• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاست، پروپیگنڈا اور شعوری انحراف۔۔ڈاکٹر مختیارملغانی

سیاست، پروپیگنڈا اور شعوری انحراف۔۔ڈاکٹر مختیارملغانی

ہم خود سے جھوٹ بولتے ہیں اور ہمیں اس بات کا ادراک تک نہیں ہوتا, اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ، انسانی دماغ اسی طرح کام کرتا ہے۔ غلطیوں کو سمجھنا اور انہیں درست کرنا ہمارے اختیار میں ضرور ہے لیکن یہاں سب سے بڑی پیچیدگی ان غلطیوں کی نشاندہی ہے۔
سطحی سوچ نہایت چالاکی سے کسی بھی علمی یا منطقی تحریف کو ماننے سے انکار کر دیتی ہے، یہ عمل شعوری نہیں ہوتا، بلکہ فرد کو اس بات پہ قائل کرنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے کہ اس کی سوچ سے غلط استدلال سرزد ہوا ہے۔ گویا کہ انسان کو دھوکا دینا اتنا مشکل کام نہیں جتنا اس سے یہ منوانا کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے، بالخصوص اگر یہ دھوکا انسان کو اس کے اپنے ذہن نے دیا ہو۔
دماغ بعض اوقات فرد سے قصدا غلط فیصلہ کرواتا ہے کہ درست فیصلہ کرنے میں بہت زیادہ وقت اور توانائی درکار ہوتی ہے، ارتقاء کے عمل میں دماغ نے یہ راز جان لیا کہ خود پر ذیادہ بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے فرد کی پسند کے مطابق اسے باطل اطمینان کا دھوکا دے کر کسی نکتے پر آمادہ کر لیا جائے۔
دماغ کا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ روزمرہ کی بہت زیادہ معلومات سے اسے نمٹنا ہوتا ہے، اس لئے یہ چھانٹی کر لیتا ہے کہ کونسی معلومات پر توجہ دی جائے اور کسے رد کر دیا جائے، وہ معلومات جسے رد کر دیا جاتا ہے، بعض اوقات وہی اصل، منطقی اور قیمتی ہوتی ہیں، اور یہیں سے تحریف کا عمل شروع ہوتا ہے، دماغ کیلئے بہتر اور آسان یہ ہے کہ وہ ان معمولات پر زیادہ توجہ دے جو ہم پہلے سے جانتے ہیں یا پھر وہ جو بار بار دہرائی جاتی ہیں۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دماغ اعدادو شمار کر نظر انداز کرتے ہوئے صرف ذاتی تجربے کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرتا ہے، مثلا اگر آپ اپنی بائیک کسی مکینک کو دکھاتے ہیں اور مکینک بائیک کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہا تو آپ اسے اچھا مکینک ماننے سے انکار کر دیتے ہیں، چاہے اعداد و شمار کے مطابق یہ مکینک پچانوے فیصد بائیکس کو بالکل درست ڈائیگنوز کرتے ہوئے ٹھیک کر چکا ہو، لیکن آپ اسے ماہر ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر کورونا وائرس کی ویکسین لگوانے کے باوجود بھی آپ کورونا کا شکار ہوتے ہیں تو ببانگ دہل کہتے پھرتے ہیں کہ ویکسین کا کوئی فائدہ نہیں، ایسا کرتے ہوئے آپ یہ بات بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اسی ویکسین کی بدولت لاکھوں قیمتی جانیں بچائی جا چکی ہیں، لیکن ذاتی تجربہ اعدادوشمار پر حاوی ہے ۔
تیسرا بڑا مسئلہ توجہ کا ہے، آپ اپنے اردگرد وہی چیز دیکھتے یا پاتے ہیں جس کے متعلق آپ سوچتے ہیں یا جس میں آپ کی دلچسپی ہوتی ہے، اگر آپ نے اپنی صحت کے متعلق سوچنا شروع کیا اور موٹاپے سے نجات کا تہیہ کر لیا تو آپ دیکھیں گے کہ ہر دوسری گلی میں ایک فٹنس سنٹر موجود ہے، حالانکہ اس سے پہلے آپ نے اس طرف توجہ نہ دی تھی، اب جب توجہ کا ارتکاز صحت کی طرف ہے تو ہر فٹنس سنٹر آپ کی آنکھوں کے سامنے پایا جائے گا۔
مشہور زمانہ جملہ ہے کہ جھوٹ کو بار بار دہرائیں گے تو وہ ایک دن سچ لگنے لگے گا، اگر کسی فرد کو آپ ننانوے دفعہ شیر کہیں تو سویں دفعہ وہ دھاڑنے لگے گا، یہی پروپیگنڈا کا بنیادی فلسفہ ہے کہ بار بار دہرانے سے عوام الناس آپ کے جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتے ہیں۔
ان سب بنیادوں پر انسانی دماغ بحیثیت مجموعی قدامت پسندی کا رجحان رکھتا ہے،آپ نے پہلے ہی سے کچھ عقائد اور ایقان بنا رکھے ہیں، انہی کی بنیاد پر اپنے لئے سیاسی، سماجی و مذہبی قائدین کا انتخاب کر رکھا ہے، اب کوئی بھی نیا قائد یا نیا نظریہ جب سامنے آئے گا تو ہماری پسندیدگیوں کا تصادم ناگزیر ہوگا، نتیجے میں ہم اسے بلا سوچے سمجھے دھتکارتے جائیں گے کہ انسانی انا انتہائی طاقتور واقع ہوئی ہے اور نئے خیالات کو ازسرنو ترتیب دینا بڑا کٹھن مشغلہ ہے۔
ہمیں اپنے عقائد سے پیار ہے۔ ہمیں مشورہ بھی وہی پسند ہے جو پہلے سے کیے گئے فیصلے کا اشارہ کرتا ہے۔ ہم ان تفصیلات پر تھوکتے ہیں جو ہمارے عقائد سے متصادم ہیں۔ فرض کریں کہ ایک شخص فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی تمام پریشانیوں کا ذمہ دار ایک سازش ہے تو ایسے میں حیرت نہ ہونی چاہیے کہ اسے اس سازش کا مکمل ثبوت مل جائے گا کیونکہ وہ فیصلہ کر چکا ہے کہ ایسا ہی ہے، پہلے ہم ایک انتخاب کرتے ہیں، پھر ہم اس کا جواز پیش کرتے ہیں۔ پہلے ہم کوئی چیز خریدتے ہیں، پھر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے۔
انتخاب جتنا بدتر ہوگا، وہ تصور اتنا ہی مضبوط ہوگا جو ہمارے فعل کو درست ثابت کرنے کیلئے اسباب کی تلاش میں نکلے گا۔ اسی کا نام شعوری انحراف یا cognitive distortion ہے، کہ آپ اپنی پسند اور نظریات کو لے کر غلط فیصلے پر یہ سمجھ کر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ آپ درست ہیں، حالانکہ آپ سر تا سر غلط ہوتے ہیں، اور اس بات کا ادراک بھی نہیں رکھتے۔
مذہبی اور سیاسی قائدین و جماعتوں کی بابت جو رائے ہم نے اپنا رکھی ہے، ہم میں سے کم ہی اس بات کا تردد کرتے ہیں کہ اپنے من پسند نظریات ، تعصبات اور پروپیگنڈا کے اثر سے باہر نکل کر عقلی دلائل کی روشنی میں اپنا انتخاب کریں، کیونکہ یہ مشکل مرحلہ ہے اور دماغ کو اس پہ آمادہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
جب کسی سیاسی قائد کی نااہلی یا کرپشن پر سوال اٹھایا جائے اور مزکورہ قائد کا حامی جوابا یہ دلیل دے کہ آپ کے قائد تو اس سے کہیں زیادہ کرپٹ اور نااہل ہیں تو سمجھ جائیے کہ ایسی بات کرنے والا شخص عقلی انحراف کے مرض میں مبتلا ہے۔
سیاست میں دلچسپی رکھنے والے جن لوگوں نے ستر کی دہائی میں شعور کی آنکھ کھولی، وہ یا تو پیپلز پارٹی کیلئے ہمدردی رکھتے ہیں یا پھر فوج ہی کو نجات کنندہ مانتے ہیں، کیونکہ یہ افراد اسی دور کے پروپیکینڈے کے زیر اثر اپنی ایک رائے قائم کر چکے تھے، اور اس رائے پر نظر ثانی پر دماغ آمادہ نہیں، نوجوانوں کی وہ تعداد جو پیپلز پارٹی کو بہتر جماعت سمجھتی ہے ان کی سیاسی تربیت درحقیقت اسی ستر والی دہائی کے بزرگوں نے کی، جو لوگ اسی یا نوے کی دہائی میں شعور کو پہنچے وہ زیادہ تر مسلم لیگ کے حامی ہیں کہ اس وقت ان کے ذہنوں میں محبوب قائد کے تقدس کو راسخ کیا گیا، آج کی نوجوان نسل اپنی اکثریت میں تحریک انصاف کے ساتھ اس لئے کھڑی ہے کہ ان کے شعور میں عمران خان کا پروپیگنڈہ بٹھایا گیا، عقلی و علمی توجیہوں پر لات مارتے ہوئے ہر گروہ اپنی پسندیدہ جماعت اور من پسند قائد کو حرف آخر سمجھتا ہے، محبوب قائد کی کوئی ایک خوبی بھی اس کی تمام خامیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے، کیونکہ دماغ ایسی معلومات کو منفی اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کھڈے لائن لگا دیتا ہے، سامنے صرف وہی رہتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply