کھلاڑی اور بڑے کھلاڑی۔۔رعایت اللہ فاروقی

جب حکمرانی بادی النظر میں ورلڈکپ کا معاوضہ بن جائے تو پھر وہی ہو سکتا ہے جو ہوا۔ یہ عمران خان نہیں تھا جس نے یہ معاوضہ مانگا تھا بلکہ یہ کوئی اور تھا جس نے انہیں یہ خواب دکھایا۔
اگر آپ ہفت روزہ زندگی کی پرانی فائلیں نکال کر خان صاحب کا وہ انٹرویو دیکھیں جو انہوں نے اس جریدے کو 1994 کے آس پاس دیا تھا تو اس انٹرویو میں وہ صاف کہہ چکے تھے کہ ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں اور یہ کہ یہ ان کا میدان نہیں۔
خدا جانے ہفت روزہ زندگی اب نکلتا بھی ہے یا نہیں مگر یہ 80 اور نوے کی دہائی میں مجیب الرحمن شامی کا مقبول ہفت روزہ تھا۔ اس زمانے میں شامی صاحب جنرل ضیاء اور ان کی باقیات کے لئے وہی درجہ رکھتے تھے جو آج کل چوہدری غلام حسین اور اسی قماش کے کچھ اور صحافی موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے رکھتے ہیں۔
ہم تو خیر سے اس دور کے چشم دید گواہ ہیں جب صلاح الدین مرحوم، مجیب الرحمن شامی اور الطاف حسن قریشی کا لکھا ہر جملہ “مثبت ترین” سے بھی آگے کی چیز ہوا کرتا تھا۔ تب اس زمانے کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل مرحوم کی تصاویر ہفت روزہ تکبیر اور ہفت روزہ زندگی کے ٹائٹلز پر شائع ہونا ایک مستقل معمول ہوا کرتا تھا۔
سو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ شامی صاحب کے جریدے نے 1992ء کے ورلڈکپ کے فاتح سے آخر یہ سوال کیوں پوچھا کہ وہ سیاست میں کب آرہے ہیں؟ یہاں دس دس مرتبہ اسکواش کا برٹش اوپن اور ورلڈ اوپن جیتنے والے جہانگیر خان اور جان شیر خان سے کسی نے کبھی یہ سوال نہ پوچھا تھا۔ اولمپک اور ورلڈکپ جیتنے والے ہاکی کے پانچ کپتانوں سے بھی یہ سوال کبھی نہ ہوا تھا۔ آخرعمران خان سے ہی یہ سوال کیوں ؟۔
جواب ہفت روزہ زندگی کے اس انٹرویو کے دو ڈھائی سال بعد یوں ملتا نظر آتا ہے کہ آج عمران خان اپنی جس 25 سالہ جد و جہد کی بات کرتے ہیں اس کا آغاز جنرل حمید گل کی ہی زیر سرپرستی ہوا۔ کسی کو شک ہو تو اس جماعت کے ان بانی ارکان سے تصدیق حاصل کی جاسکتی ہے جو آج کل تھوک کے حساب سے راندہ درگاہ ہیں۔
یہ محض اتفاق ہو ہی نہیں سکتا کہ جب جنرل مشرف نے 1997 میں اقتدار پر قبضہ کیا تو خان صاحب ان کے بھرپور سپورٹر بن کر سامنے آئے اور تب تک سپورٹر رہے جب تک جنرل مشرف نے انہیں اقتدار دینے سے صاف انکار نہ کردیا۔ تب یہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی تھے۔ اتنی جلدی بڑی ذمہ داریاں نہیں سونپی جاتیں۔
مشرف سے مایوس ہوکر یہ قومی سیاسی دھارے کی جانب آئے تو بمشکل دو ڈھائی سال ہی گزارے تھے کہ جنرل پاشا نے پھر کھینچ لیا اور وہی کیا جس کا مطالبہ بقول جنرل مشرف خان صاحب نے ان سے کیا تھا کہ میری پارٹی کو کو الیکٹبلز اور سیٹیں دلوا کر اقتدار دیا جائے اور یہ کوئی حیران کن بات بھی نہ تھی۔ انہیں خواب ہی یہ دکھایا گیا تھا کہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہم سب سیٹ کر دیں گے۔ ہمارا تو کام ہی یہ ہے۔ نواز شریف کے لئے بھی ساری سیٹنگ ہم نے ہی کی تھی۔
یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ بیتےسالوں کے دوران اس قلم سے خان صاحب کے حوالے سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تنقیدی تحاریر نکلی ہیں مگر الحمدللہ یہ بات ایک بار بھی نہ نکلی کہ وہ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ حتیٰ کہ اس حوالے سے حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے ارشادات عالیہ کو بھی کبھی چھٹانک بھر وزن نہ دیا کیونکہ دفاعی امور کی بیٹ سے 30 برس کی وابستگی کے سبب روز اول سے آگہی ہے کہ وہ کس کے ایجنٹ ہیں۔ جن کے وہ ایجنٹ چلے آرہے ہیں یہ شرلی بھی انہوں نے ہی چھڑوائی تھی کہ یہ یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔
ابھی 2018ء کی بات ہے جب الیکشن سے صرف 3 دن قبل مولانا فضل الرحمن نے یاد فرمایا۔ دورانِ ملاقات ان سے پوچھا
“آپ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کیوں کہتے ہیں ؟”
تو مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کے کچھ سینئر افسران کے نام لے کر بتایا کہ انہیں انہوں نے بتایا تھا۔ ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوگئی تھی مگر صد شکر کہ کامیاب رہا۔
ہنسی اس لئے آئی تھی کہ حکیم سعید، ڈاکٹر اسرار احمد اور مولانا فضل الرحمن کو ماموں بنانے والے ایک ہی تھے۔ خدا گواہ ہے کہ انہی لوگوں نے 2015ء کے دوران “بریکنگ نیوز” دیتے ہوئے بہت ہی تشویشناک لہجے میں اس ناہنجار کو بتایا تھا
“عمران خان کے دھرنے کے پیچھے ایم آئی سکس اور ایران ہے”
چونک کر عرض کیا ، ایران اور ایم آئی سکس کا تو جوڑ ہی نہیں بیٹھتا ، تو فرمایا گیا
“ایم آئی سکس طاہر القادری کے ذریعے انوالو ہے جبکہ ایران عمران خان کے ذریعے”
عرض کیا، عمران خان کے بچے لندن میں جمائما خان کے ہاں رہتے ہیں۔ خود خان صاحب بھی آئے روز لندن جاتے ہیں تو قیام وہیں ہوتا ہے۔ یہ سب جاننے کے باوجود ایران کیسے خان صاحب کی پشت پناہی کرسکتا ہے ؟ تو بتانے والے کو اندازہ ہوگیا کہ مطلب کی بات صرف ان صابر شاکروں سے ہی کہلوائی یا لکھوائی جاسکتی ہے جو محنتانہ وصول کرنے کے سبب انکار کی پوزیشن میں ہی نہیں ہوتے۔
سو اللہ کا شکر ہے کہ اس قلم سے کبھی یہ بکواس بھی نہیں نکلی کہ خان صاحب ایران کے ایجنٹ ہیں۔ ہماری سیاست کو جتنا سادہ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے یہ اتنی سادہ ہے نہیں۔ یہاں حکیم سعید جیسے مفکر بھی ماموں بنا دیئے جاتے ہیں، ڈاکٹر اسرار احمد جیسے مدبر بھی اور مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک بھی۔ ثقہ لوگوں کے ذریعے اس طرح کی باتیں کہلوا کر اپنے مہرے کو مستقل دباؤ میں بھی رکھا جاتا ہے اور یہ انتظام بھی کرلیا جاتا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو یہی سب اس مہرے کے گلے ڈال کر قربان گاہ بھی روانہ کیا جاسکے۔
یہ سارا انتظام روز اول سے ہی کرلیا جاتا ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ اسرائیل کا چیف جسٹس نہیں تھا جو بابا رحمتے بن کر خان صاحب کے لئے مہم چلا رہا تھا، لوگوں کو ہانک ہانک کر پی ٹی آئی میں بھیجنے والے لوگ ایم آئی سکس کے تھے اور نہ ہی آر ٹی ایس بٹھانے والے ایرانی تھے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کی یہ ایک شرمناک تاریخ ہے کہ اس کی بوتلوں میں بند جن آخر میں اس کے ہی قابو سے ضرور نکلے۔ دینے کو تو کچھ سفاک فرقہ پرست جماعتوں کے حوالے بھی دیئے جا سکتے ہیں مگر الطاف حسین سے بڑی مثال اور کیا ہوگی۔ ان کا جن تھا، مگر جب بے قابو ہوا تو “را” کے کھاتے میں ڈال دیا اور پاکستانی قوم اتنی سادہ لوح کہ جب یہی الطاف حسین جنرل مشرف کے دور میں ایک بار پھر پرانی تنخواہ پر اسٹیبلشمنٹ سے جڑ جاتا ہے تو یہ قوم چونک کر پوچھتی بھی نہیں کہ بھئی جو شخص ابھی چند سال قبل ہی بقول آپ کے جناح پور بنا رہا تھا وہ فوجی حکومت کا حصہ کیسے بن گیا ؟۔
را کا ایجنٹ جنرل مشرف کا پارٹنر کیسے ہوگیا ؟ وہ جو بھارت میں دہشت گردی کے خفیہ کیمپ تھے وہ کیا ہوئے ؟ اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہی الطاف حسین جب نواز شریف کے دور میں ایک بار پھر را کا ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے تو تب بھی کوئی نہیں پوچھتا کہ بھئی یہ تو ابھی کل ہی مشرف کا پارٹنر تھا اب پھر سے را کا ایجنٹ کیسے ہوگیا ؟ یہ بال دنیا بھر کے انٹیلی جنس اداروں کے کھیل دیکھتے ہی سفید کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی اپنے اداروں کے نمک خواروں کو “غیرملکی ایجنٹ” نہیں کہا۔ ہر ایک کے بارے میں پہلے ہی روز سے علم تھا کہ ایک نمبر کا “محب وطن” ہے۔
آپ شاید حیراں ہو رہے ہوں کہ کل اس ملک میں عمران خان حکومت کی جانب سے اتنی بڑی آئین شکنی ہوگئی اور یہ شخص اس پر بات کرنے کے بجائے کچھ اور کہانی سنا رہا ہے۔ یقین جانیئے جو عرض کیا ہے یہ آپ نہ سمجھ سکے تو یہ کل جیسے ڈراموں میں آپ مہرے بنتے رہیں گے اور آپ کو علم بھی نہ ہوگا کہ آپ کسی کا مہرہ ہیں۔
جو عرض کیا ہے اسے ذہن میں رکھ کر عمران خان کے کل کے اقدامات کے حوالے سے بس اتنا دیکھتے جایئے کہ انہیں بچایا جاتا ہے یا انجام تک پہنچایا جاتا ہے ؟ اگر بچا لیا گیا یعنی آرٹیکل 6 لاگو نہیں کیا گیا بس صرف اقتدار سے چلتا کردیا گیا تو سمجھ لیجئے کہ جو انہوں نے کیا وہ کسی کے اشارے پر تھا اور اگر آرٹیکل 6 لاگو ہوا تو لکھ کر رکھ لیجئے یہودی کارڈ کا بھرپور استعمال ہوتا نظر آئے گا۔
آپ شاید کچھ نامی گرامی وکلا کے منہ سے بھی حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد کا ذکر سننے لگیں۔ مگر اس بات کی پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ سزا ہوجائے گی۔ الطاف حسین ہزاروں پاکستانی شہری قتل کرنے کے باجود جنرل مشرف کا پارٹنر بنا تھا کہ نہیں ؟ ہم سیاست میں بڑی سیاسی جماعتوں پر نظر رکھ کر سمجھتے ہیں کہ سیاست پر اچھی نظر ہے۔
سیاست کا اصل کھیل تو خاردار تاروں کے اس پار کھیلا جا رہا ہوتا ہے جہاں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگلوں نے بھٹو اور نواز شریف بے بس کردیئے تو کپتان کیا بیچتا ہے ؟۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کے وجود پر ایک بھی ایسی کھرونچ نہیں جو اس کی اپنی پالتو بلی کی عطاء ہو۔ یہ بلیاں میاؤں سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتیں۔ خوب سمجھ رکھئے، بڑی جماعتیں کچھ بھی نہیں۔
بڑے کھلاڑی ہی سب کچھ ہیں۔ وہ بڑے کھلاڑی جن کے لئے کپتان بھی فقط ایک مہرہ اور ایک پھونک کی مار ہے۔

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply