اک پھیرا اپنے دیس کا (5)۔۔کبیر خان

’’ اُس آکھیا :
ستاروں سیں اَگّے جہاں ہور بھی ہیں
پرے سیں پرے سیں پراں ہور بھی ہیں
بس بندے کے پلّے چار پینسے نالے تھوڑی بہت ہمت شمت ہونی چاہیئے۔ اوپر والا آپ رستے نکال دیتا ہے۔ دیکھو ناں ! اپنا چھاکا دو بار ایران توران کے پہاڑاور باڈر کےخاردار تار پار کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ تین مرتبہ مکرانی کشتی کے تہہ خانہ سے ، دو بار اونٹوں کے کھجاووں سے برامد ہوا۔ یوں کُل ملا کے سات بار جیل ہوئی۔ لیکن ولایت جا کر کمانے کی ضد و جہد پر قائم دائم رہا ۔ اور آخر کار شیر کا بچّہ گیس ٹینکر کی کوکھ میں دبک کر کامیابی کے ساتھ تُرکی سے یونان اسمگل ہو گیا ۔ اِدھرپیچھے شِکرے کا ’چئیں چکّ‘ (اچانک) ویاہ ہو گیا ۔ اللہ جس کو ہدایت دے، وہ دن اور آج دیہاڑِا، آدم بوُ آدم بوُ کرتا شِکرا کُلّہُم ایک ووہٹی کے ساتھ گوٹی ملائے ہوئے ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اے جے کے 786کی وارثی چھوڑ کر سارا سارا دن بیوی کے جہیز میں آئی سنڈا سی کٹیا اور ویسی ہی مالکن کی ’’کلینڈری‘‘کرتا پھرتا ہے۔ پچھلے اتوار مبارک کو اُس کے ویاہ کی پہلی چھ ماہی پوری ہوئی ہے۔ گھر میں خیر وبرکت کی خاطر سوئیاں سَرے پکائے اور کھائے گے۔ کسی انسان کے پُتر سے بھانویں سر پر ککھّ رکھ کے پوچھ لو،اس عرصہ میں کبھی کسی نے شکرے کو ویگن کی چھت پر پورے قد سے کھڑے ہو کر جھوٹے منہ اپنی ٹیم کو ھِپّ ھِپّ ھُرّے کرتےدیکھا سُناہے۔۔۔۔؟ سُنا ہے تو جوسزا چور کی وہ بقلم خود بندہ ناچیج کی ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔ متبادل لیفٹ آوٹ نے کئی سال پیشتر کہا تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے، ہمیں شِکرے کی مبیّنہ بے رُخی فرض شناسی جیسی لگی تھی۔
کلب کے جیالوں میں ایک متوالا وہ بھی تھا جس نے کبھی نچلا بیٹھنا سیکھا ہی نہیں ۔ وہ ایسا غیر سنجیدہ بندہ تھا جس کی آنکھوں میں ہمہ وقت شرارت،ٹھٹھا،مسکان بھری رہتی تھی۔ چنانچہ اُس سے ملتے ہی ہاتھوں میں’’کھُرک ‘‘سی لگ جانا اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ وہ شریر اور ہنسوڑ شخص اس موقع پر خلافِ معمول بے حد بجھا بجھا سا تھا۔ ایک لمحے کو خیال گذرا کہ اُسے اپنے لنگوٹیے یار، دُلہن کے بھائی اور ہمارے جواں سال بھانجے(حفیظ) کی یاد نے مغموم کر چھوڑا ہے۔(حفیظ چند ماہ پیشتر مہلک وبا کا شکار ہوکر خالق حقیقی سے جا ملا تھا )۔ پھر اپنی سوچ پر آپ ہنسی آئی کہ جو ستم ظریف اپنے قریبی رشتہ دار کی میّت کو کندھا دیتے ہوئے غیر سنجیدہ روّیہ اختیار کر سکتا ہے،اُس سے شادی کے موقع پر افسردگی کی توقع عبث ہے۔ اُسے یکسر کھویا کھویا اور غیرحاضر سا دیکھ کر کچھ اچھا نہیں لگا۔ سوچا گُدگدی کر کے دیکھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ اُسے چھیڑا۔۔۔ ، وہ نہیں چھِڑا۔ عجیب لگا۔ کل ہی کی توبات ہے، ہم نے جب بھی چھیڑا‘وہ چابی والے کھلونے کی طرح چھِڑا ۔ اور ہمیشہ کی طرح ذوقؔ کے شعر کی ’’ریڑ‘‘ لگا ئی۔۔
’’ اے ضعف ! کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ میسا و خضر* سے۔۔۔۔۔‘‘
جب بھی ملتا ، وہ یوں ہی ذوقؔ کے شعر پر ہاتھ صاف کرتا ۔ پھر دستِ دراز سے چُٹکی بجاتے ہوئے کہتا:۔۔۔۔۔ شعر میں ہمدم سے مراد وہ جی دار بندہ ہے جو یاروں کی طرح مانگے تانگے کے k2 ( سگریٹ کا ایک برانڈ) سے دوپیسی نکالنے اور حاضر مجلس مستحقین کو باری لگوانے میں ذرّہ برابرجھجک محسوس نہ کرے۔
جب تلک ہم اُس کے ہمدم دیرینہ رہے ، وہ ہمارا ہمدم رہا۔ پھر بوجوہ ہم نے سگریٹ نوشی ترک کردی ۔ وہ حسبِ معمول شعرماری کرتا رہا۔
اگرچہ وہ پہلے بھی کچھ ایسا ہرا بھرا نہیں تھا مگر ایسا پژمردہ خاطر بھی نہ تھا۔ لمبے عرصہ کے بعد اُسے دیکھ کر دھچکا سا لگا۔ایک مدت تک وہ ہمارے کلب کا گول کیپر رہا ہے۔ اس عرصہ میں ہم نے اُسے زیادہ تر ہنستے ہنساتے ہی دیکھا۔ یہاں تک کہ سنجیدہ سے سنجیدہ میچ میں بھی کبھی دوچارگول ، آٹھ دس دھپّے اوراتنی ہی گالیاں کھا کے بد مزا نہ ہوا۔ ہر جملے اور سلیس قسم کے لات مُکّے پر ہنس ہنس کر لوٹ پھوٹ ہونا اُس کا فوری رد عمل ہوا کرتا تھا۔
اُس دن ہم نے بے اختیار کَس کے شعر مارا ۔ جو ٹھیک نشانے پر بیٹھا بھی۔ لیکن وہ خلاف معمول ٹس سے مس نہ ہوا ۔ یہاں تک کہ اُس کی ایک ناگفتنی چھیڑ بھی نشانے پر داغی ۔ اُس کی پشم نہ ہلی ۔ پوچھا ، مسلمان ہو گئے ہوـــ؟جواباً اُس نے آنکھ اٹھاکر دیکھا تو ہم نے دیکھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھیں یکسر خالی تھیں ۔اس قدر ویرانی ہم نے 2005 کے زلزلہ کے بعد کشمیر کے دیہاتوں میں بھی نہیں دیکھی۔ ہم سبب پوچھنا ہی چاہتے تھے کہ افتخار نے اشارے سے منع کر دیا۔ اور تخلیہ میں لے جا کر بتایا کہ آپ کے ’’ستم ظریف ‘‘کا بیٹا ایک واہیّات الزام میں حوالات بند ہے۔ الزام کی نوعیت کے پیشِ نظرملزم کی ضمانت کروا نے کا حوصلہ رکھتا ہے نہ بیٹے کی تکلیف برداشت کرنے کی سکت ۔ یہ کم بخت تو جیتے جی مر چلا ہے۔ اللہ ایسے باپوں کو ایسی اولادیں نہ دے تو کیا بُرا ہو‘‘۔ افتخار کے لہجے میں درد ہی درد تھا۔
ہم ستم ظریف کو ایک طرف لے گئے تو اُس نے صرف ایک جملہ کہا۔۔۔۔ ’’آپ کا بھی ایک ہی بیٹا ہے، خدا واسطے اُسے کتابوں کے انبار سے اُس وقت تک باہر نہ نکلنے دیناجب تک اُسے جینے کے ڈھنگ نہیں آ جاتے‘‘۔ ہم نے اُس کے سراپے پر اچٹتی ہوئی نگہ ڈالی ۔ قسم اللہ پاک کی،اس قدرٹوٹا پھوٹا باپ ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ہم اُس ٹھیکری ٹھیکری باپ کا سامنا نہیں کر پائے ۔۔۔۔ میدان سے سرک لئے۔ اُس نے اپنی کرچیوں کا بورا آپ اپنےجھُکے ہوئے کاندھوں پر ڈالا اور لڑکھڑاتا ہوا شادی ہال سے نکل گیا۔
ہم اُس کے تعاقب میں نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں جہاں اہلِ دیہہ کے مویشی چرا چُگا کرتے تھے وہاں قسم قسم کی سواریاں جگالی کررہی تھیں ۔۔۔ موٹر سائیکلیں کیری ڈبّوں کے پہلو میں ، ویگنیں ٹرکّوں کے درمیاں۔ سوزوکیاں ٹریکٹروں سے بھِڑی کھڑی ۔ بائیسکلیں ٹرالروں سے گتھم گتھا۔ جہاں اس وقت ریڑھے سے دیگیں اتاری جارہی تھیں ، ٹھیک اسی تھاں پر کبھی اللہ میاں کی گائیں گدھوں کی خوشامدیں کیا کرتی تھیں اور میمنے بھینسوں کے آگے بین بجایا کرتے تھے ۔اُس وقت بھی ایک میمنا سُر لگانے کی تیاری کر رہا تھا۔ اُسے دیکھ کر ہمارا بھی جی چاہا کہ بِین بجائیں ۔ میمنے نے دیکھا تو بلا تامل بین ہماری اور بڑھا دی ۔ ہم نے بجائی تو میمنے نے جھٹ ہمارے ہاتھ سے جھپٹ لی:
’’انکل ! جس طرح چیخ اور بَین میں فرق ہوتا ہے ، اسی طرح بِین اور بِگل میں بھی ڈھیر سارا فرق ہوتا ہے ۔ آپ نے ساری عمر دن کا آغاز سنکھ کی للکار سے ، اور رات کی شروعات بھی اسی کی پکار سے کی ہے ۔ لیفٹ رائیٹ لیفٹ ۔ سرکاری لنگر کی توڑنے والے کیا جانیں لَے کیا بلا ہوتی ہے اور نَے کیا شے؟۔‘‘
اسی اثنا میں کھانا لگنے کا اعلان ہوا۔ ہم بھی آستینیں چڑھا کر لپکے۔ لیکن وہاں ہمارے کرنے کا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ برادری جو ایسے مواقع پر میزبان ہوا کرتی تھی، مہمان بنی بیٹھی تھی ۔ کلب کے ممبران جو ہر موقع پر آخر تک رضا کاری کیا کرتے تھے،مہمانوں کی طرح میزوں پر بیٹھے تھے۔ اور اُن کی جگہ کچھ اجنبی چہرے میزبانوں کی میزبانی کر رہے تھے۔ معلوم ہوا ٹھیکیدار کے بندے ہیں ۔ جن کے نزدیک جملہ شرکا ’’گراہک‘‘ تھے اور وہ اُن سے ویسا ہی سلوک کر رہے تھے۔ چنانچہ شادی کو ٹھیکیدار کے منظور شدہ پیمانے سے ماپا جا رہا تھا۔ برادری کے فیتے خارج از نصاب تھے۔ جو بھی کھانا کھا چُکتا ،سرک لیتا۔ ہمیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔؟؟؟ ہم سوچنے لگے اور پھر سوچتے ہی رہ گئے۔ پھر سوچا:
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*میسا اور خضر قریبی رشتہ دار اور گول کیپر کے ہم جماعت تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply