آج اور کل۔۔محمد اسد شاہ

پاکستان میں آج سے بیس پچیس سال پہلے تک گوشت کی دکانوں پر صرف چھوٹا گوشت یا بڑا گوشت بِکتا تھا ۔ بڑے گوشت سے مراد گائے یا بھینس کا گوشت، جب کہ چھوٹے گوشت سے مراد بکرے یا مینڈھے کا گوشت تھا ۔ دکانوں پر ان کے علاوہ کسی جان ور یا پرندے کا گوشت بکنے کا تصور ہی نہ تھا ۔ مرغیاں گھروں میں پالی جاتی تھیں ۔ تقریباً ہر دوسرے گھر میں مرغیاں ضرور ہوا کرتی تھیں ۔ صحن کے ایک کنارے پر ان کا دڑبہ ہوتا تھا ۔ انھیں بہت پیار سے صبح دڑبے سے نکالا جاتا اور شام کو دوبارہ دڑبے میں بند کیا جاتا ۔ دیہات میں بعض لوگ صحن میں کہیں دو دیواروں کے درمیان ایک لمبا بانس یا ڈنڈا نصب کر دیتے تھے ۔ مرغیاں شام ہوتے ہی اس بانس پر چڑھ کر بیٹھ جاتیں اور صبح ہونے پر نیچے اتر جایا کرتیں ۔ دن بھر مرغیاں گھر کے صحن میں ، اور گلیوں میں اٹھلایا کرتیں ۔ صبح ، دوپہر اور شام باقاعدگی سے انھیں گھر پر ہی تیار کردہ صاف ستھری خوراک دی جاتی تھی ۔ روٹیوں کے بچے ہوئے ٹکڑوں کو ہاتھوں کی پوروں کے ساتھ باریک ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا اور مرغیوں کو کھلایا جاتا ۔ بعض لوگ روٹیوں کے ٹکڑوں کو کسی برتن میں بھگو کر رکھتے اور پھر آٹھ دس گھنٹوں کے بعد وہ نرم خوراک مرغیوں کو کھلاتے تھے ۔ بچا ہؤا پلاؤ یا زردہ وغیرہ یا سبزیوں اور پھلوں کے بیج بھی انھیں کھلائے جاتے ۔ مرغیاں سال بھر انڈے دیتیں ۔ کڑک مرغیوں کو انڈوں پر “بٹھایا” جاتا تھا ۔ گھروں میں بچے بوڑھے ، سب چوزے نکلنے کا انتظار کرتے تھے ۔ اکیسویں دن چوزے نکلتے تو انھیں بہت پیار اور محبت سے پالا پوسا جاتا ۔ انڈے ہر گھر میں ہوا کرتے تھے ۔ دکانوں پر انڈے بکنے کا رواج بھی کم ہی تھا ۔ جن گھروں میں مرغیاں نہیں ہوتی تھیں ، وہ پڑوسیوں سے انڈے لے لیتے ۔ ایک دو انڈوں کی بات ہوتی تو پڑوسی بلا قیمت ہی ایک دوسرے کو دے دیا کرتے تھے ۔ البتہ زیادہ تعداد میں کسی کو ضرورت ہوتی تو شرم و حیا اور باہمی احترام کے ساتھ سستے داموں بیچے جاتے تھے ۔ مرغی ذبح کرنے میں بہت احتیاط کی جاتی ۔ عام حالات میں لوگ مرغی ذبح کرنا بالکل پسند نہیں کرتے تھے ۔ کسی گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو مرغی ذبح کی جاتی تھی ۔ اگر کوئی مرغی بیمار ہوتی تو اس کا باقاعدہ علاج کروایا جاتا تھا ۔ مرغیوں کو سالانہ ٹیکے لگوائے جاتے تھے ۔ لیکن اگر علاج کے باوجود مرغی کے تن درست ہونے کا یقین نہ ہوتا ، تب ذبح کی جاتی ۔ گھر میں کوئی خاص مہمان آ جاتے ، تب بھی مرغی ذبح کی جاتی ۔ مرغی ذبح کرتے وقت اس بات کا خصوصی اہتمام ہوتا کہ اسلام کے بتائے ہوئے آداب کے مطابق تکبیر پڑھ کر قبلہ رو ہو کر ، دوسری مرغیوں یا چوزوں کی نظروں سے چھپ کر یہ کام کیا جاتا اور پھر گوشت کو باقاعدہ صاف پانی سے دھویا جاتا تھا ۔ گھر میں مرغی ذبح ہوتی تو گھر کے افراد ، خصوصاً بچے اس کی یاد میں اداس ہو جاتے تھے ۔

اب ذرا سوچیے ملک بھر مرغی کا گوشت کتنا زیادہ کھایا جاتا ہے ۔ لیکن جو کھایا جاتا ہے ، کیا وہ مرغی کا گوشت ہے؟ جگہ جگہ پھٹوں پر بکنے والا گوشت ، کس قدر آلودہ ہوتا ہے ؟ ان کی خوراک کیا ہے ، ان کے چوزے کیسے نکلتے ہیں ، ان کی پرورش کیسے ہوتی ہے ، انھیں ذبح کیسے کیا جاتا ہے ، آلائشیں کیسے ہٹائی جاتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ دکانوں پر بکنے والے انڈے کیا صحت افزاء ہوتے ہیں؟

تب پیدل چلنے یا بائیسکل پر سفر کرنے کا رواج عام تھا ۔ دوران تعلیم ، میں خود بھی سمن آباد (لاہور) سے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس تک بائیسکل پر جایا کرتا تھا ۔ “پہلے گول چکر” کو عبور کر کے ، ڈونگی گراؤنڈ ، سادات کالونی ، مون مارکیٹ سے گزر کر ، بھیکے وال موڑ سے وحدت روڈ عبور کر کے شیخ زائد ہسپتال کے سامنے سے گیٹ نمبر 1 یا 2 سے یونیورسٹی میں داخل ہونا اور دوپہر کو واپس بھی انھی راستوں سے آنا ایک محبوب مشغلے جیسا تھا ۔ یا کبھی کبھار سادات کالونی کی اندرونی گلیوں سے غوثیہ کالونی میں داخل ہونا ، پھر یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے قریب سے وحدت روڈ عبور کرنا بھی اچھا لگتا تھا ۔ صحافت کا شوق ہوا تو سمن آباد سے جیل روڈ تک پیدل جانا پسند تھا ۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ تو لمبا راستہ تھا ، لیکن تب یہ عادت اچھی لگتی تھی ۔ پونچھ روڈ سے چوبرجی ، وہاں سے مزنگ چونگی اور وہاں سے اخبار کے دفتر جانا اور راستے میں آتے جاتے لوگوں کو سلام کہتے یا سلام کا جواب دیتے گزرنا معمول تھا ۔ سوچیے ، کیا آج کل ہمارے نوجوان اس طرح پیدل چلنا یا بائیسکل چلانا پسند کرتے ہیں؟ میرا اپنا بیٹا محمد بن اسد شاہ جو ما شاء اللّٰہ ، اب او لیول کے آخری درجے میں ہے ، موٹر سائیکل چلانا بھی زیادہ پسند نہیں کرتا ۔ میں نے ایک دن وجہ پوچھی تو اس نے گاڑی کی فرمائش کر دی ، کیوں کہ اس کے ہم جماعت کاروں میں گھومتے ہیں ۔ ہم ناشتے میں دہی کھانا یا لسی پینا لازمی سمجھتے تھے ، لیکن اب دن بھر چائے کے دور چلتے ہیں یا کولا ڈرنکس ۔

ہم نے اپنے کھانے پینے اور چلنے پھرنے تک کے معمولات تبدیل کر لیے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صحت کے مسائل پورے معاشرے میں عام ہیں ۔ اچھی صحت کے لیے صاف غذاء اور اچھی عادات بہت ضروری ہیں ۔ یہ کام حکومتوں کو نہیں ، ہمیں خود کرنا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

“شاہ نامہ” کے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اسد شاہ نے آج یہ کیسا کالم لکھ دیا ۔ یوکرین اور روس کی جنگ ، بھارت کا ایک بھٹکا ہوا میزائل میاں چنوں تک پہنچ جانا ، تحریکِ عدم اعتماد ، پی ٹی آئی میں زبردستی شامل کروائے گئے لوگوں کا اپنی سابقہ جماعتوں میں واپسی کا سفر ، عمران خاں کی دھمکیاں اور اشتعال انگیز زبان ، اپوزیشن کے جوابی جملے ، اور ان جیسے کئی موضوعات میرے سامنے تھے ۔ لیکن ہر وقت سیاست پر لکھنے سے بھی من اکتا جاتا ہے ۔ کبھی کبھار آپس کی باتیں بھی کرنا چاہئیں ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply