی اور ضوابط کے خلاف قرار دے کر مسترد کر دی۔

عمران خان نے قوم سے خطاب میں کہا میں نے صدر پاکستان کو مراسلہ ارسال کردیا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل کر دیں ، عمران خان کے خطاب کے چند لمحات بعد صدر عارف علوی نے وزیر اعظم کی تجویز کو منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی برخا ست کر دی ،کابینہ تحلیل ہونے کے بعد کابینہ ڈو یژن نے عمران خان کے وزیر اعظم نہ رہنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ اور ساتھ ہی صدر نے ہدایت جاری کی کہ نگراں وزیر اعظم کی تعیناتی تک عمران خان ہی وزیر اعظم رہیں گے۔سپریم کورٹ نے ’موجودہ سیاسی صورتحال‘ کے حوالے سے از خود نوٹس لیا اور کہا کہ سیاسی جماعتیں پُرامن رہیں اور کوئی بھی ماورائے آئین اقدام نہ اٹھایا جائے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ اتوار کو (قومی اسمبلی میں) جو کچھ ہوا اس کا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ سب کچھ اس قدر تیزی میں ہوا کہ یہود و یزید کے پیروکاروں اور ان کے درباریوں کے ہوش اُڑ گئے ، کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ عمران خا ن ایسا بھی کھیل سکتا ہے ، قومی بد بختوں کے خواب ادھورے رہ گئے، وہ عمران کو رسوا کرنا چاہتے تھے لیکن شاید وہ بھول گئے تھے کہ عزت وذلت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔یہود و یزید کے دربان کیا ان کے ذہنی غلام صحافی فتنے نے بھی انگلیاں دانتوں میں چبا ڈالیں ، امریکی غلام جو چاہتے تھے وہ تو نہیں ہوا البتہ دلیر قوم کے دلیر قائد عمران خان نیازی نے عوام کی عدالت میں جانے کادلیرانہ فیصلہ خود کیا ، ماتم تو عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہنے والے اراکین اسمبلی کو کرنا چاہیے تھا کہ ان کی حکمرانی گئی لیکن ماتم کوفے والے کر رہے ہیں ،اس لئے کہ یہ لوگ پکی پکائی دیگ کے لئے دستر خوان پر بیٹھنے کا خواب لے کر گھر سے نکلے تھے ، لیکن ا ن سے زیادہ بد بخت وہ ہیں جنہوں نے ضمیروں کی لگی منڈی میں خود کو فروخت کیا ، وہ نہ دین کے رہے اور نہ دنیا کے، امریکہ کے یاروں کے ساتھ ان کی دربار ی صحافت کے تجزیہ نگاروں ، سلیم صافیوں، حامد میروں کو بھی بڑی تکلیف ہوئی ،ان کے خواب بھی ادھورے رہ گئے جو عمران خان کی آخری گیند کو مذاق بنائے ہوئے تھے ۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں ؟
عمران خان سے اختلاف کی کوئی وجہ بھی تو ہو، کیا ا س لئے کہ وہ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے، اس لئے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کی بات کرتا ہے، اس لئے کہ مسلم اُمہ کی عظمت اور وقار کی بات کرتا ہے ، دنیا بھر میں عظمت اسلام   کی علمبرداری کی بات کرتا ہے ، عظمت پاکستان قوم اور قومیت کی بات کرتا ہے ۔ لیکن   قوم کے   نام نہاد قائد ان حقائق کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے کہ وہ یہود و یزید کے ازلی غلام ہیں ان کی زبان پر کلمہ ءتوحید تو ہے ۔دراصل وہ سرکار دو عالم ﷺ کے دور کے مدینہ کے منافقوں کی نسل سے ہیں ، وہ مدینہ کے وہ بلال نہیں ہیں جو غلامی اور آزادی کی عظمت کو جانتے ہوں لیکن پاکستان کی عوام امریکی یاروں کو جان گئی ہے۔

بی بی سی کے کالم نگار جعفر رضوی لکھتے ہیں  کہ عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے کیا یہ وہی بھٹو والا سکرپٹ ہے؟ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد، پاکستان میں حزبِ اختلاف کی ’مشترکہ‘ کوششوں کی ایک ایسی داستان ہے یہ ا تار چڑھا ؤ پہلی بار نہیں ہے ملک میں حزبِ اختلاف کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں مل کر کسی منتخب حکومت کو گھر انے کی کوشش کر رہی ہوں۔اس سے قبل بھی ملک کی سیاسی تاریخ میں منتخب وزرائے اعظم کو ’نکالنے‘ کی مشترکہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ آج عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں جو پاکستان پیپلز پارٹی خاص طور پر پیش پیش ہے، خود اس کے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور ان کے اقتدار کے خاتمے کے لیے بھی ’مشترکہ‘ حزب اختلاف نے ہی بھرپور مہم چلائی تھی۔ماضی کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھیں تو ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں امریکہ اور اسٹبلشمنٹ پر الزامات کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو بہت جلد سامنے آئے گا۔

ملک کو سنہ 1973 کا پہلا متفقہ آئین دینے اور ’سیاست کو ایوانوں سے میدانوں تک لانے والے‘ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بالکل عمران خان ہی کی طرح محض ساڑھے تین سال بعد ہی ایک ’متحدہ‘ حزب اختلاف کی ‘مشترکہ’ مخالفت کا سامنا ‘پاکستان نیشنل الائینس’ (پی این اے) کی صورت میں کرنا پڑا۔

منتخب وزیراعظم بھٹو کے خلاف یہ تحریک پانچ جنوری 1977 کو قائم ہونے والے ’پی این اے‘ کے اس اتحاد میں مولانا فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام، ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعتِ اسلامی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمیعت علمائے پاکستان، اختر مینگل کے والد عطا اللّہ مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی، عبدالقیوم خان کی مسلم لیگ (قیوم)، پیر پگاڑا اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے موجودہ سربراہ سید صبغت اللہ شاہ پیر پگاڑا کے والد شاہ مردان شاہ کی مسلم لیگ (فنکشنل)، نوابزادہ نصر اللّہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور اصغر خان کی تحریک استقلال شامل تھیں۔

جیسے آج ہر طرح کی سوچ رکھنے والی مرکز پسند، وطن پرست، قوم پرست، جمہوریت پسند اور مذہبی جماعتیں اپنی تمام نظریاتی تفریق کے باوجود ایک نکتے یعنی عمران خان کی مخالفت میں ایک جھنڈے تلے جمع ہیں، بالکل اسی طرح پی این اے کی تشکیل بھی صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہوئی تھی اور سب جماعتیں ایک ہی نکتے پر متحد دکھائی دیتی تھیں کہ جس قیمت پر بھی ہو ذوالفقار بھٹو کو اقتدار سے نکال دیا جائے۔جیسے عمران خان کے خلاف ہر نظریے کی حامل تمام جماعتیں مختلف سیاسی اہداف اور مقاصد رکھنے کے باوجود ایک ہوگئی ہیں، بالکل اسی طرح پی این اے کے اس ’قومی‘ اتحاد میں بھی ہر جماعت متفرق اور الگ سیاسی نظریہ رکھنے کے باوجود ایک جھنڈے تلے جمع تھیں۔پی این اے کے جھنڈے کے سبز رنگ نے اس کے سخت گیر مذہبی ہونے کے تاثر کو مزید گہرا کر دیا تھا جبکہ جھنڈے پر نو ستاروں کی موجودگی نے اسے ‘نو ستارے’ کا عوامی نام بھی دے دیا تھا اور اس تحریک کو نظام مصطفیٰ تحریک کا نام اور نعرہ دینے سے یہ قیام کے فوراً ہی بعد دائیں بازو کے زیر اثر تحریک دکھائی دینے لگی۔حزبِ اختلاف کی تقریباً تمام تر سیاسی جماعتوں کے اس اتحاد کو بظاہر لبرل (بائیں بازو کی جانب جھکاو رکھنے والے) اور ‘اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست’ کا نعرہ بلند کر کے سیاسی افق پر چھا جانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے نظریاتی مخالف کے طور پر دیکھا گیا۔

سیاسی مما ثلت کے طور پر عمران خان اور ذ والفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی میں اسلامی ممالک کی پاکستان میں کانفرنس کی ایک قدر بھی مشترک ہے22 مارچ 2022 کو دنیا بھر کے 57 اسلامی ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جبکہ بالکل اِسی طرح 22 فروری 1974 کو اسی تنظیم او آئی سی کا سربرا ہی اجلاس لاہور میں اس وقت منعقد ہوا تھا جب ذوالفقارعلی بھٹو وزیر اعظم تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ وہ حقائق ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک میں کچھ آستین کے سانپ بھی تھے ، اور عمران خان کے خلاف تحریک میں بھی ارب پتی تاجر
علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے آستین کے سانپ تھے جو  خاص  مقاصد کے حصول کے ساتھ عمران خان کے ساتھ سامنے آئے لیکن جب عمران خان کا ہاتھ ان کے کرپشن کے گریبان تک پہنچ گیا تو ساتھ چھو ڑ گئے ، لیکن جو وہ کرنا اور کرانا چاہتے تھے کچھ بھی نہ کر سکے اور نہ  کر سکیں گے، اس لئے کہ عمران خان پوری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ رسول پا ک ﷺ  میرے دل میں بستے ہیں ایسے مومن مسلمان کو پاکستان کی عوام کیسے تنہا چھوڑ سکتی ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply