داخلی و خارجی نیّت(1)۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

داخلی ارادہ اور خارجی ارادہ (داخلی اور خارجی نیت) اس قدر وسیع اصطلاحات ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا آسان نہیں، فرد اور سماج کے درمیان تعلق کی اہم ترین کنجی انہی تصورات کی تہہ میں موجود ہے، یہ الگ بات کہ انسانوں کی اکثریت اس راز سے واقف نہیں، جیسے تبلیغی جماعت والے کسی شخص کو قائل کرنے کیلئے، بھائی ارادہ تو کر لیں، کی نصیحت کرتے نظر آتے ہیں، اس نصیحت کی پوشیدہ نفسیاتی حقیقت سے متکلم اور سامع دونوں ناواقف ہوتے ہیں ۔
فرد کی خواہش یا پھر اس کے من میں پروان چڑھتی امیدیں اپنی اصل میں داخلی نیت یا داخلی ارادہ ہیں، اپنے داخلی ارادے پر یقین رکھنا فرد کیلئے انتہائی اہم ہے، کامیابی کا پہلا زینہ یہی ہے، اس کامل یقین کی اہمیت پر بے شمار کتابیں ہمارے سامنے ہیں، ایزوٹیرک سائنسز کے ماہرین اور صوفی ہمیشہ سے اسی نکتے پر زور دیتے آئے ہیں، آج جدید سائنس کے علمبردار بھی اپنا مشاہدہ بتاتے ہیں کہ داخلی ارادے کی قوت سے فرد خارجی ماحول کو اپنے حق میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن یہیں ایک مغالطہ پیدا ہوتا ہے، خارجی ماحول ایک مختلف چیز ہے، اسے خارجی ارادے یا نیت سے گڈ مڈ نہ کیا جانا چاہیئے۔
فرض کیجئے کہ آپ ایک پروڈکٹ یا تخلیق کے موجد ہیں، اور آپ کو لگتا ہے کہ عوام الناس ہر حال میں یہ پروڈکٹ خریدیں گے اور انہیں خریدنی چاہیے کیونکہ یہ آپ کی نظر میں ایک غیر معمولی ایجاد ہے، لیکن یہ آپ کا داخلی ارادہ یا خواہش ہے، لوگوں کی نظر میں عین ممکن ہے کہ یہ ایک بیکار اور عام سی ایجاد ہو اور وہ اس پر اپنا پیسہ برباد نہ کرنا چاہتے ہوں، کیونکہ آپ کا داخلی ارادہ آپ کو مجبور کرسکتا ہے کہ اپنے مال کو آپ جانبدارانہ اہمیت دے رہے ہوں ۔ مال کی فروخت کا دارومدار مارکیٹ کی طلب پر ہے، جب تک آپ گاہک کی طلب نہیں پرکھتے تب تک اپنا مال بیچنا آپ کیلئے مشکل ہوگا اور اسی کا نام خارجی ارادہ ہے کہ آپ دوسری طرف سے طلب کو سمجھ سکیں، اگرچہ کچھ شاہکار خارجی ارادے کے مرہون منت نہیں ہوتے، وہ اپنا آپ منواتے ہیں، لیکن یہ استثناء ہے۔
انسانوں کے مابین تعلقات کی بنیاد میں داخلی اور خارجی ارادوں کی اہمیت شاید باقی تمام عناصر سے بڑھ کر ہے، جب آپ سامنے والے شخص کی اندرونی خواہش اور نیت کو سمجھے بغیر اپنے داخلی ارادے سے اسے سدھارنے کا بیڑا سر پر اٹھاتے ہیں تو اس رویے کو تنقید کہا جاتا ہے، اور اس کے نتائج ہمیشہ منفی آئیں گے،کیونکہ آپ کا داخلی ارادہ اس شخص کے داخلی ارادے کو چوٹ کر رہا ہے، ایسے میں فرد اگر آپ کی عمر، حیثیت ، سماجی ادب اور بھاری دلائل کو دیکھتے ہوئے آپ سے متفق ہو بھی جائے تو وہ صرف دماغ سے متفق ہوگا نہ کہ دل سے، ایسے میں آپ اس شخص کیلئے غالب والے ناصح کا درجہ تو پا سکتے ہیں لیکن چارہ ساز اور غمگسار نہیں بن سکتے، لیکن اگر آپ داخلی کی بجائے خارجی ارادے کو عمل میں لاتے ہوئے فرد کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کریں تو ایسا رویہ تعریف کہلاتا ہے، تنقید فرد کو مخالف دھارے میں لانے کی کوشش ہے جبکہ تعریف کا مطلب ہے کہ آپ فرد کے ساتھ دھارے کی ایک ہی سمت میں بہہ رہے ہیں ، جو کہ بہتر تعلقات کیلئے ناگزیر ہے ، دھارے کی اسی ایک سمت میں بہتے ہوئے فرد کی ذات کی طرف اشارہ کئے بغیر اس کی شخصیت میں موجود منفی عناصر پر اپنی رائے ایک اجتماعی پہلو میں بیان کیجیے۔
یہاں ایک اہم ترین بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ جائز اور بجا تنقید پر بھی لوگوں کی اکثریت آپ سے متفق نہ ہوگی، اور جو متفق ہوگا، جان رکھئے کہ ایسا شخص خودترحمی اور خود الزامی کا مریض ہے، ایسے شخص پر فتح حاصل کرنے کا مطلب اس کی ذہنی و نفسیاتی حالت کو مزید پیچیدہ بنانا ہے اور اگر آپ واقعی اس کے خیر خواہ ہیں تو آپ کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہئے۔
تنقید کرنے والے کا لاشعوری مقصد اپنی انا کی اہمیت کو منوانا ہے، لیکن معاملہ یہ ہے کہ اپنی انا کی اہمیت کو منواتے ہوئے آپ سامنے والے کی شخصی اہمیت پر چوٹ کر رہے ہوتے ہیں، اور ایسی چوٹوں کے اثرات کبھی بھی مثبت نہیں ہوتے۔
(خارجی ارادے پر تفصیلی بحث اگلے مضمون میں ہوگی)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply