اخلاقی نفسیات (22) ۔ ذہانت/وہاراامباکر

کیا آپ نے کسی حکومتی ترجمان کی پریس کانفرنس دیکھی ہے جس میں وہ صحافیوں کے سوالات کا جواب دے رہا ہو؟ صحافی مشکل سوال اٹھاتے ہیں، حکومت کے اپنے پچھلے اقوال دکھاتے ہیں۔ پالیسی خواہ جتنی بھی کمزور ہو، اعتراض خواہ کتنا بھی جاندار ہو، ایسا تو ہو سکتا ہے کہ ترجمان جواب دینے میں کچھ وقت لگائے لیکن ایک فقرہ کبھی بھی نہیں سنا گیا ہو گا، “آپ نے بہت زبردست نکتہ اٹھایا ہے۔ ہمیں پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ترجمان ایسا اس لئے نہیں کہہ سکتا کیونکہ پالیسی بنانے یا اس میں ترمیم کا کوئی اختیار اس کے پاس ہے ہی نہیں۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ پالیسی کیا ہے اور اب اس کا کام ہے کہ وہ ایسے شواہد اور دلائل اکٹھے کرے جس سے عوام کے آگے اس کا دفاع کیا جا سکے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ذہنی ہاتھی کے فیصلوں کا دفاع کرنے کے لئے عقل کُل وقتی حکومتی ترجمان ہے۔
اس کے لئے ہم ذہن کے دلچسپ گوشے میں چلتے ہیں اور یہ سوال رکھتے ہیں کہ کیا یہاں پر ذہانت مدد کر سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیٹرن واسن نے 1960 میں ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی۔ یہ 2-4-6 مسئلہ کہلاتا ہے۔ انہوں نے لوگوں کو یہ تین اعداد دکھائے اور کہا کہ یہ تین اعداد ایک اصول کے مطابق ہے جس کو انہوں نے بوجھنا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ شرکاء تین اعداد بتائیں۔ سوال پوچھنا والا “ہاں” یا “نہیں” میں جواب دے گا کہ آیا بتائے گئے اعداد بھی اسی اصول کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں۔ جب اعتماد ہو جائے کہ انہیں اصول کا علم ہو گیا ہے تو بتا دیں کہ انہوں نے اصول بوجھ لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے یہ تین اعداد دیکھے اور جواب میں پوچھا کہ 4-6-8۔ تجربہ کرنے والے نے کہا کہ “ہاں”۔
اور 120-122-124
تجربہ کرنے والے نے کہاں کہ ہاں۔
زیادہ تر لوگوں کو یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ یہ اصول مسلسل جفت اعداد کا ہے۔ لیکن تجربہ کرنے والے نے کہا کہ جواب غلط ہے۔ اصول یہ نہیں۔
کسی نے کچھ دوسرے اصول چیک کرنا شروع کیا۔
کیا 4-6-8۔ تجربہ کرنے والے نے کہا کہ “ہاں”
اور 35-37-39
ہاں۔
اچھا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نمبروں کی ایسی سیریز ہے جس میں ہر عدد میں دو کا اضافہ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ اصول کے بارے میں نئے مفروضے بنانے میں مشکل محسوس نہیں کرتے تھے۔ کئی بار خاصے پیچیدہ اصول بھی بنا لیتے تھے لیکن جب اسے ٹیسٹ کرنے کی باری آتی تھی تو پھر صرف یہی ٹیسٹ کرتے تھے کہ آیا دئے گئے نمبر ان کے اصول کے مطابق ہیں یا نہیں۔
مثال کے طور پر 2-4-5 (ہاں) اور 2-4-3 (نہیں) کا جواب اصل اصول جاننے میں مدد کر دیتا کہ اصول صرف یہ ہے کہ اعداد بڑھ رہے ہیں۔
واسن نے اس چیز کو confirmation bias کہا۔ ہم عام طور پر شواہدات کو اس نظر سے دیکھتے ہیں جو ہماری سوچ کی تصدیق کریں۔ لوگ اس کام میں بہت اچھے ہوتے ہیں کہ دوسروں کی سٹیٹمنٹ کو چیلنج کریں لیکن اگر یہ آپ کا اپنا یقین ہے تو پھر آپ کی اپنی چیز ہے۔ آپ اسے بچانا چاہتے ہیں۔ نہ کہ اس کو چیلنج کر کے اسے کھو دینا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوہن نے اس پر تجربات میں دکھایا کہ ہم زندگی کی بقا کے لئے اہم فیصلے بھی ایسے ہی کرتے ہیں۔ “یہ کچھ شواہد ہیں جو میری تھیوری کے حق میں ہیں، اس لئے میری تھیوری ٹھیک ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اچھی تعلیم ایسی غلط سوچ کو ٹھیک کر دے گی۔ ہے نا؟ بدقسمتی سے ایسا نہیں۔ اس پر ڈیوڈ پرکنز نے تجربات کئے۔
سماجی ایشوز کے بارے میں پہلے انہوں نے شرکاء کی رائے لی اور پھر کہا کہ سوچ و بچار کے بعد اس معاملے پر مختلف وجوہات لکھیں جو آخری جواب تک پہنچنے میں مدد کرتی ہوں، خواہ وہ حق میں ہوں یا خلاف۔
ظاہر ہے کہ لوگوں نے زیادہ تر اپنے موقف کے حق میں دلائل لکھے۔ جبکہ زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے حق میں زیادہ دلائل لکھے۔ زیادہ تعلیم یافتہ ہونا ایشو کی دونوں اطراف کو دیکھنے میں مدد نہیں کرتا تھا۔ ذہانت کی مدد سے آپ اپنے حق میں زیادہ وجوہات اکٹھی کر سکتے ہیں۔
پرکنز نے دریافت کیا کہ کسی کا آئی کیو اس بات کی پیشگوئی کرتا ہے کہ وہ کتنی وجوہات تلاش کرے گا۔ لیکن یہ پیشگوئی صرف اپنے حق کی وجوہات کی تھی۔ ذہین لوگ اچھے وکیل اور ترجمان ضرور بن جاتے ہیں لیکن دوسری طرف کی رائے دیکھنے میں ذہانت کوئی مدد نہیں کرتی۔
خود کو چیلنج کرنے کی اہلیت کم پائی جاتی ہے اور یہ اہلیت ذہانت سے الگ ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply