ریاستِ پاکستان اور اشرافیہ۔۔مرزا یاسین بیگ

پاکستان کی سیاست اب اصول رواداری اور ایمانداری کی روایات کھوچکی ہے۔ پی پی ہو، ن و ق لیگ ہو یا پی ٹی آئی سب ایک حمام میں ننگے ہیں۔ جو جس پارٹی کا ہے وہ اپنی ہی پارٹی کو بہترین اور باقی سب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سیاست کا ہر فعل اب ذاتی فائدے کےلیےہوتا ہے۔ عوام کی بھلائی محض نعرہ ہے۔ اصل مقصد اقتدار کی طاقت اور قوم کے پیسے کو اپنے نام کرنا ہے۔ کارکنان سے لے کر صحافی و قلم کاروں میں اب توازن نام کی کوئی شۓ باقی نہیں رہی۔ صحافت اور عدلیہ بھی بکاؤ مال بن چکا ہے۔ دوسروں میں کیڑے نکالنا اور اپنی پارٹی اور اس کے لیڈر کی ہر حال میں ستائش قومی مزاج بن چکا ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا پاکستان اس رجحان اور بحران سے کیسے نکلےگا؟ کون نکالےگا؟ کون قوم کے مزاج کو شستہ و شائستہ بناۓگا؟ کون، کب، کیسے پاکستان کی زبوں حالی کو دور کرےگا؟ عوامی مسائل پر سنجیدگی سے توجہ کب ڈالی جاۓگی؟ اور یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟ سمجھ شعور قوم کے نام نہاد لیڈران میں نظر آتی ہے نہ عوام میں۔ بس چھنا جھپٹی کی ایک فضا ہے سیاست کے ایوانوں سے لےکر بازاروں، سڑکوں اور محلوں میں۔ منہ سے جھاگ اور مغلظات نکل رہے ہیں اور اربوں روپے کی سودےبازی جاری ہے۔ جو آج پیسہ خرچ کررہے ہیں وہ کل کو اقتدار میں آگۓ تو اس سے تگنی چوگنی رقم جیبوں میں بھریں گے۔

جو بازی ہار جائیں گے وہ اکادکا تعمیری کام بھی ہونے نہیں دیں گے۔ یہی پہیہ برسوں سے گھوم رہا ہے اور ملک کا بیڑا غرق ہوتا چلا جارہا ہے۔ عالمی سیاست میں رونما ہونے والی ہر لہر کو ہم خود گھسیٹ کر اپنے ملک کے اندر لے آتے ہیں تاکہ نۓ تنازعات میں الجھے عالمی غنڈوں سے اپنی امداد جاری کرواسکیں۔ امداد آتی ہے تو ساتھ عالمی غنڈوں کی do moreکی طلب بھی۔ امداد ہمارے یہی “شر آفیہ” ہضم کرجاتی ہے۔ پھر دکھاوے کےلیۓ وردی والے سیاسی حکومتوں پر الزامات لگاتے ہیں اور سیاسی حکومتیں وردی والوں پر۔

بعدازاں احتساب کے نعرے بلند ہوتے ہیں مگر قوم سے لوٹا پیسہ کبھی برآمد نہیں ہوتا کیونکہ ایک چور، دوسرےچور کا احتساب کیسے کرسکتا ہے؟ انصاف کے ترازو لےکر بیٹھنے والے بھی صرف اپنے لیۓ دولت تول رہے ہیں۔ “شرآفیہ” ہر قانون سے بالاتر ہے۔ ایسے میں ریاستِ پاکستان سے ہمدردی رکھنے والے دعاؤں کے علاوہ اسے کچھ بھی نہیں دےسکتے۔ پاکستان اس حال تک پہنچانے والوں کا گریبان پکڑنے کی طاقت کھوچکا۔ یہ ملک اب صرف ان لوگوں کا ہے جو “شر آفیہ” ہیں جو ہر کھیل اپنے لئے کھیلتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کبھی ایسا ہوا کہ شدید افراتفری کے بعد نئی حکومت نے عوامی بھلائی کےلیۓ کچھ کیا ہو؟ یہاں تو چور ڈاکو ہی حکومتوں میں رہے ہیں۔ وہی پھلتے پھولتے اور کھرب پتی بنتے رہے ہیں۔ عوام تو کل بھی کولہو کے بیل اور گدھے تھے اور آج بھی ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کوڑی کی ہوکر رہ گئ ہے۔ ننگی، بےشرم “شرآفیہ” خاندان پاکستان کو دیمک لگاچکیں۔ پاکستان سے حقیقی محبت کرنے والے رورہے ہیں اور بےبسی کا ماتم کررہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply