جدید معاشرے میں مذہب۔۔مجاہد حسین خٹک

دنیا کے مقبول ترین مذاہب کی تاریخ پڑھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عوام میں کسی بھی مذہب کو بڑے پیمانے پر مقبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب اس کے ماننے والوں کو حکومت میسر آئی۔ اس کی دو ہی صورتیں رہی ہیں۔ یا اس مذہب کے پیروکاروں نے بزور طاقت حکومت پر قبضہ کر لیا یا حکمران نے اپنا مذہب ترک کر کے نیا مذہب اختیار کر لیا۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی اکثریت کسی بھی مذہب کے دلائل سے قائل ہو کر اس پر ایمان نہیں لاتی بلکہ اس کی وجوہات سماجی، ثقافتی، سیاسی اور نفسیاتی ہوتی ہیں۔
اسی طرح مذہب کو ترک کرنے والوں کی غالب اکثریت عقلی بنیادوں پر مذہب کو ترک نہیں کرتی بلکہ اس کی وجوہات سماجی، سیاسی اور ذاتی ہوتی ہیں۔ دعوت و تبلیغ سے ایک قلیل سی تعداد کو مذہب کے حق میں یا اس کے خلاف قائل کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ دور میں مذہبی ریاستوں کا دور ختم ہو چکا ہے۔ جہاں بھی ایسی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہاں صرف تباہی اور انتشار ہی پھیلا ہے۔ اس لیے مذہب کے پھیلاؤ کا یہ رستہ بند ہو چکا ہے۔ریاست چاہے قرار داد مقاصد آئین میں شامل کر دے مگر عملی طور پر سیکولر رہنا اس کی مجبوری بن چکا ہے۔
دوسرا ممکنہ رستہ دعوت و تبلیغ کا ہو سکتا ہے مگر اس کے ذریعے نہ ماضی میں بڑے پیمانے پر کامیابی میسر آئی ہے اور نہ ہی اب ممکن ہے۔اب اس کے ذریعے صرف اپنے ہم مذہب افراد کو ترک مذہب سے روکنے کی کاوشیں کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں ایسی کامیاب کاوش صرف مولانا مودودی اور جاوید غامدی جیسے اہل علم نے کی ہے۔ باقی کسی بھی عالم کی بات کے اثرات بڑے پیمانے پر نظر نہیں آتے۔
مذہب کا سماجی پہلو تو اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ فرد کی ذات کا وہ حصہ جس کا تعلق سماج سے ہے، وہ اب عقلی بنیادوں پر قائم کیے گئے علوم کی پیروی کر رہا ہے۔ جمہوریت، بینکوں کا نظام، بین الاقوامی تجارت،لباس، ٹریفک قوانین، ٹیکس کا نظام۔۔غرضیکہ ہر پہلو ان علوم کا مرہون منت ہے جن کی بنیاد کسی مذہب کے بجائے عقل پررکھی گئی ہے۔
اصل چیلنج فرد کا خدا پر ایمان قائم کرنا ہے۔ فرد اور خدا کا رشتہ ہر مذہب کی بنیاد ہے۔ کوئی شخص نماز بھی پڑھے، روزے بھی رکھے، حج بھی کرے مگر وہ خدا کے وجود کا انکاری ہو تو اسے مسلمان نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بنیادی شرط یہاں مفقود ہے۔
اس لیے جب بھی مستقبل میں مذہب کا وجود برقرار رہنے یا نہ رہنے کا سوال اٹھتا ہے تو اس کا تعلق انسان کے ایک آسمانی طاقت پر ایمان لانے سے ہوتا ہے۔
اس پہلو سے دیکھیں تو تمام مذاہب کے لیے الحاد ایک بڑا چیلنج ہے مگر اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے بجائے تمام مذاہب اور ان مذاہب کے اندر موجود فرقے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے پر اپنی قوت صرف کر رہے ہیں۔اس کی وجہ سے وہ مسلسل پیچھے ہٹ رہے ہیں اور الحاد کو پھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
دعوت و تبلیغ کے ذریعے مذہب کے پھیلاؤ کا رستہ بند ہونے کی دو اور وجوہات بھی ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ جن معاشروں میں مذہب کا اثر ختم ہو چکا ہے وہاں کے افراد عمومی طور پر کردار کے لحاظ سے بہت بلند تر مقام پر فائز ہیں۔
یہاں کردار سے مراد عالمگیر اخلاقی اصولوں کی پیروی ہے جن میں سچائی، دیانت داری، میرٹ وغیرہ شامل ہیں۔عورت مرد کا رشتہ اخلاقی نہیں بلکہ سماجی معاملہ ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ عمومی طور پر کردار سے خالی ہو چکا ہے۔ اس کی وجوہات بھی مادی اور سیاسی ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ پوسٹ میں بتایا گیا تھا کہ مذہبی طبقات سماج کی رہنمائی کے منصب سے ہٹ چکے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں وہ اختیار نہیں رہا جو ہزاروں سالوں سے ان کی قوت کا منبع تھا۔ اس وجہ سے وہ ردعمل، جھنجھلاہٹ اور تشدد کی جانب مائل ہو چکے ہیں۔
عصر حاضر کے علوم نے ان کے ہاتھ سے اختیار چھین لیا ہے اس وجہ سے وہ اپنا غصہ دور جدید کی علامتوں پر نکال رہے ہیں۔ کبھی وہ لاؤڈ سپیکر کے خلاف فتوے دیتے ہیں، کہیں ٹی وی توڑنے کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں، کہیں خواتین کو گھروں میں بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کفر کے فتووں سے لوگوں کی زبانیں بند کرنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔
ان تمام حرکتوں کی وجہ سے وہ الٹا مذہب کا پھیلاؤ روکنے اور نئی نسل کو مذہب ہی سے دور کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
میرا اندازہ ہے کہ جس سائنس اور اس کی ایجادات پر مذہبی طبقہ اپنا غصہ نکال رہا ہے، اسی سائنس نے اسی صدی کے دوران خدا کے وجود کی نشانیاں بتانی ہیں اور مستقبل میں مذہب کا وجود مدرسوں کے طلبہ، کلیساؤں کے پادریوں، سیناگوگ کے ربیوں اور مندروں کےپجاریوں کے بجائے سائنس کی درسگاؤں سے ثابت ہوا کرے گا۔
سائنسدانوں میں الحادیا لاادریت ایک فیشن ضرور بن چکا ہے مگر یہ روش تبدیل ہو گی۔ سائنس کائنات کی تخلیق سے جڑے سوالات پر بے بسی کا اظہار کر چکی ہے مگر وہ ان کے جواب تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔
اس بات کا بہت امکان ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں اسے ریاضی کے پیچیدہ فامولوں میں کسی بالاتر قوت کے وجود کے اشارے ملنے لگیں۔ اگر خدا واقعی موجود ہے، جیسا کہ ہمارا ایمان ہے، تو وہ خود اپنے وجود کے اشارے سائنسی کمیونٹی کو دینا شروع کر دے گا۔
اس لیے مذہب مستقبل میں بھی موجود رہے گا مگر اس کی صورت اس سے یکسر مختلف ہو گی جو مذہبی طبقہ پیش کرتا ہے کیونکہ اس طبقے کی بتائی ہوئی تشریحات اور تعبیرات سے دنیا بہت آگے نکل چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مدرسہ ڈسکورس

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply