کب راج کرے گی خلق خدا؟۔۔۔ محمد احسن سمیع

مجھے یہ تسلیم کرنے کوئی عار نہیں کہ میں ایک بنیاد پرست مسلمان ہوں۔ گناہ گار سہی مگر اپنے گناہوں کو “لبرل اسلام” کا جامہ پہنا کر انہیں جواز بخشنے کے بجائے ان پر نادم ہوں اور اپنی اصلاح کا متمنی رہتا ہوں کہ اسی میں اخروی نجات پوشیدہ ہے۔ دین سے محبت کا تقاضا مگر یہ نہیں کہ اپنا جذباتی استحصال کروانا شروع کردیا جائے۔ انتخابی قوانین میں کی گئی حالیہ تبدیلیوں کے بعد ختم نبوتﷺ کے حوالے سے برپا کیا گیا ہیجان اسی جذباتی استحصال کی ایک روشن بلکہ تاریک مثال ہے جس کی آڑ لے کر ہم نے صرف ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا جن کی نظر میں ہم سب جاہل اور ہمارے ووٹ کی اوقات ان کے بوٹوں کے تلووں پر اٹی گرد سے بھی کم ہے۔ شرم کا مقام ہے کہ ختم نبوت ﷺ جیسے مقدس اور حساس معاملے کے بارے میں بے انتہا دروغ گوئی کی گئی ۔حضور رسالت مآب ﷺ کی ہی تعلیمات کی نعوذ باللہ دھجیاں اڑائیں گئیں۔ جھوٹے الزام لگائے گئے، دشنام طرازی کی گئی۔۔ بڑے بڑے علمائے کرام کی سر عام عزتیں اچھالی گئیں، حتیٰ کہ مولانا طارق جمیل صاحب جیسی سراپا محبت شخصیت کو بھی نہیں بخشا گیا جن کے منہ سے اپنے دشمن کے لئے بھی ہمیشہ کلمہ خیر ہی نکلتا ہے۔

ختم نبوت ﷺ کے معاملے کو آئینی تحفظ حاصل ہے، مگر ایک ضمنی قانون میں کی گئی جزوی تبدیلی کی بنیاد پر یہ شور مچانا کہ قادیانیوں کی غیرمسلم حیثیت ختم کر کے انہیں مسلمان قرار دے دیا گیا ہے، کہاں کی دیانتداری ہے؟ اصولاً تو علما کو ایسا پروپیگنڈا زیب نہیں دیتا ، مگر سرعام چوک چوراہوں پر کھٹرے ہو کر مغلظات بکنے والوں کو تو عالم کہنا ہی دل گوارہ نہیں کرتا۔  سب نے اپنا اپنا دو کوڑی کا ذاتی مفاد تو حاصل کر لیا مگر اس بیچ ریاست کو جس بری طرح مفلوج کیا گیا اس کی مثال تاریخ میں یوں نہیں ملتی کہ اس سے قبل ایسی تمام کوششوں کا حکومت نے بردباری سے مقابلہ کیا اور تمام چالوں کو ناکام بنا یا تھا۔ سو اس بار انہوں نے وہ داؤ لگایا جس کے شکنجے سے نکلنا ناممکن تھا۔

اس معاملے کے جتنے بھی قانونی پہلو تھے ان پر پہلے ہی سیر حاصل بحث کی جاچکی ، اور بارہا یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ قانون میں لفظی تبدیلی کے باوجود قانونی لحاظ سے کوئی فرق پیدا نہیں ہوا، اور نہ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ قادیانیوں کی غیر مسلم حیثیت آئینی طور پر طے ہے جس سے چھیڑ چھاڑ کرنا آئینی ترمیم کے بجز ممکن ہی نہیں۔تاہم نقار خانے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے ! بس کیونکہ اس سیاسی کھیل میں ختم نبوت ﷺ کانام استعمال ہوچکا تھا اس لئے ہمارے مذہبی دوستوں نے بھی کچھ سننے سمجھنے سے قبل ہی اپنے ذہن کے دروازے بند کرنا ضروری سمجھے۔کوئی تفصیل سمجھانے کی کوشش کرتا تو آگے سے جواب یہ آتا کہ اگر کوئی فرق نہیں پڑتا تو ترمیم کی ہی کیوں گئی؟ سیاہ عینک لگا کر دال میں کالا پن تلاش کرنے والوں کی خدمت میں جب عرض کی گئی کہ جناب مذکورہ ترمیم کے پیچھے کوئی سازش نہیں بلکہ یہ ایک لارجر سمپلی فکیشن پراسس کا حصہ تھی جس کے تحت کم و بیش تمام انتخابی فارمز کو اسی طرح سے سپملیفائی کیا گیا تھا، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!حکومت نے پھر بھی عوامی جذبات کے احترام میں اسے بطور غلطی تسلیم کر کے حلف نامے کو اصل شکل میں بحال کردیا ، مگر کیونکہ اصل ہدایت کاروں  کا کام ابھی نامکمل تھا، اس لئے غلط فہمی سے جنم لینے والے معاملے کو ٹھنڈا ہوتا دیکھ اسے مفاد پرست انتہا پسند ٹولے کے ذریعے پھر سلگا دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ ہے کہ ایک وزیر کے استعفے اور ایک رپورٹ کے شائع ہونے سے ختم ہو جائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یہ تسلسل ہے ان خطرناک نظائر ( پریسیڈنٹس) کا جو سول حکمرانی پر قد غن لگانے کے لیے قائم کی جا رہی ہیں۔ بظاہر ان کا نشانہ ایک فرد اور اس کی سیاسی جماعت ہے،مگر اس فرد اور جماعت کے بغض میں فرشتوں کے سہولت کار بنے احمق سیاستدانوں کو ادراک نہیں کہ آگے چل کر ان کو بھی یہی سب کھیل تماشہ برداشت کرنا ہوگا کیونکہ پریسیڈنٹ صرف پریسیڈنٹ ہوتا ہے، اور کسی کے بھی خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ اگر یہ سب یونہی چلتا رہا تو اس ملک میں کبھی عوام کی حاکمیت قائم نہیں ہوسکے گی۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply