• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ریٹنگ زدہ اینکری ‘ تہذیب کا جنازہ اور معصوم بچوں کا استحصال۔۔عامر عثمان عادل

ریٹنگ زدہ اینکری ‘ تہذیب کا جنازہ اور معصوم بچوں کا استحصال۔۔عامر عثمان عادل

بابا کیا کرتے ہیں؟ ماما کے پاؤں باتے ہیں 
چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک معصوم سی بچی کی گفتگو سنی، کسی ویب چینل کی خاتون اینکر جس سے ہم کلام تھیں۔
سوال تھا آپ کے بابا کیا کرتے ہیں
ننھی پری نے توتلی زبان میں بتایا
ماما کے پاؤں باتے ہیں ( دباتے )
بس پھر خاتون اینکر کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو گیا۔

اسی طرح ایک سوال کے جواب میں بچی پھوپھو کی برائیاں کرنے لگی ،پھر سیاسی سوال شروع ہو گئے عمران خان نواز شریف مہنگا تیل
یہ ویڈیو وائرل ہوئی تو ملک کے صف ِاوّل کے اینکر یاسر شامی بھی اس بچی کا انٹرویو کرنے جا پہنچے۔

آج پھر دیکھا کہ وہی خاتون اینکر ایک بار پھر اس بچی کا انٹرویو کرنے آن پہنچی تھیں اور اس بار اس کا چھوٹا بھائی  بھی ساتھ میں موجود تھا۔

محترمہ اینکر صاحبہ نے کمال احساسِ تفاخر سے انٹرو دیتے ہوئے کہا کہ چند روز قبل اس بچی سے لیا گیا انٹرویو اس قدر وائرل ہوا کہ ہر سُو دھوم مچی ہے سوچا آج پھر اس سے گفتگو کی جائے
ایک بار پھر وہی سوال
بابا کیا کرتے ہیں
ماما کے پاؤں دباتے ہیں
کتنی بار دباتے ہیں
3 بار
کیسے دباتے ہیں
بچی باقاعدہ نقل اتارتی ہے

گھر کے کام کون کرتا ہے
ڈیڈا یعنی بابا
ماما بابا کو کیسے مارتی ہیں
بچی ننھے ہاتھوں سے مار کے دکھاتی ہے

ویڈیو کے آخر میں اس کے چھوٹے بھائی  سے یہی سوال دہرائے جاتے ہیں
اور پھر ہنسی سے دوہری تہری ہوئے جاتی اینکر صاحبہ فرماتی ہیں کہ کیا پٹاخہ بچے ہیں۔میں ایسے پٹاخہ بچے پیدا کرنے والے والدین کو سلام پیش کرتی ہوں

قصور کس کا ؟
ریٹنگ کے چکر میں ہر اخلاقی حد کو پار کرنے والے اس انداز اینکری کا/
یا پھر راتوں رات وائرل ہونے کی شہرت کے نشے میں چور والدین جو خوش ہیں کہ ان کی بیٹی اس وقت ٹاپ ٹرینڈ ہے؟
اینکر صاحبہ کا قصور کم لگتا ہے کیونکہ والدین نہ چاہتے تو کیسے کسی بچی کو یوں کیمروں کی زد میں لیا جا سکتا تھا۔

چند سادہ سے سوال ہیں
کونسے گھر میں ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کو اجازت ہو کہ وہ گھر کی باتیں مزے لے لے کر باہر بتاتے پھریں؟
معصوم بچوں کو قریبی رشتوں کا ذکر نفرت بھرے انداز میں کرنا کہاں سکھایا جاتا ہے؟
جو بچے ابھی ٹھیک سے بول بھی نہ پاتے ہوں ان کو سیاست اور مہنگائی  جیسے مشکل سبق کون یاد کراتا ہے؟
صاف ظاہر ہے کہ یہ سارا کھیل اسکرپٹ شدہ ہے بچی کو کچھ جملے رٹوا دئیے گئے ہیں
جیسے اینکر صاحبہ کہتی ہیں اب تو آپ سٹار بن چکی ہیں
بچی ترنت سے جواب دیتی ہے
نہیں میں تو سپر اسٹار ہوں

اس میں کوئی  شک نہیں کہ معصوم سی گڑیا ذہین لگتی ہے جس کا اعتماد بلا کا اور یادداشت دیدنی ہے اور جب وہ توتلی زبان میں بولتی ہے تو لبوں سے پھول جھڑتے ہیں اور دیکھنے والوں کو بے اختیار پیار بھی آتا ہے۔۔لیکن ایک لمحے کو سوچیں،کیا یہ اس بچی کا استحصال نہیں؟
ہم اس کی معصومیت بے ساختگی اور کم سنی چھین نہیں رہے اس سے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس عمر کے بچے تو کھلونوں کی باتیں کرتے اچھے لگتے ہیں اپنے ہم جولیوں کے قصے کہانیوں اور کارٹونز کے کرداروں کی باتیں نانا نانو دادا دادو کے لاڈ پیار کی باتیں انکل آنٹی کے تذکرے۔
ریٹنگ کے چکر میں ہم ان بچوں سے کیا تماشہ کروانے لگے ہیں اور راتوں رات وائرل ہونے کے نشے نے ہم بڑوں کو تہذیب کے سبھی آداب بھلا دئیے۔ہم کس رحجان کو فروغ دینے لگے کہ جو بچہ زیادہ منہ پھٹ بدتمیز اور ماں باپ کا مذاق اڑانے والا ہو گا وہ اس قدر ہی مقبول ہو جائے گا۔ہم بڑوں نے اپنی دنیا کو ان نفرتوں تفرقوں تمسخر کی آگ میں جھونک کر دوزخ تو بنا رکھا ہے،مگر ان معصوموں کی جنت کیوں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
کون ہے جو ان فرشتوں سے معصومیت چھین رہا ہے
کون ہے جو ان کی میٹھی بولی میں زہر بھرنے لگا ہے
ان کی دنیا تو شبنمی قطروں کی مانند پاک ہوتی ہے ندی کے پانی کی طرح شفاف رواں دواں
ان کی دنیا میں کوئی  کھوٹ ،کوئی  بغض ،کوئی  کینہ نہیں ہوتا یہ تو دست قدرت کا شہکار ہوتے ہیں انکی بے ساختہ کھری معصوم باتوں سے تو رب کی ذات کا پرتو نظر آتا ہے۔
خدارا بچوں کو بچے ہی رہنے دیجئے
انہیں اپنی طرح مکار اور خرانٹ نہ بنائیں۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply