سرکاری اشتہارات بارے مغالطہ۔۔نجم ولی خان

ہم نے بات کی، ہم نے احتجاج کیا کہ نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے سرکاری اشتہارات بند کر دئیے ہیں۔ ہم نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ پانچویں مرتبہ ہوا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق دور میں یہی کام وفاقی اور صوبائی سطح سے الگ الگ بھی ہوتا رہا ہے جس پر ہمیشہ آواز بلند کی گئی، احتجاج کیا گیا۔ ہم سے سوال ہو رہا ہے کہ سرکاری اشتہارات کی مالک سرکار ہے، وہ جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے اس کی صوابدید ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ پرائیویٹ میڈیا چلانا ہے تو اس کے لئے اشتہارات بھی پرائیویٹ ہی لیں، سرکاری کیوں لیتے ہیں؟
بظاہر یہ دونوں سوالات اپنے اندر دم رکھتے ہیں اور ایسے لوگوں کی توجہ اور حمایت حاصل کرتے ہیں جو سویپنگ سٹیٹمنٹ پر ہی گزارا کرتے ہیں، نہ ان کے پاس علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کچھ جاننے کی زحمت کرتے ہیں، یہ کم آئی کیو لیول والے لوگوں کا معاملہ ہے جن کی اکثریت ہے اور جن کی وجہ سے ملک و قوم کی آج یہ قابلِ رحم حالت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کا کان کتا لے گیا ہے تو وہ اپنے کان کو ٹٹولنے کی زحمت نہیں کرتے بس بھاگ پڑتے ہیں اور بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوجاتے ہیں۔
مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب کمیونیکیشن سائنسز کے بعض طالب علموں نے بھی ہمارے مطالبے اور احتجاج پرایسے سوال پوچھے تو اندازہ ہوا کہ لاعلمی کس حد تک ہے، کس سطح تک ہے؟ سو سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ سرکاری اشتہارات ہوتے کیا ہیں اور حکومتیں انہیں جاری کیوں کرتی ہیں؟ سرکاری اشتہارات دو قسم کے ہوتے ہیں ایک معمول کے، جن کا جاری کرنا حکومت پر آئین اور قانون کے تحت ملکی معاملات میں شفافیت کے لئے ضروری ہے۔ ہم پہلے انہیں ڈسکس کر لیتے ہیں۔
حکومتیں ہر روز بہت سارے منصوبے شروع کرتی ہیں، نئے ٹھیکے دیتی ہیں، جاری منصوبوں کے لئے سامان خریدتی ہیں، نوکریاں اعلان کرتی ہیں اور اس طرح کے بہت سارے دیگر معاملات بارے بتاتی ہیں۔ آئین اور قانون حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ خفیہ طور پر خریداری نہ کریں کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گی تو یقینی طور پر چار آنے کی چیز چارروپے میں خرید لی جائے گی۔ حکومتیں چاہے وفاقی ہوں یا مقامی، ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ٹھیکوں اور ٹینڈروں وغیرہ کے اشتہارات جاری کریں تاکہ یہ سمجھ لیا جائے کہ تمام متعلقہ لوگوں تک اطلاع پہنچ گئی بالخصوص جنہوں نے کسی ٹھیکے یا ٹینڈر میں حصہ لینا ہے۔
کسی افسر نے اپنے الماری میں رکھی ہوئی کسی فائل میں کسی پیارے کو نواز نہیں دیا۔ جب سب کو علم ہوا تو پھر اوپن کمپی ٹیشن ہوا۔ اس سے شفافیت آئی اور ملک وقوم کے اربوں اور کھربوں روپوں کی لوٹ مار کا راستہ رک گیالہٰذا یہ سرکاری اشتہارات سرکاری معاملات میں بچت اور شفافیت کی بہت بڑی راہ ہیں، ضمانت ہیں۔ یہ ان لوگوں کی غلط فہمی کا بھی ازالہ ہے جو کہتے ہیں کہ سرکاری اشتہارات فضول خرچی ہیں، جان لیجئے، یہ حکومتوں کا نہ کوئی احسان ہے نہ مہربانی بلکہ ان کا جاری کرنا سو فیصد فرائض کا حصہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اشتہار کن اخبارات کو جاری کئے جائیں؟ تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کی رپورٹ کے مطابق وہ تمام اخبارات جو واقعی شائع ہوتے ہیں اور اپنی اشاعت کے تعدادکے مطابق اپنے اشتہارات کی قیمت پاتے ہیں وہ سب ان کے حقدار ہیں۔ اب یہاں پر آئین، قانون اور اخلاقیات کی دوسری پابندی آتی ہے کہ جب سرکار، سرکاری مال کو تقسیم کر رہی ہے تو وہ منصفانہ طور پر کرے۔ جس کا جتنا حق بنتا ہے اسے دیا جائے مگر یہاں کبھی ڈنڈی ماری جاتی ہے اور کبھی ڈنڈا مارا جاتا ہے۔
خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کو ایک، ایک دن میں کروڑوں روپوں کے اشتہارات جاری کر دئیے جاتے ہیں جبکہ تنقید کرنے یا سچ بولنے والوں کو ٹھینگا دکھا دیا جاتا ہے۔ یہ ہر دور میں ہوتا آیا ہے کہ تنقید کرنے والے اداروں کے سرکاری اشتہارات بند کردئیے جاتے ہیں۔ نجی اداروں کے اشتہارات پر انحصار کرنے کے سوال کا جواب یہ ہے حکومت کی ناقص اقتصادی کارکردگی اور گرتی ہوئی جی ڈی پی سے مارکیٹ میں پرائیویٹ اشتہار کم ہو گیا ہے۔ میں امید کرسکتا ہوں کہ جب ملک ترقی کرے گا، یہاں نئے نئے ادارے بنیں گے، ہماری جی ڈی پی گروتھ نو، دس فیصد کو چھوئے گی تو پرائیویٹ اشتہارات بھی بڑھ جائیں گے مگر موجودہ حالات میں لازمی سرکاری اشتہارات بہت سارے اخبارات و جرائد کے بنیادی اخراجات کو پورا کرنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔
جب سرکاری اشتہارات نہیں ملتے تو اداروں کے بجٹ متاثر ہوتے ہیں، وہ دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ تنخواہیں ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہتے۔ یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ سرکاری اشتہارات مالکان کا مسئلہ ہیں، اس پر عام صحافی یا صحافتی تنظیمیں کیوں احتجاج کرتی ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ اس ظلم اور زیادتی کے نتیجے میں ان کی تنخواہیں لیٹ ہوتی ہیں، تنخواہوں سے انکار ہوتا ہے، ڈاون سائزنگ ہوتی ہے اور وہ بے روزگار ہوتے ہیں سو اپنے بچوں کی روٹی کے لئے انہیں احتجاج کرنا پڑتا ہے۔
دوسری قسم کے اشتہارات وہ ہوتے ہیں جو کمپین کہلاتے ہیں اور ہر حکومت اپنے کسی نہ کسی پراجیکٹ کی واہ واہ کے لئے مہم ضرور چلاتی ہے جیسے صحت کارڈ کا اجرا ہوا تو اس کی مہم چلی۔ ان اشتہارات پر بھی انصاف اور مساوات کے اصولوں کا معمول کے اشتہارات کی طرح ہی اطلاق ہوتا ہے۔ اسی معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب معمول کے یا کمپین کے اشتہارات جاری ہوتے ہیں تووہ ایک اطلاع بھی ہوتے ہیں اور جب حکومتوں کو کچھ حق نہیں کہ وہ اطلاعات کو کچھ پیاروں یا کاسہ لیسوں تک محدود رکھیں۔
سرکاری اشتہارات کا معاملہ حکومت کی بنائی ہوئی ایک ہائی وے جیسا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ نواز شریف نے موٹر ویز بنائیں تھیں تو وہ کہہ دیتے کہ ان پر پی ٹی آئی والے سفر ہی نہیں کرسکتے۔ سیاسی پارٹیاں ضرور کسی نہ کسی کی حامی او رمخالف ہوتی ہیں مگر جب وہ حکومت بن جاتی ہیں تووہ سب کے لئے یکساں چھتری کی طرح ہوتی ہیں اور یہی بات ان کے عہدیداروں کے لئے ہے کہ جب وہ وزیراعظم اور وزرا بنتے ہیں تو پوری قوم کے ٹیکسوں سے تنخواہیں، مراعات اور پروٹوکول لیتے ہیں، ان کے اختیارات اس آئین سے جنم لیتے ہیں جس کی بنیاد پوری قوم ہے۔
اگروہ کسی ایک کے ہونا چاہتے ہیں تو حکومت چھوڑ دیں، ریاست کے اختیارات سے دستبردار ہوجائیں، اپنے گھر چلے جائیں اور اپنی ذاتی کمائی سے جس جس پیارے کو دل چاہے نوازتے رہیں، ہم کوئی شکوہ کوئی احتجاج نہیں کریں گے لیکن ایک آئینی، قانونی اور جمہوری ریاست میں آئین، قانون اور اصول ہی چلیں گے پسند ناپسند نہیں، دادا گیری نہیں، جگا شاہی نہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply