• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اب تو حکومت کی کانپیں ٹانگ ہی رہی ہیں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

اب تو حکومت کی کانپیں ٹانگ ہی رہی ہیں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

کافی عرصہ ہوا کہ وطن عزیز کی سیاسی صورتحال کے بارے میں لکھنا بہت ہی کم کر دیا ہے۔ یہاں تجزیہ کار جانبدار اور سیاستدانوں کی اکثریت سیاسی شعور سے عاری ہے۔ اقتدار کی ہوس میں کسی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت سکڑ چکی ہے اور عملی طور پر ضمیر فروش بادشاہ گر ہیں۔ پی پی پی سندھ تک محدود ہوچکی ہے، اگرچہ ملک کے مختلف حصوں میں اس کی سپورٹ موجود ہے۔ مسلم لیگ نون بھی سکڑ کر پنجاب کی جماعت بن چکی ہے، اگرچہ “کے پی کے” کے ہزارہ ڈویژن اور دیگر کچھ خطوں میں اس کی سپورٹ بہرحال پائی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی اس حوالے سے ان دونوں جماعتوں پر فوقیت رکھتی ہے کہ اس نے پچھلے الیکشن کے نتائج کے مطابق پورے ملک سے سیٹیں جیتیں اور حیران کن طور پر کراچی میں بہت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں پی ٹی آئی پورے ملک سے جیتی، اس کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ لوگوں نے پی پی اور مسلم لیگ کی جگہ تیسرے آپشن کو ووٹ دیا۔

سب سے بری حالت بلوچستان کی سیاسی صورتحال کی ہے، جہاں صوبائی سیاسی قیادت نظریہ کی بنیاد پر نہیں پنپ سکی۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بلوچستان سے جیتنے والے ہر ممبر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ حکومت کا حصہ بن جائے۔ اس سیاسی تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کوئی بھی جماعت تنہاء حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ بڑی سیاسی جماعتیں جو الیکشن ہاری ہوتی ہیں، نہ جیتنے والی پارٹی انہیں حکومت میں شامل کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی بڑی پارٹیاں حکومت میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ اس صورتحال میں آزاد اراکین اور چھوٹی پارٹیاں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔ پی پی کے دور میں آپ کو یاد ہوگا کہ قاف لیگ کا ڈپٹی وزیراعظم بھی تھا اور اہم وزاتیں بھی اس کے پاس تھیں۔ نون لیگ نے قاف لیگ کو تو ساتھ نہیں ملایا مگر مولانا فضل الرحمن اور قوم پرست جماعتوں کو ضرور ساتھ ملایا اور بلوچستان کی حکومت بھی انہی کو دے دی گئی۔

پی ٹی آئی کو بھی اکثریت کے لیے اتحادیوں کی ضرورت تھی، اس کے لیے انہوں نے آزاد اراکین کو جمع کیا، جن سے بات نہ بن سکی تو ایم کیو ایم اور قاف لیگ کو بھی ساتھ ملانا پڑا۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے کہ جنہیں خان صاحب ڈاکو اور قاتل کہتے رہے، ان کو اتحادی کیسے بنایا گیا؟ یہ چلتا ہے، جب پوری حکومت ملنے والی ہو تو آج کے دور میں ماضی کے بیانات صرف ووٹر کی ہمدردی حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس وقت جہانگیر ترین صاحب کا حلال جہاز صبح شام پرواز کر رہا تھا اور بڑے شفاف انداز میں ضمیر کی آواز پر فیصلے ہو رہے تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی نے ممبران کی اقلیت کے باوجود اس جہاز کی برکت اور قاف لیگ کی مہربانی سے حکومت بنا لی۔

اگر یہ بات زیادہ پرانی ہے تو 2019ء میں جب سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی تو اپوزیشن اتحاد کی تعداد 65 جبکہ حکومتی اتحاد کی تعداد صرف 35 تھی۔ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو اپوزیشن کے 65 ممبران نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر عدم اعتماد کی تائید کی، لیکن جیسے ہی دوبارہ چیئرمین کے انتخاب کے لیے خفیہ ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن اتحاد کے امیدوار حاصل بزنجو کو 65 میں سے صرف 47 ووٹ مل سکے۔ اس وقت تحریک انصاف کے وزراء خوشی سے بھنگڑے ڈال رہے تھے کہ یہ ان سینیٹرز کے دلوں کی آواز ہے، یہ ہارس ٹریڈنگ نہیں ہے، انہوں نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا ہے۔ آج وہی وزیر اپنے ممبران اسمبلی جن کے بارے میں گمان ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ووٹ دینے جا رہے ہیں، ان کو لوٹوں، ضمیر فروشوں اور ہارس ٹریڈنگ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے۔؟

اب لگ یوں رہا ہے کہ بات فیصلہ کن موڑ تک پہنچ چکی ہے، سیاست انہونیوں کا نام ہے، مگر ظاہری صورتحال بہت گھمبیر ہوچکی ہے۔ عمران خان صاحب جس ایمپائر کے نیوٹرل ہونے کے دعوے کیا کرتے تھے، لگ یوں رہا ہے کہ وہ سچ میں ہی نیوٹرل ہوگیا ہے۔ چوہدری پرویز الہیٰ کے بیانات حقائق سے پردہ ہٹا رہے ہیں۔ ویسے چوہدریوں کی معلومات کو بھی داد دینا بنتی ہے کہ وہ حکومت کو بتا رہے ہیں کہ اپنے بندے پورے کرو، پھر ہماری طرف آو۔ انہوں نے جان بوجھ کر کہ خان صاحب اور پی ٹی آئی کہیں گھبرا نہ جائے، ان ممبران کی تعداد بارہ بتائی، جو کہا جا رہا ہے کہ چوبیس کی تعداد میں سندھ ہاوس میں موجود ہیں۔ ان لوگوں کا ضمیر جاگ چکا ہے اور وہ سندھ ہاوس میں پناہ گزین بھی ہوچکے ہیں، تاکہ انہیں راتوں رات کسی چھانگا مانگا نہ پہنچا دیا جائے۔ اب ویسے چھانگا مانگا کی جگہ سندھ ہاوس اسلام آباد کا نام استعمال کیا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس عرصے میں چوہدروں اور ایم کیو ایم نے خوب سیاست کی اور سچ پوچھیں تو ہمارے خان صاحب کی گردن میں موجود سریا بھی کچھ پگھلا ہے اور جن اتحادیوں کی درخواست پر ان سے ملاقات گورا نہیں کی جاتی تھی، اب ان کے سیدھے الفاظ میں کہوں تو ترلے کیے جا رہے ہیں۔ یہ تو سیاست ہے، جہانگیر ترین اور علیم خان نے اپنے نظرانداز کرنے کا بدلہ لے لیا ہے۔ قاف لیگ نے تو ٹانگہ سیٹوں کے ساتھ پورے پنجاب کی وزیراعلیٰ شپ ہی مانگ لی۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اتنی بڑی قیمت مانگی کہ اب شائد پی ٹی آئی اور نون لیگ دونوں نے صاف ستھرا جواب دے دیا ہے اور پی ٹی آئی کے اندر نقب زنی کرکے ان کے اراکین توڑ لیے گئے ہیں۔ خبر گرم ہے کہ عمران خان صاحب نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے چالیس اراکین ہماری جیب میں ہیں۔ راجہ ریاض صاحب نے فرمایا کہ اراکین کی تعداد چوبیس سے زیادہ ہے، جو رابطے کر رہے ہیں، مگر نون لیگ انہیں ایڈجسٹ نہیں کر پا رہی۔ حکومت کی فریسٹریشن بتا رہی ہے کہ گیم ختم ہوچکی ہے، کل جو زبان شہباز گل صاحب نے رمیش کمار کے خلاف استعمال کی، اس سے یہی لگتا ہے کہ اب تو پی ٹی آئی حکومت کی کانپیں ٹانگ ہی رہی ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply