امتیاز نامہ۔۔امتیاز گلیانوی/مبصر-محمود اصغر چوہدری

کوئی بھی وقت ہو یاد اس کی مجھے گھیر لیتی ہے
یہ ایسا تیر ہے جس کو نشانہ یاد رہتا ہے
ہم انسان ہیں جو قید جبر میں خاموش رہتے ہیں
ورنہ پرندوں کو تو قفس میں بھی گانا یاد رہتا ہے۔۔۔
میں شکریہ ادا کرتا ہوں امتیاز گلیانوی صاحب کا جنہوں نے مجھے آج کی اس ادبی محفل میں کرسی صدارت پر بٹھایا ہے۔ اتنا اعزاز ایک طفل مکتب کے لئے واقعی قابل فخر ہے جو اس شخص کی علمی صلاحیتوں پر بات کرنے آیا ہے جس نے اپنے علمی سفر کا آغاز باقاعدہ بطور صحافی روزنامہ پاکستا ن میں سب ایڈیٹر سے کیا۔جس نے ادب کی ہر صنف پر طبع آزمائی کی،وہ فکاہیہ مضامین ہو ں یا افسانہ نگاری، شاعری ہو یا داستان گوئی بلکہ جس نے تین زبانوں میں پنجہ آزمائی کی ہو اردو، انگریزی اور پوٹھواری اس کے علمی خدمات پرمجھ سے بات کروانا ایسا ہی ہے جیسے کسی طالبعلم سے مائی بیسٹ ٹیچر کا مضمون سننا۔لوگ کسی ملک جاتے ہیں تووہاں سے خط لکھتے ہیں یا کوئی تار بھیجتے ہیں امتیاز گلیانوی صاحب جس بھی ملک گئے اپنے قارئین کے لئے ایک کتاب بھیج دی سعودی عرب گئے تووہاں بیٹھ کر ایک کتاب لکھ ڈالی اٹلی گئے تو وہاں سے چاؤ اور ہم وطن کے نام پر رسالہ نکال دیا اور اب برطانیہ آئے تو یہاں انگریزی میں ٹرائی اینگل آف لائف جیسی کتاب چھپوائی اور اب ایک اور سنگ میل طے کرتے ہوئے اپنی آپ بیتی امتیاز نامہ لکھ دیا۔
کچھ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ ان کا نام ہی کر دیتا ہے۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ کچھ بچوں کے نام ان کے استاد یا والدین ان کی خصوصیات دیکھ کر رکھ دیتے ہیں ہمارے مذہب میں بھی اچھے نام سے پکارنے کا کہا گیا ہے شاید اس کی بھی وجہ یہی ہو کہ انسان کا نام اس کی شخصیت پر اثر انداز ہوتاہے۔ امتیاز گلیانوی کی خصوصیت ان کا تعارف ان کی پہچان ان کے نام میں ہی پوشیدہ ہے۔ امتیاز کا معنی ہوتا ہے فوقیت، برتری، افتخار، اعزاز اور خصوصیت۔۔ شکسپئیر نے جوش میں آکر یہ تو لکھ دیا کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن یہ شاید اسے بھی نہیں پتہ تھا کہ جب بھی یہ فقرہ دھرایا جائے گا تو اس فقرے کے ساتھ بھی نام اسی کا لیاجائے گا۔۔
خواتین وحضرات۔۔ امتیاز گلیانوی کی یہ کتاب میرے ہاتھ میں موجود ہے۔ امتیاز نامہ۔۔ جس میں آپ کو ایک ہی کتاب میں تین اصناف کا مزہ ملے گا۔ یہ آپ بیتی بھی ہے اور سفرنامہ بھی۔۔ اس میں تحیر و حیرت کی داستان گوئی بھی ملے گی ہجر ووصال کا دکھ بھی سمجھ آئے گا اور غریب الوطنی کیا بلا ہے وہ بھی سمجھ آئے گی یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ
وہ ایک شام جو پردیس میں اترتی ہے۔۔۔ تمہیں خبر ہی نہیں دل پہ کیا گزرتی ہے
آپ بیتی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بڑے دعوے کے بغیر بے تکلف اور سادہ احوال زندگی پر مشتمل ہو۔ آپ بیتی، جگ بیتی محسوس ہو۔ایک فرد اپنے خاندان، ماحول، علمی اداروں، تحریکوں، شخصیات، تہذیبی، ادبی،معاشرتی اور سیاسی حالات سے دوچار ہوتا ہے، ان سے بہت کچھ لیتا ہے اورہمیں دے دیتا ہے۔ امتیاز نامہ میں آپ کو گلیانوی صاحب کی داستان نگاری، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی اور تہذیب کے دامن میں چھپی تنقید نظر آئے گی
اچھی تحریر، اچھی تقریر یا اچھی فلم کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے ابتدائی جملوں میں ہی آپ کی توجہ کھینچ لے۔ امتیاز نامہ کے پہلے جملے جس میں یہ فرما رہے ہیں کہ یہ ایک عام آدمی کی کہانی ہے نے مجھے جکڑ لیا۔ ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہم ہر اس شخص کو ہیرو سمجھتے ہیں جو جنگیں کریں، جو بستیاں تاراج کریں اورجو زمینیں فتح کرتے رہے یعنی سامراج کا نمائندہ رہے۔ ہمیں آج تک پڑھایا ہی نہیں گیا، ایسا ادب تخلیق ہی نہیں کیا جاتا، کوئی ایسی مووی بنائی ہی نہیں جاتی جس میں ہمارے جیسے انسان بھی ہیرو ہوں، جو زندگی میں تگ ودو کر رہے ہیں۔ زندگی کی تلخیوں سے نبرد آزما ہوں۔
امتیاز نامہ پڑھتے ہوئے آپ کو یہی احسا س گھیرے رکھے گا کہ کیسے آپ بھی ایک عام آدمی سے خاص آدمی کا سفر طے کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کو سکھائے گی زندگی کے سفر میں آپ کو بہت سے مواقع ملیں گے۔ جہاں کامیابی آپ سے چار قدم کے فاصلے پر ہوگی لیکن وہاں پر آپ نے صحیح یا غلط کے بیچ میں فرق کر کے کامیابی کو چھوڑ کر صحیح کا انتخاب کرنا ہے، جیسے البرٹ آئین سٹائین کا کہنا ہے
Try not to become a man of success. Rather become a man of value.
نوبل انعام یافتہ لکھاری رابندر ناتھ ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خو شی ہو گی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند، ہیر کی روائیتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پر مایہ زبان تو ہوتی۔
امتیاز گلیانوی نے وہ غلطی نہیں کی جو اکثر ادیب کر دیتے ہیں یعنی اپنی ماں جائی اپنی بولی کہ بھی اہمیت دی اور سدراں ناسیک نامی کتاب پوٹھوواری میں لکھی۔۔امتیاز نامہ کا سب سے اہم نکتہ اس کتاب کا ٹائٹل ہے۔۔تین ہجرتوں کی داستان۔۔
خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے
بین الاقوامی تنظیم آئی او ایم کے مطابق اس وقت دنیا میں دو سو اکیاسی ملین لوگ تارک وطن ہیں یعنی دنیا کی آبادی کا ساڑھے تین فیصد لوگ ان ممالک میں ہیں جہاں انہوں نے جنم نہیں لیا۔ان کے مسائل، مصائب اور دکھ جاننے کی کوشش ملک کے دیگر شعبوں کے علاوہ انہوں نے بھی نہیں کی جن کے ہاتھوں میں قلم ہے۔ اکثریت نے بھی دولت کی حرص میں ان تارکین وطن شہریوں کے تماشہ ذات کی خواہش کی تسکین کروائی لیکن کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کا دل کونسے غم کھا رہا ہے اور کونسا غم ان کے دل کو کھا رہا ہے
ایسے میں امتیاز گلیانوی جیسے مصنفوں کی ضرورت ہے جو ان کا درد دنیا تک پہنچا سکیں۔ امتیاز گلیانوی کی کتاب کا چوتھا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ اپنے قاری کا رشتہ روحانیت سے جوڑتا ہے اس وقت دنیا بھر میں جو ادب تخلیق کیا جا رہا ہے اس میں بدقسمتی سے گلیمر اور کمرشلزم کا ایسا تڑکالگا یا گیا ہے کہ ہر انسان مادیت اور دولت کی ہوس میں بھاگ رہا ہے تو ضرورت ہے کہ دنیا کو دوبارہ اخلاقیات کی طرف لایا جائے اسے سمجھایا جائے کہ روح کی پاکیزگی صحیح اور غلط میں سے صحیح کو چننے میں ہے۔اس کے علاوہ آپ کو جا بجا ایسے واقعات بھی پڑھنے کو ملیں گے جس میں نظر آتا ہے کہ ان پر اللہ کا فضل ہے۔
ایک بات میں آ پ کو اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں خلیل جبران نے لکھا تھا کہ کچھ لوگ بولتے ہیں تو صاف پانیوں کی طرح بولتے ہیں لیکن تنہائی میں ان کا تخیل گندے جوہڑوں سے باہر نہیں نکلا ہوتا۔ بہت سے لکھاری قاری کو خوش کرنے کے لئے موٹیویشنل اسپیکر بنے ہوتے ہیں لیکن قناعت کا اپنا عالم یہ ہے کہ کسی پیسے کے بغیر بھاشن بھی دینے نہیں آتے۔ امتیاز گلیانوی سے جو میری گفتگو ہوتی ہے اس میں وہ خلوتوں میں بھی وہی گفتگو کرتے ہیں جو جلوتوں میں فرماتے ہیں۔ سر آئزک نیوٹن کا جملہ ہے کہ اگر میں بہت دور تک دیکھ سکا ہوں تواس کا مطلب ہے کہ مجھے بہت ہی قد آور شخصیات کے کندھوں پر کھڑے ہو نے کا موقع ملا ہے۔۔اور مجھے فخر ہے کہ میرے دوستوں کی لسٹ میں امتیاز گلیانوی بہت قدآور ہیں۔ یہ میں حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ ان کے علم و ہنر کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔۔ ان کا تحریری سفر ان کا نام بنے گا بقول شاعر
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
#محموداصغرچودھری

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply