• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا سامراج کا اگلا نشانہ عمران خان‌ ہیں؟۔۔ اورنگ زیب وٹو

کیا سامراج کا اگلا نشانہ عمران خان‌ ہیں؟۔۔ اورنگ زیب وٹو

کیا سامراج کا اگلا نشانہ عمران خان‌ ہیں؟۔۔ اورنگ زیب وٹو/برطانوی اور یورپی نوآبادیاتی نظام نے ایشیا،افریقہ اور امریکہ کو کئی صدیوں تک اپنے چنگل میں پھنساۓ رکھا اور ان خطوں اور اقوام کے وسائل لوٹتے رہے۔براعظم امریکہ میں سفید فام اقوام نے وہاں رہنے والے کروڑوں مقامی افراد کا وحشیانہ قتل عام کیا اور اس خطے کے حقیقی وارثوں کی تعداد جو سفید اقوام کی امریکہ آمد کے وقت دس کروڑ کے لگ بھگ تھی آج چند ہزار باقی رہ گئی ہے۔سفید فام یورپی اقوام نے براعظم افریقہ پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ کروڑوں سیاہ فام افریقیوں کو بطور غلام امریکہ منتقل کیا اور اس بے رحمانہ کارروائی کے دوران لاکھوں سیاہ فام سمندر برد ہوۓ۔جو سیاہ فام غلام امریکہ پہنچے وہ جانوروں کی طرح سفید فام مالکوں کی ملکیت ہوتے اور انہی غلاموں نے امریکہ کو سب سے بڑا زرعی ملک بنانے میں اپنی اگلی کئی نسلیں لگا دیں۔ان سیاہ فام غلاموں کو آزادی انیسویں صدی میں ملی لیکن آج اکیسویں صدی میں بھی سیاہ فام امریکہ میں دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔مغربی استعماری طاقتوں کی انسانی تجارت کے باعث دو صدیوں تک براعظم افریقہ کی آبادی بڑھنے کی بجائے گھٹتی رہی۔اس کے ساتھ ساتھ سفید فام یورپی اقوام نے افریقہ کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور برلن کانفرنس میں اس خطہ ارض کو مختلف یورپی اقوام نے تقسیم کر لیا۔جنوبی ایشیا میں سفید فام یورپی اقوام کی آمد کے وقت ہندوستان دنیا کا سب سے امیر ملک تھا اور عالمی دولت میں ہندوستان کا حصہ پچیس فیصد سے بھی زائد تھا۔ایک عام ہندوستانی کا معیار زندگی ایک عام برطانوی یا ہسپانوی سے کہیں بلند تھا اور مقامی مغل حکومت اپنے وسائل سے تاج محل جیسے شاہکار تعمیر کر رہی تھی۔برطانوی استعمار کے اقتدار کے دوران ہندوستان دنیا کا غریب ترین خطہ بن گیا اور استعماری طاقتوں نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا سمجھ کر لوٹا۔جب انگریز ہندوستان سے جا رہے تھے تو دنیا کی مجموعی دولت میں ہندوستان کا حصہ تین فیصد تک کم ہو چکا تھا اور استعمار کا نمائندہ چرچل گاندھی کو بھوکا ننگا فقیر کہہ کر مذاق اڑاتا تھا۔ہندوستان کا سونار دیش بنگال جو ایک زمانے میں سونا اگلتا تھا استعماری دور میں دو بدترین ادوار قحط میں کروڑوں جانیں گنوا بیٹھا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد استعماری طاقتوں نے ان ممالک کو علامتی آزادی تو دے دی مگر انہیں سیاسی اور معاشی طور پر کبھی بھی آزاد نہیں ہونے دیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سفید فام امریکہ سب سے بڑی سامراجی طاقت کے طور پر سامنے آیا اور اس نے اپنے آباؤاجداد کی روایت پر چلتے ہوئے ایشیائی افریقی ہندوستانی اور عرب اقوام کو اپنے تسلط میں لانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرنے شروع کر دیے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں انقلابی حکومتیں قائم ہوئیں تو امریکہ نے مقبول رہنماؤں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔امریکہ کے نشانے پر اشتراکی,قوم پرست اور اسلامی رہنما تھے جو امریکی سامراج،سرمایہ داری نظام اور مغربی حاکمیت کو للکار رہے تھے۔امریکہ نے ان مقبول رہنماؤں اور ان انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے مختلف ممالک میں فوجی بغاوتوں اور دہشت گردی کو ہتھیار بنایا۔لاطینی امریکہ کے انقلابی رہنماؤں فیدل کاسترو اور چی گویرا سے نمٹنے کے لیے امریکی سامراج نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے خطے میں انارکی اور سیاسی خلفشار پیدا کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔مشرق وسطی میں اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز پودا لگایا جس کے ذریعے امریکہ مقبول عرب تحریکوں اور رہنماؤں کو کچلتا رہا۔امریکہ نے مشرق وسطیٰ کو بالکل اسی طرح میدان جنگ بناۓرکھا جس طرح لاطینی امریکی قوموں کو برباد کرنے کے لیے مختلف ممالک میں آمرانہ حکومتیں مسلط کرتا رہا۔
شاہ فیصل ایک عظیم مسلمان رہنما تھے جب انہوں نے امریکہ کی خواہشات کے برعکس مسلمان ممالک کے اتحاد کی بات کی اور اپنے قریبی دوستوں ذوالفقار علی بھٹو اور معمر قزافی کے ساتھ مل کر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کروائی تو اس جرم کی پاداش میں شاہ فیصل کے خلاف شاہی خاندان کے ایک رکن اور ان کے بھتیجے کو استعمال کیا گیا جس نے ان کو شہید کر دیا۔شاہ فیصل کے ساتھ اسی کی دہائی کے مقبول سوشلسٹ ذوالفقار علی نے پاکستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کیا اور سوویت یونین کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی۔انہون نے امریکی خواہشات کے برعکس نہ صرف سوویت یونین کا دورہ کیا بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سبق سکھانے کے لیے مقامی سیاسی جماعتوں کا اتحاد کروایا اور ایک عوامی تحریک شروع ہو گئی۔اس تحریک کے عروج پر امریکہ کے ایماء پر پاکستان فوج کے جرنیلوں نے نہ صرف بھٹو حکومت برطرف کر دی بلکہ انہیں پھانسی پر بھی چڑھا دیا۔بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاالحق کی قیادت میں پاکستان نے امریکہ کے اتحادی کے طور پر سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور اپنے سب سے بڑے حریف اشتراکی روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ایران میں 1950 کی دہائی میں انقلابی رہنما مصدق نے تیل کو قومیانے کا اعلان کیا تو استعماری طاقتوں نے اس کا حشر بھی بالکل ویسا کیا جو چلی کے انقلابی رہنما سلواڈور ایلاند کا ہوا۔امریکہ نے ایران میں اپنے پٹھو شاہ ایران اور چلی میں سامراجی ایجنٹ مارشل ٹیٹو کے ذریعے سامراجی مفادات کا تحفظ کیا اور تیسری دنیا کے ان ممالک کو نوآبادیات کی طرز پر چلاتا رہا۔
عرب بہار کے بعد مصر میں اخوان حکومت قائم ہوئی اور محمد مرصی صدر بنے۔محمد مرصی نے مصر کو امریکی استعمار سے چھڑوانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے تو امریکہ نے اپنے قریبی اتحادی سعودی عرب کی مدد سے سیاسی بحران پیدا کر دیا اور فوجی سربراہ جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔جنرل السیسی نے اقتدار میں آنے کے بعد اخوان المسلمون پر ظلم و جبر کا ایک وحشیانہ دور شروع ہوا جس کے نتیجے میں ہزاروں حریت پسندوں کو قتل اور پابند سلاسل کر دیا گیا۔محمد مرسی دوران حراست انتقال کر گئے اور امریکی ایجنٹ السیسی بخیر و خوبی سب سے طاقتور عرب ملک کا حکمران بن کر بیٹھا ہے۔مرسی کی حکومت کے خاتمے کے لیے عالمی میڈیا,بدعنوان ملکی سیاسی جماعتوں اور فوجی افسران کو استعمال کیا گیا۔لیبیا میں معمر قزافی عراق میں صدام حسین،سعودی عرب میں شاہ فیصل،چلی میں سلواڈور ایلاند اور ایران میں مصدق کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔قزافی کو قتل کرنے کے لیے نیٹو نے لیبیا پر حملہ کیا جب کہ صدام حسین پر کیمیائی ہتھیار رکھنے کے جھوٹے الزام کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس امریکی اور یورپی افواج نے عراق کو تباہ و برباد کر دیا اور صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔۔یہ سارے واقعات تیسری دنیا کے ان ممالک میں پیش آۓ جو کبھی یورپی نوآبادیات کا حصہ تھے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ان علاقوں کو علامتی طور پر آزاد کر دیا گیا لیکن مغربی طاقتوں نے کبھی بھی ان اقوام کو سیاسی اور معاشی طور پر آزاد ہونے دیا۔لاطینی امریکہ سے مشرق بعید تک اور جنوبی ایشیا سے افریقہ تک مغربی استعمار نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اپنے مفادات کے غلام بناۓ رکھا۔ویت نام میں ہونے والی ہولناک جنگ ہو یا مشرق وسطیٰ میں بھڑکتی آگ امریکی اور یورپی استعمار نے تیسری دنیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔آج جب 2022 میں مغربی استعمار کو چین کی صورت میں ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور افغانستان میں بدترین شکست کے بعد امریکی اور یورپی طاقت کا بت ٹوٹ رہا ہے، مغربی استعمار تیسری دنیا کے ممالک کو اپنے زیر اثر رکھنے کی بھرپور تگ و دو میں مصروف ہے۔امریکی استعمار کا اگلا ہدف وہ تمام ممالک اور ان کے رہنما ہیں جو آزادانہ سیاسی و معاشی پالیسیاں اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان ممالک کو عالمی سامراجی اداروں اقوام اور متحدہ آئی ایم ایف، ایف آئی ٹی ایف، ورلڈ بینک اور یورپی یونین کے ذریعے سیاسی اور معاشی طور پر مفلوج
کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان جیسی اہم سیاسی فوجی اور جغرافیائی طاقت جو اپنی ستر سالہ تاریخ میں کسی نہ کسی صورت مغربی استعمار کے مفادات کے حصول کے لیے کام کرتا آیا ہے,اس وقت عمران خان کی قیادت میں ایک آزادانہ سیاسی اور معاشی پالیسی کی بنیاد رکھ رہا ہے۔امریکہ جو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں فوجی اور سیاسی حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کر کے پاکستان کو کراۓ کے اتحادی کو طور پر استعمال کرتا آیا ہے،عمران خان کے آزادانہ سیاسی فیصلوں پر سخت پریشان ہے۔افغانستان میں بدترین شکست کا الزام پاکستان پر ڈالنے کے بعد پاکستانی فوجی اڈے نہ ملنے پر امریکی استعمار غضب ناک ہو چکا ہے۔ حال ہی میں روس اور یوکرین کے تنازعہ میں عمران خان کا دورہ روس کا فیصلہ اور استعماری یورپی طاقتوں کے سامنے نہ جھکنے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ امریکہ کی اس ناراضگی اور پاکستان میں پیدا ہونے والا سیاسی خلفشار اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا شکار مصدق سے لے کر مرسی تک, قزافی سے لےکر صدام اور سلواڈور ایلاند تک تیسری دنیا کے رہنما اور ممالک ہوتے آۓ ہیں۔دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی نام نہاد جنگ پر سخت تنقید کرنے والے عمران خان امریکی پالیسی سازوں کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔عمران خان کے خلاف بھی ایسا ہی منصوبہ سامنے آنے کا خدشہ ہے جس کا شکار محمد مرسی اور ذوالفقار علی بھٹو ہوۓ لیکن ترکی کے طیب اردگان سامراجی طاقتوں کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ سامراج سے ٹکرانے کی ہمت عمران خان نے کی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ استعماری قوتوں اور ان کے گماشتوں کے سامنے مرسی بنتے ہیں یا پھر ان کی تقدیر میں طیب اردگان بننا لکھا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply