بچوں کی تعلیم و تربیت۔۔سکندر پاشا

آج کل کے دور میں کامیاب والدین وہ ہیں جو بچوں کی صحیح تربیت کر سکیں، کیونکہ اس گندے معاشرے میں بچوں کی تربیت کرنا باقاعدہ اب ایک بہت بڑی ذمہ داری کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور یقینا ًیہ ایک پیچیدہ اور اہم مسئلہ بھی ہے۔

زمانے  کے ساتھ ساتھ لوگوں میں قدرے شعور آگیا ہے کہ وہ تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بعض وہ قبائل اور علاقے کہ جہاں بچیوں کی تعلیم پر پابندیاں ہوتی تھیں وہ بھی اب اس بات کا شعور رکھنے لگے ہیں کہ تعلیم کو ممکنہ حد تک مہیا کیا جائے اور اس کے حصول کے طریقے سہل کئے جائیں۔ اس لئے تعلیم کا حصول مجموعی طور پر آسان کیا جا رہا  ہے لیکن وہیں اگر تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی میسر ہو تو ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

پچھلے دنوں  ایک پرائیویٹ سکول کے سالانہ امتحانات کے نتائج کے حوالے سے بچوں اور ان کے والدین سے بات کرنے کا موقع ملا۔ وہاں اکثر والدین تربیت کے حوالے سے فکر مند دکھائی  دئیے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک تربیت یافتہ شخصیت کی تعمیر کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟

ہمارے ارد گرد ایسے واقعات روز مرہ   زندگی میں پیش آتے رہتے ہیں جن کا مشاہدہ ہم کرتے ہیں کہ پڑھے لکھے طبقے سے تعلق ہوگا لیکن تربیت اور اخلاقی حوالے سے وہ حد درجہ کمزور ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سن رکھو ! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا ، سو جو امیر لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی ( لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار ) ہے اس سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی ( رعایت پر مامور ) ہے ، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی راعی ہے ، اس سے ان کے متعلق سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال میں راعی ہے ، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا ، سن رکھو ! تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا ۔‘‘ (مسلم شریف)

اس موضوع کے حوالے سے صحاح ستہ میں بکثرت روایات موجو ہیں کہ ہر شخص پر اپنے ماتحتوں کی تربیت کا فریضہ عائد ہوتا ہے اور اس حوالے سے حاکم، ذمہ دار اور نگران اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے وہ افراد جن کےما تحت لوگ کام کرتے ہیں وہ اس حدیث کے مضمون میں داخل ہیں اور ان سربراہان کا فرض ہے کہ اپنے ماتحتوں کی  نفسیات کا لحاظ رکھ کر صحیح تربیت کرنا ان پر لازم اور ضروری ہے۔ اس ضمن میں والدین اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔

دیکھا جائے تو تعلیم و تربیت کا پہلا مرحلہ بچپن ہے اور بچپن میں بچوں کے دل کی تختی صاف شفاف ہوتی ہے اور جیسے ماحول میں بچوں کی نشوونما ہوتی ہے ایسے ہی اثرات ان کے دل و دماغ پر نقش ہوجاتے ہیں اور عام طور پر ان کی آئندہ زندگی کی تعمیر اسی زاویے پہ ہوتی ہے۔

بچوں کی اولین درسگاہ اس کے والدین اور اس کے اپنے گھر کا ماحول ہے۔ گھریلو زندگی میں بھی کوئی نامناسب بات یا غیرمہذب حرکت بچوں کے سامنے نہ کی جائے، حرکات وسکنات میں بھی سنجیدگی ومتانت اختیار کی جائے، بول چال میں پیار ومحبت اور تنبیہ میں توازن اور اعتدال قائم کیا جائے، تہذیب و شائستگی کا خیال رکھا جائے، چونکہ غیر محسوس طریقہ پر تمام چیزیں بچوں کے اندر منتقل ہوتی ہیں اور وہ جس طرح کا کوئی کام دیکھتے ہیں یا کوئی بات سنتے ہیں، عملاً اس کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بچوں کی اخلاقیات پر بھی خاص توجہ دی جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ محبت میں اس کی عادتیں بگڑنا شروع ہوجائیں۔

دیکھیں شریعت مطہرہ نے ہر موقع  پر انسانی زندگی سے وابستہ ضروریات میں اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ موجودہ زمانہ میں بہت سے لوگ اولاد کے لئے پریشان رہتے ہیں کہ کوئی اولاد نہیں اور بہت سے لوگ اپنی اولاد سے پریشان ہیں کہ اولاد نکمی ہے، مطیع و فرمانبردار نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اولاد کی پرورش کا دارومدار بچپن پر منحصر ہے۔ وقت پر صحیح تربیت نہیں کی گئی، پیار پیار میں ان کو بگاڑ دیا تو پھر پریشانی کا باعث ہی بنیں گے۔ بچے بہرحال بچے ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو ہر ہر بات پر کوسنا، روک ٹوک کرنا، ڈانٹنا، مایوس کرنا بھی درست نہیں جس کی وجہ سے وہ اس قدر محتاط اور حساس ہوجائیں کہ اپنی اچھی خواہشات اور بچپنے کو بھی دبانے لگ جائیں اور اپنی فطری عادتوں اور جائز شرارتوں کو بھی گناہ سمجھنے لگیں، یہ بھی ان کے بچپن کے ساتھ زیادتی ہے اور پھر وہ بڑے ہوکر اپنے بچپن کی محرومیوں کا جوانی میں تدارک کرتے ہیں جو زیادہ خطرناک ہے، اس لئے اخلاق وعادات کی اصلاح کے ضمن میں اعتدال اور توازن بہت ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس زمانہ کا عام مزاج بنا ہوا ہے کہ اپنا بچہ اگر کوئی غلطی کردے یا کوئی غلط بات زبان سے نکال دے یا کسی دوسرے کے ساتھ بدتمیزی کرے تو اس کے والدین یا مربی یہ کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں کہ بچہ ہی تو ہے آہستہ آہستہ سنور جائے گا، حالانکہ بچپن کا دور ہی بگڑنے سنورنے کا ہوتا ہے، اس وقت مزاج کے اندر فساد اور بگاڑ آگیا تو پھر مستقبل کا سنورنا مشکل ہوجاتا ہے، لہٰذا بچوں سے سچی محبت اور اصلی ہمدردی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر ہر موقع پر اس کی نگرانی کی جائے، نامناسب امور میں اسے سمجھایا جائے اور اس کے ہر اچھے کام کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ اعصابی و نفسیاتی طور پر وہ مضبوط رہے اور سن شعور و بلوغت کی عمر کو پہنچ کر وہ ہر اچھے اور برے کام میں تمیز کرنا سیکھ جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply