بلآخر تھر دیکھ لیا(2)۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

جب میں سورج طلوع ہوتے دیکھ چکا تو میری توجہ کسی کمرے میں کسی شخص کے بری طرح کھانسنے کی جانب مبذول ہوئی۔ اتنے میں پہلی منزل کے جس صحن کی دیوار کے پردے کے ساتھ کھڑا میں سورج کی جانب دیکھ رہا تھا، وہیں ایک دروازہ کھلا جس میں شلوار قمیص میں ملبوس ایک مدقوق جوان شخص وائپر سے صفائی کر رہا تھا۔ جب میں برآمدے میں پہنچا اور کمرے کی جانب جاتے ہوئے کسی کے قدموں کی چاپ سن کے پیچھے کی جانب دیکھا تو ہلکے آسمانی کپڑوں میں وہی صفائی کرنے والا شخص تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ بھئی چائے ملے گی کیا؟ مجھے فوج میں گذرے دنوں کے زمانے سے ہی بیڈ ٹی پینے کی عادت ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہیں تو بہت کھانسی ہے۔ بولا جی اس پہ میں نے کہا کہ ماسک پہنو۔
اس نے برآمدے سے صحن کی جانب کھلنے والے دروازے کے سامنے بچھے صوفے پہ لیٹے شخص کو جگایا اور چائے بنانے کو کہا۔ میں نے مڑ کر جاگ کے اٹھنے میں مشغول شخص سے پوچھا کہ کیا نہانے کو گرم پانی ہے۔ اس نے کہا جی ہے۔ پوچھا کیا ٹونٹی سے نکلتا ہے۔ کہنے لگا جی نہیں ہم گرم پانی کی بالٹی آپ کے غسل خانہ میں لا کے رکھ دیں گے۔
میں نے کمرے میں داخل ہو کرکے وضو کیا اور فجر کی قضا پڑھنے کو نیت باندھی ہی تھی کہ دروازہ کھٹک گیا۔ مجھے نماز توڑنا پڑی۔ وہی کھانسنے والا شخص ماسک پہنے ہاتھ میں چائے کی ٹرے پکڑے کھڑا تھا۔ اس نے ٹرے میز پر رکھ کے چائے بنانے سے پہلے میری کعبے کی سمت درست کروائی اور چائے بنانے لگا۔ میں نے اسے روک دیا اور خود چائے میں شکر ملا کے چائے کی دوسری پیالی سامنے کے کمرے میں ظفر کو پہنچانے کو کہا۔
چائے پی کر کے میں نماز سے فارغ ہوا تو وہی شخص گرم پانی کی بالٹی لایا اور غسل خانے میں دھری چھوٹی بالٹی میں انڈیل کر جانے لگا تو میں نے کہا کہ دوسری بالٹی بھی چھوڑ جاو۔ مجھے بالٹیوں کی صفائی میں شک تھا پھر بھی میں نہا لیا۔ گرم پانی سے نہانے سے طبیعت بحال ہوئی۔ میں نے تیار ہو کرکمرے کا دروازہ کھول دیا۔ تھوڑی دیر میں عابد چنا صاحب اپنے کمرے سے تیار ہو کر آ گئے۔ ظفر ابھی کمرہ بند کیے تیار ہو رہے تھے۔
میں بیڈ پہ نیم دراز ہو کے عابد چنا کا شکریہ ادا کرنے لگا تو وہ بولے،” ڈاکٹر صاحب نظام کی تبدیلی میں مگن سب لوگ دنیا کے کاموں میں الجھ کر رہ گئے ہیں آپ جیسے چند لوگ تو نایاب لوگ ہیں جن سے مل کر خوشی ہوتی ہے.” انکسار اور وضعداری کا تقاضا تھا کہ میں چپ رہتا مگر میں نے فورا” اتفاق کیا کہ جی میرے جیسے ہیں تو نایاب لوگ کیونکہ یہ سچ ہے کہ مجھ ایسے لوگ جو کمانے اور حیثیت اور جائداد بنانے میں ملوث نہیں ہوئے وہ ہیں تو نایاب ہی۔
اتنے میں ظفر بھی تیار ہو کر کمرے سے نکلے اور ہم ناشتہ کرنے نیچے پہنچے۔ دو چار مسافر اور بھی بیٹھے پہلے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ یقینا” عابد پہلے سے فرمائش کر چکے تھے چنانچہ ہمیں عام ناشتہ دینے کی بجائے چار تہی روٹی کے ساتھ اصلی شہد اور تازہ مکھن دیا گیا۔ اضافی آملیٹ بھی رکھ دیے گئے تھے۔ ناشتہ بہت اچھا لگا۔ ہم باہر نکل کر عابد صاحب کی ایرکنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کے ان کی این جی او کے دفتر پہنچے جہاں انہوں نے مجھے باقی عملے سے ملوایا اور وہ شعبے دکھائے جن میں وہ کام کر رہے تھے۔ لوگوں کو بجلی کا کام سکھانے سے لے کر کمپیوٹر ٹریننگ دینے تک جس کے لیے آٹھ دس لیپ ٹاپ اوپر تلے دھرے تھے۔ گوٹھ گوٹھ نلکے لگوانے اور پانی کے ٹینک تعمیر کروانے سے علاقے میں گدھوں کے تحفظ اور گدھوں کی صحت کا خیال رکھے جانے تک کے بارے میں بریفنگ دی۔
گرین ٹی پینے کے بعد ہم ایک بار پھر کار سوار ہوئے۔ اس بار طویل قامت اور جسیم بڑی بڑی ڈھلکی ہوئی مونچھوں والے ڈرائیور امان اللہ کے ساتھ والی نشست ظفر نے سنبھالی تاکہ میں اور عابد باتیں کر سکیں۔ شہر سے نکل کر عابد صاحب نے ڈرائیور کو ایک چڑھائی چڑھنے کو کہا۔ ایک جگہ سے کار آگے نہیں جا سکتی تھی۔ اس سے آگے کچھ تفریحی تعمیرات تھیں اور کچھ ابھی زیر تعمیر تھیں۔ عابد صاحب نے بتایا کہ یہ نیا گڈی بھٹ تعمیر کیا گیا ہے اور رات کو نہ صرف یہاں کی فضا پرکیف ہوتی بلکہ شہر کا منظر بھی پرانے گڈی بھٹ سے نظر ٓنے والے منظر سے زیادہ دلفریب ہوتا ہے۔ اس کا حال ہی میں سندھ کے وزیراعلی مراد علی شاہ نے افتتاح کیا تھا چنانچہ یہ ظفر کے لیے بھی نئی جگہ تھی۔
دھوپ کھل اٹھی تھی۔ ہم تھوڑی دیر وہاں گھومے۔ تصویریں بنائیں۔ یہاں سے دن میں مٹھی شہر ایک سویا ہوا خاموش شہر دکھائی دے رہا تھا۔ سڑکیں یورپ کے معیار کی تھیں جن پر لگے شہروں اور فاصلے سے متعلق معلوماتی بورڈوں پر پاکستان اور چین کے پلاسٹک سے ڈھلے مستقل جھنڈے بھی آویزاں تھے۔ عابد صاحب نے بتایا کہ چینیوں نے صحرا میں جدید بستیاں بسائی ہوئی ہیں جہاں دنیا کی ہر سہولت موجود ہے۔ ان بستیوںمیں کچھ چینی تو اپنی بیویوں اور بہت چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی مقیم ہیں۔ وہاں داخل ہونے کی خاطر خصوسی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
اگر سہولتیں ہوں۔ مشاہرے مناسب ہوں۔ آنے جانے کی باعزت اور مناسب سواریاں دستیاب ہوں تو لوگ نہ صرف ویرانے کو بارونق علاقہ میں بدل سکتے ہیں بلکہ وہاں کام کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے البتہ اس کے برعکس اگر کوئی سہولت نہ ہو پھر بھی لوگوں سے کہا جائے کہ ایسے مقامات پر جا کے کام کریں تو بھلا کون جاتا ہے، جھوٹی حاضری لگوا کے بس تنخواہ وصول کرنے کی بدعنوانی ہی کریں گے اور عام لوگ تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم رہیں گے۔ اب دیکھیے جو کام ہم ستر برس میں نہ کر سکے وہ چار پانچ برس پہلے ایک دو سال میں چینیوں نے نہ صرف کر دکھایا بلکہ وہاں رہ کرکے کام بھی کرنے لگے ہیں۔
میرے ذہن میں تھر کا تصور محمد خالد اختر کی تھر یاترا کے سفرنامہ والا تھا جو ساٹھ برس پہلے ایک دو سال میں چینیوں نے نہ صرف کر دکھایا بلکہ وہاں رہ کرکے کام بھی کرنے لگے ہیں۔
میرے ذہن میں تھر کا تصور محمد خالد اختر کی تھر یاترا کے سفرنامہ والا تھا جو ساٹھ برس پہلے لکھا گیا تھا جب انہوں نے اونٹوں اور بہت برے راستوں پر چلنے والے قدیم طرز کے پرانے ٹرکوں، جنہیں مقامی لوگوں نے کیکڑا نام دیا تھا، بیٹھ کر تھر یاترا کی تھی، اسی لیے میں بند بوٹ پہن کر آیا تھا کہ مجھے ریت کے ٹیلوں پہ چڑھنا اور چلنا ہوگا مگر اب نہ اونٹ تھے نہ کیکڑا۔
چینیوں کی تعمیر کردہ بہترین سڑک پر آگے بڑھے تو چینیوں کا ہی تعمیر کردہ کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر دکھائی دیا۔ اس کے قریب جانے کی تو اجازت ہمارے پاس نہیں تھی اوپر سے میں غیرملکی، تبھی تو میں اپنا پی او سی اور بھائی کا این آئی سی کارڈ جیب میں لیے گیا تھا چنانچہ ہم نے بلکہ میں نے صحرا میں بنے اس بجلی پیدا کرنے کے کارخانے کے سامنے سڑک پر کھڑے ہو کر تصویر بنوائی۔
عابد صاحب سے پوچھا کہ کتنے میگا واٹ کا ہے یہ بجلی گھر تو بے دھیانی میں بولے گیارہ لاکھ کا۔ وہ غلطی سے گیارہ ہزار واٹ کو گیارہ لاکھ کہہ بیٹھے تھے۔ میں نے اور ظفر نے ہمزبان ہو کر کہا کہ گیارہ لاکھ تو بہت ہی زیادہ ہیں ، ہمارے ملک کی مجموعی ضروریات سے بھی زیادہ تو انہوں نے بجلی کے چھوٹے کھمبوں کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ کم بجلی تو ان تاروں کے ذریعے جا رہی ہے اور بڑے نئے کھمبوں میں زیادہ۔ تب میں نے کہا کہ آپ وولٹ اور واٹ میں گڑبڑ کر رہے ہیں۔ بولے اوہو اچھا تو یہ چھ سو میگا واٹ کا بجلی گھر ہے۔
میں نے استفسار کیا کہ کیا کوئلہ کی کانیں ویسے ہی قدیمی اور تحفظ کے بغیر ہیں جیسے بلوچستان کے چاغی ڈسٹرکٹ میں۔ انہوں نے بتایا کہ اوپن پٹ یعنی کھلے گڑھے ہیں۔ اچھا جیسے ہیرے نکالے جاتے ہیں پیچواں راستے والے بڑے گڑھے سے۔ بولے ہاں، میں نے خود دیکھے ہیں، دو سو میٹر گہرائی والے۔ اچھا تو آپ اترے ان میں۔ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو میں نے حیران ہو کے پوچھا یعنی آپ دو سومیٹر گہرائی میں پیدل اترے اور چڑھے؟ عابد بھائی مسکرائے اور کہا ڈاکٹر صاحب ایسی ہی سڑکیں بنی ہوئی ہیں جیسی پہ ہم جا رہے ہیں۔ شاباش ہے بھئی چنیوں کو، میں بولا۔
اگر کوئلے کی کان دیکھنے کی اجازت نہیں تو آخر ہم کہاں جا رہے ہیں، میں نے پوچھا۔ آپ کو قدیمی جین مندر دکھانے لے جا رہے ہیں۔ کئی کلومیٹر مزید چلنے کے بعد ایک جانب کو پاکستانیوں کی بنائی سڑک پہ مڑے۔ چونکہ تھر میں بیشتر لوگوں کی رہائش گول اور گنبد نما جھونپڑیوں میں ہے جو اس سڑک کے دونوں جانب بھی تھیں۔ عابد صاحب نے بتایا کہ ان جھونپڑیوں کو چونہرا کہتے ہیں۔ جن کا کلس لنبوترا ہے وہ ہندووں کی ہے اور جو مسطح ہیں وہ مسلمانوں کی لیکن ایسا ہونا ضروری بھی نہیں۔ یہ بھی اضافہ کیا کہ یہ چونہرا اندر سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں نے ایسی کسی جھونپڑی کے اندر جانے کی خواہش کی تو وہ بولے لے جائیں گے آپ کو۔ ان جھونپڑیوں کے باہر علامتی مندر دھرے تھے۔
پھر ایک جگہ پہنچ کر سڑک کے ایک کنارے پر بورڈ لگا تھا جس پر سندھی اور انگریزی زبان میں “ گوری جین مندر “ لکھا ہوا تھا۔ گاڑی ادھر کو مڑی اور ایک درخت کے سائے میں روکی گئی۔ ایک بن پتوں کے گھنی جھاڑی کی اوٹ میں تین آدمیوں کی منڈلی بیٹھی شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام گا رہی تھی۔ سامنے مندر تھا جو عام زمیں سے ذرا نیچے تھا۔ اس مندر کے گنبد مندروں جیسے نہیں بلکہ ترکی طرز کی مساجد کے گنبدوں ایسے تھے۔ مندر میں داخل ہونے کی سیڑھیوں تک پہنچنے سے پہلے چٹان کے کاٹے ہوئے غیر متناسب ٹکڑے ایک سیدھ میں رکھے تھے، جو شاید یونہی رکھ دیے گئے تھے۔ ایک جانب پتھروں کی تعمیر سے بنایا ایک گڑھا تھا جس کے ایک جانب جیسے اندر جانے کا تنگ راستہ تھا۔
عابد صاحب نے بتایا کہ یہ سرنگ تھی جو کہنے کے مطابق بہت لمبی تھی اور علاقے میں تعمیر دوسرے جین مندروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اب یہ سرنگ مسدود ہو چکی ہے۔ مندر کے بارے میں حتمی تو معلوم نہیں مگر اندازہ ہے کہ اسے لگ بھک 1375 عیسوی میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ جودھ پوری پتھر، جو سنگ مرمر سے مماثل ہے کے ستونوں پہ کھڑا کیا گیا یہ مندر اندر سے باہر کی نسبت ٹھنڈا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصے پر نقش و نگار اب تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر ایک تنگ سنگی دروازے سے گذر کر ایک ہال ہے جس کے ایک جانب چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیاں تھیں جن کی پشت کی جانب بلند چبوترا تھا۔
مندر کی نگرانی کرنے والے بھیل ہندو نے جو مسلسل ہاتھ باندھے ہمارے ساتھ ساتھ تھا نے بتایا کہ یہ کوٹھڑیاں عبادت گذاروں کے لیے تھیں جو ان میں بیٹھ کر تپسیا کیا کرتے تھے۔ میں نے بھی ایک چبوترے پر بیٹھ کے تپسیا کے انداز میں تصویر بنوائی۔ باہر نکلنے کے لیے مجھے باہر سیڑھیوں پر مشکل سے اتار کر دھرے اپنے بوٹ نکالنے سے زیادہ محنت کرکے پہننے پڑے تھے۔
جاتے جاتے عابد چوکڑا مار کر گائیک منڈلی کے ساتھ بیٹھ گئے اور ان کے مقابلے میں گا کے بھٹائی کے اشعار پڑھنے لگے۔ ہماری اگلی منزل معروف داستانی کردار ماروی کا کنواں تھی جسے حکومت سندھ نے ٹورسٹ سپاٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
( جاری ہے )

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply