دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔زاہد احمد ڈار

برادرانِ اسلام ، ہم خود کو اسلام کے پیروکار اور طریقہء  شریعت کے علمبردار سمجھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام نے تہذیب و تمدّن، اخلاق ومعاشرت ، سیاست ومعیشت اور باقی سارے زندگی کے شعبہء  جات کے  جو اصول و ضوابط مقرّر کیے ہیں وہ بے داغ اور افراط و تفریط سے بالکل خالی ہیں، ہم دل سے سمجھتے ہیں کہ اسلام نے کسی پر زور اور زبردستی سے کسی حکم کو لادنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس نے ہر فرد بشر پر اس کی وسعت اور حیثیت کے مطابق ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور اس کا مطالبہ بھی لوگوں سے وہیں تک ہے جہاں تک ان میں قوتِ عمل اور صلاحیت ِکارکردگی موجود ہے ـ

لیکن عقیدہ کی اس پختگی کے بعد بھی ہمارے قول و فعل میں جو تضاد پایا جاتا ہے وہ بڑا تعجب خیز اور انتہائی حیرت انگیز ہے ـ ہم اپنے دین کے متعلق ایسا واضح تصوّر رکھنے کے باوجود بھی بہت سے موقعوں پر ہماری نگاہوں کے سامنے اسؤہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلم  اور سیرت اصحاب ِ رسول نہیں ہوتے، بلکہ ہماری ایک ایک حرکت سے واضح ہوتا ہے کہ وقت کے سلگتے ہوئے مسائل پر تنقید کرنے کے بجائے ہم گردوپیش کے حالات سے متاثر ہوکر اسلام کی تعلیمات سے الگ اور طریقوں سے دور جا پڑے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا سماج دن بدن کھوکھلا ہوتا جارہا ہے اور پوری انسانیت موت کے دہانے پر آکھڑی ہے ـ۔

ان سب مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہماری خواتین کے متعلق ہے جن کی پیدائش پر یہاں نہ قدیم زمانے کے لوگ خوش ہوتے تھے اور نہ اس زمانہ جدید میں ہی خوش ہوتے ہیں ـ  بیوہ عورتیں شوہروں کے ساتھہ چتا میں جلائی جاتی تھیں ـ جو جل کر مرنے سے بچ جاتی تھیں ان کے لئے دنیا تاریک ، بھیانک اور جہنم کی بھٹی سے کم نہیں ہوتی تھی ـ آج کے جدید دور میں عورتوں کے حقوق کی باتیں کی جاتی ہیں، ہر معاملات میں ان کے حقوق گِنوائے جاتے ہیں جو مردوں کے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ آج ہم ترقی یافتہ قوم ہیں، ہمارے فکر ونظر میں وسعت پیدا ہوگئی ہے ـ ہم اکیسویں صدی میں رہنے والوں نے خلاؤں کو بھی فتح کرنا شروع کردیا ہے اور اس لئے عورت کے زائد حقوق دیے جانے کی بات کرنا ہمارے لئے ناگزیر ہےـ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعی ہمارے اندر عورتوں کے سلسلے میں وسعت نظر پیدا ہوچکی ہے؟

کیا یہ حقیقت ہے کہ عورتوں کے تعلق سے ایک ترقی یافتہ اور مہذب قوم ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں تو اس کا واضح اور دو ٹوک جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، بلکہ جہاں تک ہمارے قول کا تعلق ہے وہ نہایت ہی خوشنما ہے مگر عمل کا چہرہ انتہائی بھیانک اور مکروہ ہے ـ قرآن نے عورتوں کی حیثیت کو مردوں کے ہم پایہ اور دوش بدوش رکھا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ـ ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علیھن درجة واللہ عزیز حکیم ـ البقرة ـ یعنی اور عورتوں کا حق بھی مردوں پر اسی قدر ہے جس قدر مردوں کا حق ہے اور مردوں کا درجہ عورتوں پر کچھ  زیادہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ ـ

اس آیت کی تفسیر میں صاحب کشاف لکھتے ہیں ـ ویجب لھن من الحق علی الرجال مثل الذی یجب لھم علیھن بالمعروف بالوجہ الذی لا ینکر فی الشرع و عادات الناس  ـ یعنی عورتوں کا حق مردوں پر اسی قدر واجب ہے جس قدر خود مردوں کا حق عورتوں پر واجب ہے ـ حق کا یہ وجوب نہ تو شریعت کے خلاف ہو اور نہ لوگوں کی عادت کے ـ اسی طرح قرآن میں  ایک اور جگہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ـ ھن لباس لکم وانتم لباس لھن ـ البقرة ـ یعنی عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو ـ اگرچہ یہ آیت ایّامِ رمضان سے متعلق ہے لیکن اس میں مردوں اور عورتوں کی حیثیت کو برابر کرکے مساوات اور یکسانیت ظاہر کی گئی ہے ـ مردوں کو عورتوں پر اگر کوئی فضیلت ہے تو محض اس لئے کہ وہ ان کی حاجت روائیوں کے ذمہ دار،  ان کی کفالت کے پابند اور ان کو دیکھ  بھال یا ان کے نان و نفقہ کے کفیل ٹھہرائے گئے ہیں،

ورنہ یہ بات تو کسی طرح قرین قیاس نہیں بن سکتی کہ جب انسانی حیثیت سے نظامِ عالم کا بارِ گراں ان دونوں کی شخصیتوں سے متعلق ہے تو محض مردوں ہی کی قدر وقیمت کو اونچا اٹھادینا اور عورتوں کی حیثیت کو نظر انداز کردینا کسی طرح عقلمندی نہیں ہوسکتی ـ مگر افسوس کے ساتھ  کہنا پڑتا ہے کہ  ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ  سوتیلاپن جیسا سلوک دیکھنے کو ملتا ہے ـ ہم نے ایک عورت کو اُن تمام حقوق سے محروم رکھا جو اسلام نے اُن کو دیے  ہیں ـ اسلام نے تعلیم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں کے لئے فرض قرار دیا اور وہ بھی پیدائیش سے لے کر موت تک ـ اگرچہ اسلام نے عورت کے حصولِ علم کے لئے کچھ حدود مقرّر کی ہیں

لیکن اُن میں بھی ہم ہی  رکاوٹ بن رہے ہیں ـ کبھی کبھار والدین بھی اپنی بیٹی کے حقوق سلب کرتے ہیں،  اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھہ ایک جیسا سلوک روا نہیں رکھتے   جس کے نتیجے میں ایک بیٹی احساسِ  کمتری کا شکار ہوکر خود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے ـ ہم جس عورت سے قربانی کی بات کرتے ہیں،  کیا ہم نے کبھی اس بات پر سوچا کہ وہ تو ہمارے لئے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کے آتی ہے، کیا ہم  چھوڑ سکتے ہیں اپنے ماں باپ ، اپنے طور طریقے؟ ہرگز نہیں ـ  جس طرح ایک ماں اپنے بچّوں کی صحت اور زندگی کے لئے ہر وقت پریشان اور دُعا گو رہتی ہے بالکل ویسے ہی ایک بیوی بھی اپنے شوہر کی زندگی اور صحت کے لئے دُعاگو رہتی ہے ـ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہماری بہوئیں ہماری ساسوں سے کیوں نالاں رہتی ہیں ؟

کیونکہ ساسیں اگر اپنی بہوؤں کو گہنے دے دیتی ہیں گھر کی چابیاں دے دیتی ہیں لیکن شاباشی نہیں دیتی ـ کاش کہ اُنہیں یہ فن بھی  آتا، تو بہوئیں اپنے ساسوں کی خدمت ساری عمر کرنے کو تیار ہوجاتی ـ اگر  ہم خواتین کو اپنے حقوق دینے کو تیار نہیں ہیں تو یقین مانو ہم بھی دورِ جاہلیت کی طرح اُن کے زندہ درگور ہونے کا  سبب بن رہے ہیں ـ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہےـ واذالموؤدة سئلت بای ذنبٍ قتلت ـ یعنی اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکیوں سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں قتل کی گئی ہیں ـ اس آیت کی تفسیر میں مفسّرین یوں رقمطراظ ہیں ـ وکانت العرب اذا ولدت لاحدھم بنت دفنھا حیة مخافة العار والحاجة الاملاق وخشیة الاسترقاق ـ فتح البیان ـ یعنی عربوں میں جب کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تھی تو اسے زندہ دفن کردیا کرتے تھے اس کی وجہ شرم اور عار تھی یا ضرورت،  محتاجی اور ذلّت کا خوف ہوا کرتا تھاـ ،

صاحبِ تفسیر خازن لکھتے ہیں ـ کانت العرب تفعل ذالک فی الجاھلیة تدفن البنات حیة مخافة العار والحاجة ـ یعنی عرب عہد جاہلیت میں لڑکیوں کو اس لئے زندہ دفن کردیا کرتے تھے کہ انہیں عار اور ضرورت کا ڈر پیدا ہوجاتا  تھا ـ صاحبِ مدارک لکھتے ہیں ـ کانت العرب تئد البنات خشیة الاملاق و خوف الاسترقاق ـ یعنی محتاجی اور ذلّت کے خوف سے عرب لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے ـ اگرآج کل کے دورِ عالمیت میں  ہمارا بھی یہی رویہ رہا جو دورِ جاہلیت میں تھا تو ہمیں یہ سننے میں بھی کوئی افسوس نہیں ہونا چاہئے کہ شوہر، ساس اور نندوں کے دن رات طعنے سن کر کوئی بہو آگ سے خود کشی کرلیتی ہے، جو خود کشی نہیں بلکہ ایک قتل کی طرح ہوگا ،

چہ جائیکہ قانون کی  زبان میں خواہ اسے قتل نہ کہتے ہوں،  ویسے بھی اس طرح کے کیسوں میں مشکل سے ہی دس پندرہ کیس خودکشی کے ہوتے ہیں ورنہ یہ صریحاً  قتل کی واردات ہوتی ہے ـ پہلے زیادہ تر ایسے کیسوں میں پولیس خودکشی کا کیس درج کرلیتی تھی لیکن اب رائے عامہ کی بیداری کی وجہ سے ان کیسوں کو قتل کے دفعات کے تحت کیا جانے لگا ہے ـ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اب تک جل مرنے یا خوکشی کے جتنے مقدمے زیرِ سماعت آئے ہیں ان حادثوں میں اسّی فیصد ان ساسوں کا اہم رول رہا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ صرف یہی عورت ان ہنگاموں کی ذمہ دار ہے،  اس کی وجہ سے لڑکیاں اپنے ارمانوں کو سینے میں دبائے زندہ درگور ہوجاتی ہیں۔

ـ یہ امر مسلّم ہے کہ مرد نہیں تو عورت نہیں اور عورت نہیں تو مرد نہیں،  یہ قدرت کا قانون ہے ہر گھر میں کم و بیش عورت ضرور ہوتی ہے ایک لڑکی بیٹی سے بہو اور بہو سے ساس بنتی ہے،  ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اپنے تجربات کی روشنی میں دوسروں کے لئے آسانیاں فراہم کرتی ـ کوئی لڑکی سہاگ کے جوڑے کے بعد کن کن دشوار مرحلوں سے گزرتی ہے ان سے وہ اچھی طرح واقف ہوتی ہے ـ  اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی بہو کی حوصلہ افزائی کرے اور اس کی مجبوری کو اپنے ماضی کے آئینے میں دیکھےلیکن ایسا نہیں ہوتا ہے ـ   خواتین کی قدر کیجئے ،انھیں   حقوق دیجئے، ان سے عزّت و اکرام کے ساتھ  پیش آئیے، اسلامی تعلیمات کی طرف خود بھی اور ان کو بھی راغب کیجئےـ ہم اس چیز سے بخوبی آشنا ہیں کہ یہ سب گفتن آساں کردن دشوار کی مانند ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ کسی کے حقوق سلب کرنے کی کتنی بڑی سزا ہے ـ اللہ ہم سب کو اپنے خواتین کے حقوق کا محافظ و پاسبان بننے کی توفیق عطا فرمائیں ـ آمین

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

ڈاکٹر زاہد احمد ڈار
سرینگر، جموں و کشمیر، انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply