لیجیے حضور لاشیں حاضر ہیں ۔ مبارک ہو/مقدس کاظمی

پاکستان میں اس وقت تک کوئی سیاسی ، مذہبی  یا دونوں  یعنی سیاسی مذہبی  پارٹی مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اپنی گٹھڑی میں چند شہدا کی لاشیں نہ رکھتی ہو۔ کیونکہ آپ کےلیےاپنے فالوورز کو اور کچھ دکھانے کے لیےہو نہ ہومگر آپ کے کندھوں پر آ پ کی فکر پر مرنے والوں کی لاشیں لازمی ہونی چاہیں ۔اور ان لاشوں کو پھر موقع بہ موقع ہر مذہبی  و غیر مذہبی  پارٹی ایسے ہی دکھاتی ہے  جیسے پنجاب کے دیہات میں شادی کے موقع پر دولہا کی طرف سےدلہن کی ’’وری‘‘ دکھائی جاتی ہے۔یا گلی کوچوں میں قالین بیچنے والے کاندھے پر قالین دکھا رہے ہوتے ہیں ۔ یہ مظلوم لاشیں جب تک کسی پارٹی کے پاس لاشیں نہ ہوں ، اس پارٹی کی آواز میں طاقت نہیں  آتی،  کارکنوں  میں جوش و ولولہ پیدا نہیں ہوتا۔لہذا جس پارٹی کے پاس جتنے شہداء ہوں اتنے ہی کم ہیں لہذا مزید لاشیں حاصل کرنے کے لیے پہلے سے موجود لاشوں کو بطور ’’چارہ‘‘ استعمال کرکے مزید افراد کو اس راہ پر چل کر شہید ہونے پر اکسایا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ شہداء، نہ صرف کسی پارٹی کےلئے رگ حیات ہوتے ہیں بلکہ ان کے رو ل ماڈل بھی بن جاتے ہیں ۔

سیاسی پارٹیوں کے شہدا ء عموماً لیڈر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ان کی زندگی میں شاید  اتنی وقعت نہیں ملتی مگر مرنے کے بعد وہ عظیم درجہ پاجاتے ہیں اور اپنے پس مندگان کو بے تحاشا فائدہ پہنچا جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مذہبی تنظیموں یا گروہوں کے شہداء دنیا و آخرت میں ان کے اپنے بقول عظیم درجہ پا جاتے ہیں ۔ ان کی قبروں  میں سے ان کے دفن ہونے سے پہلے ہی خوشبو نکلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور اگر سال دو سال بعد سیلاب یا بارش کی وجہ سے ان کی قبر ایک دفعہ پھر ننگی ہوجائے، یا دھنس جائے تو ان کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوتا۔اور تو اور بعض مذہبی  جماعتوں کے شہید ہوتےہی ان کے گھر اسی وقت، اسی طرز کا ایک بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ خواہ اس شہید کے اپنی دنیاوی بیوی سے طلاق ہوئے کوئی چار پانچ سال ہوچکے ہوں۔ مگر’’ کرن ارجن‘‘ کا سین یا نئے جنم میں  شہید دوبارہ بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔

انہی لاشوں کے کاروبار میں ، وہ مذہبی  جماعتیں ،جو ابھی تک شہداء سے محروم ہوتی ہیں ان کے لیے بعض اوقات ، مخالف فرقے کے لوگ خود کش دھماکے کرکے شہداء سے محروم جماعت کو تھوک کے حساب سے شہداء عطاء کر جاتے ہیں جن سے شہیدوں سے محروم مذہبی  جماعت کی بھی راتوں  رات چاندی ہوجاتی ہے اور پھر ا ن کی روزی روٹی شہدا کی برکت سے مزیدبہتر طریقے سے چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اب خود کش حملہ آور بھی جس جماعت کی طرف سے آیا ہوتا ہے اس کا جشن بھی اسے بھیجنے والی جماعت الگ مناتی ہے اور پھر فخر سے اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کرکے مزید خود کش بمبار اپنی تنظیم کےلیے کھینچتی ہے۔

شہید خود کش بمبار کی اگلے جہان کی تصویر کشی اس طریقے سے کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان لوگ راغب ہوں اور اس کے لیے پندرہ سے پچیس سال کے نوجوان آئیڈیل ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب انسان کی جبلّی خواہشات عروج پر ہوتی ہیں اور وہ جنس مخالف تو کیا جنس موافق میں بھی بے حد کشش محسوس کررہا ہوتا ہے۔ اس کی ان جبلّی خواہشات کو جب72 حوروں کے پہلو میں جوڑ کر  دکھایا جاتا ہے اور پھر ایسے جہان کا وعدہ اس کا ٹرینر کررہا ہوتا ہے جس کی وہ اپنی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ مگر وہ اپنے متوقع بلکہ یقینی شہید کو اس جہاں میں ضرور لے جاتا ہے جہاں نہ تعلیم کی فکر نہ روزگار کی ، اور تو اور سینکڑوں رشتے داروں کی بخشش کا اختیار بھی دے دیا جاتا ہے ۔ اس پر بھی یقین نہ آئے تو اسے دنیا فانی کی کسی مجاہدہ کو بھی رات کے اندھیرے میں کچھ پرائیویٹ پارٹس کو ٹَچ کروا کر اس کی جبلی خواہشات کو برانگیختہ کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ اس گندی دنیا میں تم کہاں بھٹکتے پھر رہے ہو جب کہ درجنوں، بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں تمہارا بے صبر ی سے انتظار کررہی ہیں ۔ بس تم نے فلاں کافر ، مرتد، مشرک کو نشانہ بنانا ہے۔ اور اتنے بڑے روشن ، غیر فانی مستقبل کےلئے اپنی لاش کے پرخچے اڑوا کر ، دشمن کافر کا مار کرحاصل کرنا کوئی بڑا سودا نہیں ہے ۔

ان شہدا ء کی ترسیل کے سلسلے میں جہاں ایک فرقہ دوسرے فرقے کو کافر ، بدعتی یا مشرک قرار دے کراپنے ایک آدھ شہید دے کر دوسروں کو درجنوں  شہداء مہیاء کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وہیں بعض بدقسمت جماعتیں، پھر بھی ان شہداء کی نعمت سے کافی کوششوں کے باوجود محروم رہتی ہیں۔ اگر چہ ان کے راہبر  کو خواب میں کئی دفعہ ان کے بقول حضوراکرمﷺ کی زیارت بھی ہوچکی ہوتی ہے۔ اب خواب کی سچائی کو جانچنے کا ابھی تک کوئی آلہ تیار نہیں ہوسکا جو یہ بتا سکے کہ خواب کے حاملِ ھذا کا خواب سچا ہے بھی کہ نہیں۔ مگر جس نے یقین کرنا ہوتا ہے اسے کسی اور سے سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ اپنے راہبر کی بات  پر مِن و عن یقین کرلیتا ہے ۔

تو جناب ! اتنی بڑی شخصیت کو جسے خواب میں بشارتیں ہوتی ہوں  ، مگر افسون ان کا دامن بھی عرصہ دراز تک ،کئی احتجاجی مظاہروں، دھرنوں نے کے باوجود خالی رہا۔ جس سے ان کی بے قراری بلکہ بلڈ پریشر تھا کہ ’’ہائی‘‘ ہی رہتا تھا کہ ایک دن ان کی بھی سنی گئی اور حکومت پنجاب نے اپنی بے وقوفی کی بدولت اچانک ان کو بنا مانگے ، پندرہ سولہ شہدا ء، ان کی جھولی میں ڈال دیے۔ تو پتہ چلا کہ بعض اوقات شہداء کو حاصل کرنے کی سخت کوششیں بھی کام نہیں کرپاتیں تو کسی بے وقوف کی جاہلانہ حکمت عملی آپ کا دامن ،بغیر کسی محنت کے شہداء سے بھر سکتی ہے۔اسے اس تنظیم کی بھی good luckہی کہا جائے گا۔ کہ اب وہ بھی شہداء کا تغمہ سینوں پر سجائے نئے جوش و ولولے کے ساتھ رزم حق وباطل کے میدان میں اترتے ہیں۔

چونکہ پاکستان مذہب کے نام پر بنا اورہم سب اسے بے شمار شہدا ء کی قربانیوں کا صلہ ہی سمجھتےہیں ۔ توشاید ان قربانیوں کا ثمر دیکھ کر اب ہر جماعت، تنظیم، پارٹی یا تحریک اپنی صفوں میں شہداء کی بھرتی لازمی سمجھتی ہے کہ اس کے بغیر اس کی جماعت کی بڑھوتری نہیں ہوسکتی ۔ لہذا ہر پارٹی کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو جتنے شہداء مل جائیں ان کےلئے  اتنا ہی اچھا ہے کہ جتنا شہدا ء کا گُڑ ڈالیں گے ان کی تنظیم کی ترقی کی مٹھاس اتنی ہی بڑھے گی۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں  لسانی، مذہبی ، سیاسی جماعتوں سے لے کر قوم پرست یا صوبہ پرست جماعتوں تک ، ہر کسی کے پاس شہدا ء کا اچھا خاصہ کوٹہ ہے اور ان کے شہدا ء سے قبرستانوں کے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔

لہذا ہم کسی کو مار کر شہید ہوں یا شہید کریں فائدہ دونوں پارٹیوں کا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یا تو ہمیں کسی کو مارنے کے لیے ہر وقت کسی دشمن کی تلا ش ہوتی ہے یا پھر ایسے حالات پیداکر دیے جائیں کہ کوئی آکر ہمارے کارکن شہید کردے۔ مارنے والا اس خواہش پر کہ کاش اس کو ، کوئی ، اس کے راہبر کی طرف سے اعلان کردہ دشمن مل جائے تو اسے مار کر جنت میں جگہ پکّی کرلے اور اگر پھر کسی دوسرے کے ہاتھوں مر بھی جائے تو پھر بھی سودا برا نہیں ، اور نہ مرے تو پھر بھی غازی کا اعزازملنا بھی تو کم نہیں ۔ اس سلسلے میں بعض علاقے جیسے کوئٹہ میں تو بعض قوموں کے خدوخال ہی ان کو شہید کرنے کےلئے کافی ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہاں ان کو چلاس کی طرح بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ کے ذریعے تصدیق کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔

بعض پُرمغز قسم کے مفکرین کا یہ کہنا ہے کہ بے شک طالبان کا دشمن امریکہ ہے مگر طالبان کے پاس اتنے وسائل تو نہیں کہ ٹکٹ کٹا کر امریکہ جائیں اور پھر امریکیوں کو ماریں تو پھر آخر وہ کیا کریں؟ اس کا حل تو پھر یہی ہے کہ جو بھی طالبان کی کھل کر حمایت نہیں کرتا وہ دراصل امریکہ کا ہی طرفدار بلکہ امریکی ایجنٹ اور طالبان کا دشمن ہے۔ تو پھر بڑے کیا، بچے کیا، بوڑھے کیا ، فوجی کیا ، غیر فوجی کیاسب ہی ان کے دشمن قرار پائے اور اب تک طالبان ستر ہزار شہید پاکستان کو دے چکے ہیں اور ابھی تک ان کی خونی پیاس ہے کہ بجھنے کا نا م ہی نہیں لے رہی۔شہدا ء کے سلسلے میں کچھ فرقے تو کافی حد تک خود کفیل ہوچکےہیں مگر پھر بھی اگرکچھ بظاہر معتدل صوفی قسم کے لوگ اس نعمت سے محروم تھے۔تو ان کو ایک شہید اگرچہ عدالت نے دے دیا مگر بات پھر بھی نہیں بن رہی تھی۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ کس ایشوء کو اٹھایا جائے؟ کہ ان کے ماننے والوں کا خون گرمایا جائے۔ تو پھر آخر ایک ایشوء ہاتھ آہی گیا۔ اور چونکہ سوائے پاکستان کے ’’اسلام‘‘ کو کہیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔

لہذا ہر مذہبی  جماعت اپنے فرقے مذہب کے لحاظ سے اس کی چوکیداری کرتی نظر آتی ہے۔ اب جبکہ ہم نے یہ ملک مذہب کے نام پر ہی لیا ہے تو پھر ایسے مذہبی مظاہرے یا دھرنے تو حکومت کو برداشت کرنا ہی ہوں گے۔ او رمذہب کے نام پر بلیک میل کرنا کون سا مشکل کام ہے کیونکہ مرتد کو مارنے کے لیے اس سے تصدیق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ مذہب کے ٹھیکیدار پہلےہی اس کے مرتد ہونے کی تصدیق کرچکے ہوتے ہیں۔لیکن حیرت ہے کہ حکومتی ادارے بظاہر اچھی خاصی مشینری کے باوجود ابھی تک نہیں سمجھ سکے کہ کوئی بھی مذہبی فرقہ حقیر نہ سمجھے۔  کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ جس بھی فرقے کو ہم بےضرر کینچوا تصور کیے بیٹھے ہوتے ہیں اور دعویٰ کرتے پھرتے ہیں کہ وہ تین گھنٹوں کی مار نہیں وہ زخمی ہوکر کتنے زہریلے ہوجاتے ہیں ، اور پھر سارے ملک کی بند ہوکر رہ جاتا ہے ۔

اور پھر جب آپ خود ان کو شہداء کی لاشیں تھالی میں رکھ کر تحفتاً پیش کریں گے تو پھر ظاہر ہے کہ ان کی تحریک بھی خون  آلود تو ہوجائے گی ناں!۔ لہذا کسی بھی جماعت کو ،خاص کر مذہبی جماعت کو ہلکا نہ لیں اور اگر حکومتی اداروں کی بےوقوفی سے ان کو آپ نے کچھ لاشیں  مہیا کردیں تو پھر اپنی فکر کیجیے کہ آپ نے اپنے کتنے مزید دشمن اور قاتل پیدا کر لیے ہیں۔ یہ مذہبی لوگ اپنا ووٹ بینک نہ سہی مگر اسٹریٹ پاور ضرور رکھتے ہیں ۔ جو کسی بھی مسلمان کو مرتد قراردے کر آپ کے ماتھے پر سرخ نشان لگاکر لوگوں کو آپکو مارکر جنت کا سیدھا رستہ دکھا سکتی ہیں جیسے بقول جلیل لاشاری کے
کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

تو ثابت ہوا کہ لاشوں کے کاروبار میں جہاں فرقہ واریت، صوبائی تعصب، قومی پرستی ، لسانی تعصب کارفرما ہوتا ہے وہیں ہماری مبہم پالسیاں اور مخالف سیاسی پارٹیوں کی پوائنٹ اسکورنگ بھی شہیدوں کے کاروبار کو چار چاند لگا کر دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہیں  ۔مگر اس کے جواب میں  شہید کو کیا ملتا ہے ؟ وہی قران کی آیت کا ہدیہ جو ہر فرقہ اپنے شہید کےلیے استعمال کرتا ہے’’جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے  گئے ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق پاتے ہیں۔‘‘ اور ان کے ورثاء کیا پاتے ہیں ؟ وہ کیسے دکھ جھیلتےہیں ؟ان کا پرسان حال کون ہوتا ہے؟ کسی کو جاننے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری جماعتوں کو ان سے کچھ لینا دینا نہیں۔ بس ہمیں لاش مل گئی ہے یہی بہت خوشی کی بات ہے کہ اب ہماری تنظیم کو ترقی کرنے سےکوئی نہیں روک سکتا۔اللہ اللہ تے خیر سلا۔یہی پر ہم جیسے بزدل لوگ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کب وہ دن آئے گا جب ہم لاشوں کے اس بازار میں  اپنی پسند کی لاشوں کو تلاش کرنے کی بجائے شعور ، آگہی اور حکمت تلاش کریں گے؟

Facebook Comments

Moqaddus Kazmi
Educationist, Reseach worker, Geo politcal Analyst

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply