میرا دوسرا وجود۔۔۔ محمد نصیر زندہ

میں عدم سے پہلے ایک آئینہ تھا مجھے تشنہ آرزوؤں کے فریم میں جڑ دیا گیا تشنگی کے دریا میرے ساتھ ساتھ بہتے تھے میں ان کے حصار میں دیدۂ حیرت کی تصویر بن کر رینگتی تمنّا کا عکس تھا میری پیاس چار سو رقصِ تماشا بن کر ھزارھا نقش تراش رہی تھی جو پیاس کی شدت میں لحظہ بہ لحظہ حدت پزیر صورتوں میں ڈھل رہے تھے سورج مجھے دیکھ کر اپنی شعاعی زلفوں میں کنگھی کرتا ستارے اگر اپنے نور کا چھینٹا میرے منہ پر مارتے تو میں ان کے پاؤں میں کہکشاں کی زنجیر ڈال دیتابادل اگر میرے سامنے سے گرج کر گزرتا تو میں اسے قوسِ قزح کی تلوار عنایت کرتا صبح اور شام میرے رخ کی سرخی اپنے چہرے پر مل لیتے ۔افق تہ افق میری لالی پھیلی ہوئی تھی ۔چاند نے جب اپنا چہرہ میرے آئینہ میں دیکھا تو اپنی محبت کا داغ سینے پر سجا لیا ۔میرے جمالیاتی واقعات کا ایک عالم تھا میں کراں تا بہ کراں چاندی کی مصفا دیوار پر جلال ایزدی کا پرتو لیے ملکوتی کیلوں سے ٹھونکا ھوا آئینہ جو بہارِ حسن کی عکس در عکس رعنائیوں میں باغ چراغاں کا منظر پیش کر رھاتھا سوچا نظارے مجھے دیکھتے ہیں میں خود کیسے دیکھوں دل میں آرزُو نے ھوس کاپیرھن پہن لیا حالانکہ ھوس ھر پیرھن میں ننگی ھوتی ھے ۔میں نے گڑگڑا کر اپنا سراپا دیکھنے کی التجا کی روحِ تخلیق نے جسے قبول کیا اور میری آرزُو کو صدیوں کے سفر پر روانہ کر دیا گیا تخلیق ہزار ہاتھوں سے ہزار زاویوں سے ھزار نیرنگیوں سے میری تعمیر میں جت گئی کبھی نور کا پیرھن کبھی چاندنی کا آنچل کبھی خوشبو کی پوشاک خیاط ازل سینے لگا وقت کے براق پا ھرکارے ازل اور ابد تک دوڑا دیے گئے جمال کسی بھی صورت میں ھو اس کو میرے خمیر میں شامل کرنے کے لیے کن فیکونی سواریاں تیار ھو گئيں عرش کے ایوانوں میں دوڑیں لگ گئيں۔

قتلِ آدم کے محضر نامے پر دستخط یزداں ثبت کر دئیے گئے اہرمن سکتے میں اور حوروملک سوچ سے خالی ہو گئے کن فیکونی تخلیق نگاروں کو حکم ھوا کہ۔کائناتی فتنوں کو جمال کے پیکر میں ترشا جائے جسے دیکھ کر سورج جل اٹھے ستارے کہکشاں کی زنجیر بن کر آسماں کے پاؤں کو بوجھل کر دیں یہاں تک کہ وہ اسے جھک کر سلام کرے سیارے چکرا جائیں اور ابدالاآباد تک چکر کاٹتے رہیں ۔جب کائنات سرمدی سروں میں ایک قفل زدہ رات کا سفر کاٹ رہی تھی اور فطرت نجم وقمرکے سائے میں سو رہی تھی عشق اوجِ ثریّا پر نے بہ لب نغمۂ حیات چھیڑنے کو تھا کہ اچانک تخلیق کے منظر سے پردہ اٹھا دیا گیا ایوانِ عرش کے پائے لرز کر سنبھلنے نہ پائے تھے کہ ساری کائنات خیرہ سرانہ رقص میں مبتلا ھو گئی فطرت نے آنکھ جھپکی عشق کا نغمہ تیز ہوا شفاف بلوریں شعاعی خیمے سے عروسِ تخلیق کاوجود برآمد ھوا جسے عرفِ عام میں عورت اور حقیقت میں مرد کا دوسرا لباس کہا گیا ستارے آنکھیں چھپکتے تھے کائنات دم بخود تھی ایک لمحے نےگردش ماہ وسال کی وسعتوں کواپنی آغوش میں لےلیا تھا جب وہ دیدۂ شہود میں نور بن کر چمکی تو غنچوں کی چٹک کلیوں کی لہک پھولوں کی مہک ھیرے کی چمک گہر کی دمک ماند پڑ گئی اس کی آمد سے ھرن چوکڑی اور چیتے لپک بھول گئے نرگس کی آنکھ سے بینائی جاتی رہی حتیٰ کہ وجودِ ازلی کا ماتھا ٹھنکا اور اس کا جلال مسکرا کے رہ گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرد صورتِ آئینہ اپنی دوسری صورت دیکھنے کے لیے بیتاب ھو رہا تھا دیوارِ کائنات پر لگا ہوا ایک نیلگوں آئینہ جس کے رعب وطمطراق کے سامنے پہاڑوں کی ھیبت کانپ جاتی تھی سمندر متلاطم ھونے سے گریزاں رہتے تھے نے اس حسینہءنازنیں کو دیکھنے کے لیے صورت نمائی کا پیرھن اوڑھ لیا تھا وقت کے سیال لمحات قطرہ قطرہ ماضی کے ساغر میں ٹپک رہے تھے کہ اچانک تغیرات کا بہاؤ رک گیا وہ لمحہ آن پہنچا جس میں میری آرزُو کو تشنگی کے عذاب سے رھائی ملنی تھی ۔قوسِ قزاحی راستے پر غمزہ طراز سراپا راز ہستی اپنے پہلے وجود کی طرف محوِ خرام تھی گلابی لباس سے جسم کی جگمگاہٹ چھن چھن کر چاند ستاروں کو تحیرّ زدہ کر رہی تھی ہلکا سا چاکِ گریباں جس سے طورِ سینا کی تجلیاں ھفت آسماں کے دروبام کو روشن کر رہی تھیں یہ ساری قیامتیں ایک دم آئینہ پر ٹوٹ پڑیں جب دونوں کا آمنا سامنا ھوا تو ایسا لگا کہ کائنات کی رگیں ٹوٹنے لگی ہیں آئینہ نے آئینہ دیکھا یا ساغر کے ھالے میں کوئی زلف لہرائی یا مرمریں تالاب میں نور پوش حسینہ نے اپنے جوڑے کا پھول پھینکا ۔ایک طلاطم تھا کہ رکتا نہ تھا آئینہ جب عکس ھضم نہ کر سکا تو تڑخ کر ٹوٹ گیا کرچیاں عورت کے جسم کو چھید کر اس کا لہو چاٹنے لگیں میری نامرد انا چلائی کہ عورت تم میں سفر کر سکتی ہے لیکن تم عورت میں سفر نہیں کر سکتے ۔تم عورت سے دور کئی نوری سالوں کی مسافت پر کھڑے ھو

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply