آزمائش (افسانہ)۔۔پروفیسر عامرزرین

آزمائش (افسانہ)۔۔پروفیسر عامرزرین/  روزینہ کے لئے یہ ماحول ناقابلِ برداشت تھا۔لیکن اس حا لتِ مجبوری اور بے بسی میں وہ کیا کرسکتی تھی۔یہ فلاحی سینٹر کسی قید خانہ سے کم نہیں تھا۔ لیکن ایک عورت اور وہ بھی بے گھر ہوتے ہوئے ،لیکن یہاں اُسے کسی حد تک تحفظ تھا۔ ورنہ شہر تو تن تنہا عورت کے لئے ہوس پرست درندوں کا جنگل تھا۔ شاید اِکادُکہیں کوئی شریف،مدد گار مل جائے لیکن اکثریت سے نیکی کی اُمید نداردتھی۔تھوڑی دیر کے لئے جب اُس کے حواس معمول پہ آتے اُسے اپنابیٹا اور گھر بہت یاد آتے تھے۔اُس کے دل سے دُعا نکلتی کہ ربّ العزت اُسے اس قید سے نکال کر اُس کے گھر پہنچا دے۔

جمیل ،ایک نمازی پرہیز گار اور دُعا بندگی میں مشغول رہنے والا آدمی تھا۔اُسے پوری اُمید تھی اور ایمان تھا کہ اُس کی دُعائیں ربّ العالمین کے حضورسُنی گئی ہیں اور اُس کی لاپتہ بیوی روزینہ ضرور   بازیاب ہوجائے گی۔ شہروز، روزینہ کا بیٹااس ساری صورتِ حال سے بہت مایوس اور پریشان تھا۔وہ کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔کمسنی میں اُس کی قوتِ برداشت کم تھی، طبیعت میں جلد بازی بلکہ اگر گوگل طبیعت کہا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ جس مسئلہ کا حل ڈھونڈنا ہو گوگل پر سرچ کروالیا اور یا پھر یو ٹیوب سے سب مسائل کا حل مل جانا اُس کے نزدیک آسان تھا۔شہروز نے ضد کرکے موٹر سائیکل لی تھی، لیکن اپنی ماں کی اس طور گمشدگی کے بعد وہ بے دل اور مایوس ہوگیا تھا۔ جمیل اپنے بیٹے کی اس حالت سے پریشان تھا لیکن بے بس تھااور کوئی عملی قدم اُٹھانا اُس کے لئے ایسے ہی تھا جیسے کسی بے منزل سفر پر چل نکلنا ۔روزینہ کے بغیر گھر میں بے رونقی اور ماتمی ماحول تھا۔ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ شہروز کی ماں روزینہ آیا کہ زندہ بھی ہے یہ نہیں؟باپ اوربیٹا کے ذہن میں یقینا کئی بھیانک اور پریشان کُن خدشات اور شبہات ہجوم کئے رہتے تھے۔ کراچی جیسے دو اڑھائی کروڑ کی آبادی کے شہر میں کئی لوگ روزانہ حادثات کا شکار ہوجاتے تھے۔ کئی بے موت مارے جاتے۔لیکن ایک مثبت اور پُر امید سوچ کے باعث وہ ان تمام برگشتہ کُن خیالوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیتے۔بس ایک موہوم سی اُمید تھی کہ روزینہ ایک دفعہ ضرور اپنے گھر واپس آئے گی۔

جمیل نے اپنے بیٹے سے کہا،‘‘ شہروز کچھ ہمدرد  دوست اور عزیزوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آپ کی ماما کو شہر کے مزاروں،فلاحی اداروں، قبرستانوں،ہسپتالوں کے مُردہ خانوں میں بھی تلاش کیا جائے ۔’’ شہروز نے بے دلی سے اثبات میں جواب دیا،‘‘ جی پاپا۔’’ ‘‘لیکن اکیلے نہیں جانا اپنے کچھ دوستوں کو ساتھ لے لینا۔اور آج کا دن اسی کام میں لگاؤ۔شایداللہ تعالیٰ تمہیں تیری ماما سے ایسے ہی ملا دے۔ نہ جانے وہ کن حالات میں ہوگی،’’ جمیل نے کہا۔اُس نے یہ جملے انتہائی بے دلی اور مُردہ آواز میں اپنے بیٹے سے کہے، جیسے کسی طوفان میں گھری کشتی کا ناخُدا اپنے بچاؤ کی تمام کوششوں کے بعد ہمت ہا ر بیٹھا ہو ۔ لیکن اس تمام صورتِ حال میں کبھی جمیل اپنے بیٹے کو تسلی اور حو صلہ دیتا تو کبھی اُس کا بیٹا شہروز اپنے باپ کو اس کٹھن وقت میں ہمت دیتا ۔ شہروز نے کہا،‘‘پاپا ! میرا دل کہتا ہے ماماکو کچھ نہیں ہوا۔وہ جہاں ہے خیریت سے ہے اور اس مُشکل میں سے نکلنے کے لئے ہماری مدد کی منتظر ہے۔’’ ہر باشعور انسان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ غیب کا علم ربّ العزت ہی کوہے اور انسان کو اس علم سے بے خبر رکھا گیاہے۔جمیل اور اُس کے خاندان پر آزمائش کا یہ کڑا وقت تھا۔اس بات کو سمجھتے ہوئے اور اپنے خالق پر یقینِ کامل ہوتے ہوئے جمیل کو پورا یقین تھا کہ روزینہ زندہ ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو اس طور تسلی دیتا تھا ،‘‘ بیٹا میرا دل نہیں مانتا، کہ تمہاری ماماہمیں کسی مردہ خانے یا لاوارث لاشوں میں ملے گی۔’’ اُس کی یہی باتیں شہروز کو پُر اُمید بناتی تھیں اور اُس کے لئے تسلی کا باعث تھیں۔

دونوں باپ بیٹے نے روزینہ کی بازیابی کے لئے اپنے اپنے سرکل میں واٹس ایپ گروپس پر روزینہ کی حالیہ تصویر بھی شیئر کر رکھی تھی تاکہ تلاشِ گمشدہ کی ان تمام سرگرمیوں میں مدد مل سکے۔لیکن ابھی تک کہیں سے کوئی پُر امید خبر نہیں ملی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے قدرت نے کچھ دیر کے لئے روزینہ کو اس کی فیملی کی نظروں سے روپوش کر دیا تھا۔ اورکہیں سے کوئی خیر خبر نہیں مل رہی تھی۔ تلاش کرنے والوں کی آنکھیں جیسے بند کردی گئی تھیں، اور سمجھ بوجھ جیسے جواب دے چُکی تھی۔ پولیس کو بھی مطلع کیا جاچکا تھا لیکن ابھی تک ہر طرف سے کوئی خیر کی خبر نہ تھی۔

ایک اور دن اس خاندان پر آئی پریشانی میں ڈھل جانے کو تھا۔ کہیں سے کوئی مثبت اشارہ نہیں تھا۔جمیل نے اپنے بیٹے سے کہا،‘‘چلو یہ تو ہم نے اچھا کیا اور یہ ضروری بھی تھا کہ ہم روزینہ کی گمشدگی کی رپورٹ پولیس اسٹیشن میں کروا چُکے ہیں۔’’ شہروز کی آنکھوں میں اُداسی اور مایوسی کی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی تھی۔لیکن جہاں نوجوان طبقہ کو غیر ذمہ دار اور لااُبالی طبعیت کا مالک مانا جاتا ہے،وہیں کسی بھی معاملے میں لگن اور شوق اس جواں دل اور جواں اُمنگ طبقہ دن رات ایک کرسکتا ہے۔اور اس کا بعین ثبوت تھا کہ شہروز اور اس کے دوستوں نے سارا دن شہر کے تقریباً تمام بڑے مزارعات اور نادار بے آسرا لوگوں کے لئے شہر کے فلاحی دستر خوان روزینہ کی تلاش میں چھان مارے تھے۔لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا تھا۔ جمیل نے اس ساری تگ و دو اورکوشش کے لئے اپنے بیٹے کو دُعادی اور الہٰی مدد اور حمایت کے لئے نیک خواہش بھی۔ اُس نے اپنے بیٹے سے کہا،‘‘ خبر ملنے پر مقامی ہسپتال میں آج چند دوستوں کے ہمراہ میں پانچ بے آسرا عورتوں کو مل کر آیا ہوں۔یہ خواتین ذہنی بیماری کے باعث ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں داخل کی گئیں تھیں۔ لیکن ان میں تمہاری ماماں نہیں تھی۔’’

روزینہ کی گُمشدگی کا سانحہ جیسے جیسے طول پکڑ رہاتھا، جمیل اور اُس کا بیٹا تو پریشان حال تھے ہی۔ لیکن کچھ لوگ بازیابی کے لئے کی جانے والی تمام تر کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جمیل کی نیت پر شک کر رہے تھے، کہ دراصل وہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی اب واپس آئے۔ ان باتوں سے جمیل اور بھی دل شکستہ تھا لیکن اُسے اپنے ربّ کی ذات پر یقین تھا جو نیتوں اور ارادوں کو جانچتا ہے، خیالوں کو پرکھتا ہے۔‘‘……اگر تو مصیبت کے دن بے دل ہوجائے تو تیری طاقت بہت کم ہے۔’’

جمیل کے ایک قریبی عزیز نے اُسے یہ آفر دی کی ہماری بیٹی ڈیڑھ سال کی ہے، اسے آپ گود لے لیں۔اور بہن روزینہ کی پینشن اس کے نام ہوجائے گی اور اس کے اٹھارہ سال کی عمر تک آپ کو پینشن ملتی رہے گی۔‘‘……وہ ہشیاروں کو اُن ہی کی چالاکیوں میں پھنساتا ہے اور ٹیڑھے لوگوں کی مشورت جلد جاتی رہتی ہے۔’’ جمیل کے رشتہ دار بھی سمجھتے تھے کہ شاید اب اُس کی بیوی اس دُنیا میں نہیں رہی۔ جمیل نے اس آفر کو ٹھکر ادیا اور کہا کہ اسے اپنے خُداوند خُدا سے پوری اُمید ہے کہ اُس کی بیوی ضرور اسے مل جائے گی۔

اسی دن شام میں جمیل کے پڑوسی اس کے پاس آئے ۔ رسمی سلام و دعا کے بعد روزینہ کی گمشدگی کو لے کر انہوں نے بتایا کہ ملتان شہر میں اُن کے جاننے والے ایک مُرشد پیرصاحب ہیں، جو اپنے موکلوں سے سماجی مسائل کا حل نکالتا تھا۔انہوں نے جمیل سے کہا کہ آپ اجازت دیں تو ہم اپنے مُرشد پیرصاحب سے درخواست کریں کہ وہ بہن روزینہ کی تلاش میں اپنے مؤکلوں سے مدد لیں۔ لیکن جمیل کو ان جادوگروں اورپڑھائی کرنے والوں پر یقین نہیں تھا۔ اُسے صرف ذاتِ خُداوندی سے اُمید تھی جو کہ سب سے اعلیٰ اور ارفع ہستی ہے۔ اُس نے مُرشد پیرصاحب والی آفر سے منع کردیا۔ انسان ہوتے ہوئے اگرچہ انسانی نفسیات تو ایسی ہیں کہ ‘‘ڈوبتے کو تنکے کا سہارا’’ والی بات، لیکن جمیل اس سارے عرصہ میں خود کو ایک امتحان اور آزمائش میں تصور کرتا تھا ۔‘‘……وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمائش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کردے گا تاکہ تم برداشت کرسکو۔’’ لہٰذا وہ اس کڑے وقت میں خود کو ثابت قدم رکھنے اور صبر و اطمینان کے لئے دُعا گو رہتا۔

موبائیل فون ٹیکنالوجی نے جہاں یوتھ کا ستیاناس کردیا تھا وہیں اس کے مثبت پہلوؤں کو  نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔کوئی بھی خوشی، غمی یا فوری اطلاع یا پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کم سے کم وقت میں پہنچانااگر ممکن ہو سکا تھا تو موبائل سیل فون اور اُس کی سماجی ایپس کی وجہ سے۔ شہروز کی فیملی کے لئے یہ جدید سیل فون ٹیکنالوجی ہی ایک بڑی کرامات کا وسیلہ بننے والی تھی۔

آج صبح پھر وہی گھر کی سوگوار فضاء تھی۔جمیل فجر میں اپنے نماز ریازت سے فارغ ہوکر دُعا میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی شخصی دُعا میں اپنے پروردگار سے حتمی مطالبہ کیا کہ آج اُسے اُس کی گمشدہ بیوی کے بارے میں خیر کی خبر دے۔ کیونکہ اسے اس چیز کا خدشہ تھا کہ اس کا بیٹا ذات ِخُداوندی سے برگشتہ ہوتا جارہا تھا۔‘‘……تُو نہیں جانتا کہ ایک ہی دن میں کیا ہوگا۔’’ کیونکہ وہ نوجوانی میں جذبات میں اس چیز کا اظہار کرتا تھا کہ خُداوند ِ کائنات تو ہماری دُعا ہی نہیں سنتا۔اس طرح کی بچگانہ سوچوں کا اندازہ جمیل کو ہورہا تھا۔

فلیٹ کی سیٹرھیوں پہ جمیل کو ایک پرانی پڑوسن مل گئی جو کہ ان کی بلڈنگ چھوڑ چُکی تھی لیکن وہ کبھی کبھار اس بلڈنگ میں آتی رہتی تھی۔ اُس خاتوں نے جمیل سے پوچھا ‘‘کہ کیا بہن روزینہ واپس گھر آگئی؟ ’’ اُس نے مختصراً تمام پریشان صورتِ حال سے اُس خاتون کو آگاہ کیا۔ پڑوسن نے حیرت سے کہا ۔‘‘ہم تو سمجھے تھے کہ روزینہ گھر آچکی ہوگی۔’’ جمیل کو اس خاتون کی باتیں عجیب لگ رہی تھیں ،کیونکہ جس طرح وہ اس ساری صورتِ حال کو معمولی لے رہی تھی حقیقت اُس سے یکسر مختلف تھی۔

جمیل کی پرانے پڑوسیوں کے مطابق جو ابھی اس بلڈنگ میں نہیں رہتے تھے،انہوں نے ہفتہ دس دن قبل مقامی پولیس اسٹیشن کے جاری کردہ واٹس ایپ کلپ کا ذکر کیا۔ کیونکہ روزینہ اپنی ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ کے بعدہی ڈیمنشیاکا شکار ہوگئی تھی۔ اور یاداشت انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں اور مقامات کو پہنچاننے کے قابل نہیں تھی، کبھی کبھار تھوڑا بہت اس کی یاداشت کام کرتی تھی۔ لہٰذا اپنی گمشدگی والے دن وہ اپنے گھر کا راستہ بھول چکی تھی۔ اور ان حالات میں مقامی پولیس اُسے اپنی وین میں اپنے اسٹیشن لے گئے۔ اور اُس کی واپسی کے لئے اور ورثاء کی آگاہی کے لئے اس کا واٹس کلپ بھی وائرل کیا تھا۔جو جمیل کے پرانے پڑوسیوں تک پہنچا تھا۔ اور وہ روزینہ کو پہچان کر اُسے بلکل ٹھیک خبر دے رہے تھے۔ جبکہ مقامی پولیس نے معمول کی دفتری کاروائی کے بعد روزینہ کو ایک فلاحی ادارے میں بھیج دیا تھا۔

جمیل کی خوشی کی انتہاء نہیں تھی لیکن پھر بھی چند خدشات اُس کے دل میں پنپ رہے تھے۔ لیکن اس کی اپنے پرانے جاننے والوں سے اتفاقی ملاقات اور روزینہ کی گمشدگی کی گتھی کا سلجھنا ایک معجزے سے کم نہیں تھا۔ اسے اپنی فجر کے وقت کی گئی دُعا کے الفاظ بالکل یاد تھے اوربار بار آسمان کی طرف دیکھ کر ہاتھ باندھ کر اپنے ربّ کا شُکر پہ شُکر ادا کررہا تھا۔ جمیل نے وہ واٹس ایپ کلپ حاصل کیا اورتسلی کی کہ وہ روزینہ ہی تھی، جو اُس دن گھر سے اکیلی ہی نکلی لیکن پھر واپس نہ آئی تھی۔جمیل اپنے دوست کے ساتھ مقامی پولیس اسٹیشن کی طرف گامزن تھا۔ اوراُس نے انہیں واٹس ایپ کلپ دیکھا کر اپنی بیوی کے بارے میں پوچھا اور اطلاعِ گمشدگی کا سرکاری ثبوت بھی دیکھایا۔ روزینہ کی بازیابی کی ساری کڑیاں ملتی جارہی تھیں اور راستے کشادہ ہوتے جارہے تھے۔ڈیوٹی پہ تعینات پولیس اہل کار اس بات پہ حیران تھا کہ یہ سیل فون کلپ بھی اسی نے بنایا تھا اور پھر بعد ازاں گمشدگی کی رپورٹ بھی اُسی نے لکھی تھی۔ لیکن اُس کی آنکھوں اور یادداشت پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہ بروقت ورثاء کو روزینہ کے بارے میں خبر نہ کرسکا۔جمیل کو پولیس اہل کار سے کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا۔ اُسے اپناخاندان پھر مکمل ہونے کی خوشی تھی۔ پولیس نے روزینہ کی سپرد داری کے لئے فلاحی ادارے کو فون بھی کردیا تھا اور خط بھی لکھ دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فلاحی ادارے کی طرف گامزن جمیل ،اُس کا بیٹا شہروز اور اس کا دوست جلد جلد وہاں پہنچنے کے لئے بے تاب تھے۔ جمیل کا ذہن الہٰی فہم اور حکمت کے لئے شکر گذار تھا اور ذات ِ خُداوندی کی عظمت اور بزرگی کو مبارک کہہ رہا تھا۔جس طوران مشکل اور اذیت ناک حالات میں وہ اور اُس کا بیٹا گذرے تھے،وہ اُس وقت کو یاد بھی نہ کرنا چاہتا تھا۔ جمیل زندگی کے اس تلخ باب سے ایک شاندار تجربہ ہوا تھا کہ آزمائشوں کی کھائیوں میں ڈال کو انسان کو سکھانے اور اپنے اورقریب لانے سے زیادہ اللہ و تبارک تعالیٰ کے پاس ان آزمائشوں سے نکلنے کے لئے آپ کے تصور سے زیادہ بڑھ کر وسائل ہیں۔اسی لئے وہ اپنے پروردگار کاشکر گذار تھا جس کی حمایت اور مدد کے باعث وہ ان حالات میں ثابت قدم رہاتھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply