آزمائشوں کا کرب۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

بشر ہوتے ہوئے ہر انسان کمزور اور غلطی کا پتلا ہے۔اس سے کسی نا کسی موڑ یا مقام پر غلطی سرزد ہو جاتی ہے۔ غلطی کا امکان دانستہ طور پر بھی ہو سکتا ہے اور نادانستہ طور پر بھی۔ بہرحال دونوں صورتیں واجب اور درست ہیں۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا انسان نہیں گزرا جس نے نیکی ہی کی ہو اور گناہ نہ  کیا ہو۔ بلکہ میں تو عصری تقاضوں میں یہ کہنا پسند کروں گا کہ انسان گناہ میں زیادہ سرگرم رہتا ہے اور نیکی کے عمل کو کم فروغ دیتا ہے۔ کیوں کہ مادی مسائل نے ہمیں اس حد تک مجبور و بے بس کردیا ہے۔کہ ہم نے ہر حال میں اپنی خواہشات کو پورا کرنا ہے۔ خواہ کوئی بھی نفسیاتی حربہ استعمال کیوں نہ کیا جائے۔ کیونکہ دنیا میں ہر روز مادیت کی حرص و ہوس بڑھ رہی ہے۔ ہر انسان اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پاگل ہو رہا ہے۔ شاید وہ گناہ کے ہولناک نتائج اور گمراہی کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ اگر ان وجوہات کو تلاش کیا جائے تو ایک لمبی فہرست ہماری آنکھوں کے سامنے آ جائے گی۔ جو ہماری روزمرہ کی ضرورتوں اور ترجیحات پر مشتمل ہوگی،جس میں ہر انسان اپنی ضرورت اور آمدنی کے مطابق ایک بجٹ بناتا ہے جس کی روشنی میں وہ اپنی حدود کا تعین کرتا ہے،البتہ معاملہ اس وقت بگڑتا ہے۔ جب ہم دوسروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی نیت کو لالچ کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔پھر معاملا مزید بگڑ جاتا ہے۔ کیونکہ خواہشات بے نقاب ہو جاتی ہیں ۔ جو ذہن کی پردہ سکرین پر مسلسل دستک دیتی ہیں جس کا نتیجہ آزمائشوں کے انجم پر آ کر ختم ہوتا ہے ۔

ہم اکثر روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے اپنی خواہشات کا تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خیالات اور جذبات جانتے ہیں۔ماضی حال اور مستقبل کا نقشہ بناتے ہیں۔ خاندانی اثاثوں پر بات کرتے ہیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ فطری تقاضوں کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنی محنت کا بیج بوتے ہیں۔
اکثر ہماری گفتگو میں لفظ آزمائش زیربحث رہتا ہے۔اکثر حالات کا ستایا ہوا شخص تو ہر بات کو آزمائش کے ترازو میں تولتا ہے۔ کبھی وہ ماضی کو کوستا ہے۔ کبھی حال پر گفتگو کرتا ہے۔اور کبھی مستقبل کے لیے اپنی قسمت کا قرعہ ڈالتا ہے۔ شاید یہ کہانی روز اوّل سے تا حال جاری ہے۔

بہر حال دنیا میں اس   گھمبیر عنصر کی ہر جگہ کہانی مختلف ہوگی۔ بات صرف سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت پر ہوتی ہے۔یا آپ کے پاس حکمت و معرفت کی کتنی بصیرت موجود ہے۔ بے جا نکتہ چینی کسی معاملے کا حل نہیں ہوتا۔ اور نا الزام تراشی سے ہم راست باز بن جاتے ہیں۔ کیونکہ اس حقیقت کے پیچھے سوچ کا بڑا ہاتھ ہے جو ہماری ترجیحات اور مقاصد کو عیاں کر دیتی ہے۔چند سوالات ایسے ہیں جو ہمارے جسم کی خال تک ادھیڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ حقائق تلخ و ترش ہوتے ہیں۔جن کی کڑواہٹ پورے جسم میں پھیل جاتی ہے اور ترشی دانتوں کو اس قدر کھٹا کر دیتی ہے کہ دانت اس قابل ہی نہیں رہتے کہ باتوں کے نوالے چبا کر انہیں ہضم کے قابل بنایا جا سکے ۔ ہم اکثر خدا کو الزام دیتے ہیں اور دوسوں سے گلہ شکوہ کرتے ہیں کہ شاید میرے مقدر کو تالا لگا ہوا ہے جس کی چابی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ہماری سوچ یہاں سے ہی غلط ہو جاتی ہے ۔ ہمارا انداز فکر بدل جاتا ہے۔ الزام بھی اپنے پیدا کرنے والے پر لگاتے ہیں۔ جبکہ اس بات کے وضاحتی نکات ہماری توجہ اس جانب مبذول کرواتے ہیں کہ خدا ہماری آزمائش نہیں کرتا۔بلکہ ہر شخص اپنے ہی خواہش میں پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارے خیالات زمینی سوچ کے حامی ہوتے ہیں جن کی رسائی اور اڑان آسمان کی وسعتوں تک نہیں ہوتی۔ شاید جس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارے اندر مادہ پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے اور جھگڑتے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کا تعین کم کرتے ہیں۔ دوسروں کو گناہ گار ٹھہراتے ہیں۔ اپنے آپ کو عقل مند جتاتے ہیں۔ اکثر غلط فہمیوں میں گرے رہتے ہیں۔ جبکہ اپنا محاسبہ کرنے سے گریز اں ہوتے ہیں۔ شاید یہ بات ہماری نفسیات کے ساتھ نتھی ہو گئی ہے کہ ہر انسان دوسرے کی ذات میں عیب ڈھونڈتا ہے۔ دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔دوسروں کا تماشادیکھتا ہے۔
جب کہ اپنی ذات پر غور و فکر نہیں کرتا۔اور نا اپنے کردار کا جائزہ لیتا ہے۔ بے شک ہر کام کا جائزہ و اصلاح موجود ہے۔

انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ آزمائشوں کے جال سے بالکل آزاد ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ حالات ہمیں اس کی الٹی تصویر دکھاتے ہیں۔ زمانہ کوئی بھی رہا ہو۔آزمائشوں نے انسان کا تعاقب کیا ہے۔ اسے پریشان اور بے چین کیا ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا ان سے نکلنے کی راہ بھی پیدا کرتا ہے۔کیونکہ آزمائشیں ہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ شاید جنہیں ہٹانا آسان کام نہیں ہے۔ لیکن نا ممکن نہیں ہے بلکہ ان سے نکلنا اور غالب آنا خدا کی مرضی سے ممکن ہو سکتا ہے۔
کیوں کہ خدا نہ  تو بدی سے آزمایا جاتا ہے اور نہ کسی کو وہ آزماتا ہے۔لیکن خدا اپنے رحم و کرم کی بدولت ہمیں آزمائشوں سے نکالتا ہے۔ بلکہ وہ نئی تدبیریں، نئے راستے، نئے طریقے ، نئی حکمت عملی ، نئی سوچ، نئی فطرت ،اور نئے سرے سے اپنی اطاعت کرنا سکھا دیتا ہے۔

خواہشات کے حصار میں گرا ہوا انسان اپنے اوپر آزمائشوں کا بوجھ بڑھاتا جاتا ہے۔ اس کا اس وقت تک قرض نہیں اترتا جب تک آسمانی کمک کا سہارا نا لیا جائے۔انسان کی طاقت تو بس اتنی ہے وہ بس ایک آزمائش کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے ۔اس کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں۔بال و پر میں سکت نہیں رہتی۔ وہ انسان جو کبھی فلک پر اُڑنے کے دعوے کرتا ہے۔وہ خود کو تنہا اور مجبور محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایک آزمائش کی گرفت اسے بری طرح باندھ دیتی ہے۔ وہ بری طرح نڈھال ہو جاتا ہے۔ اس پر سکتے کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔آزمائشیں طرح طرح کی ہو سکتی ہیں۔ جن میں زیادہ تر جسمانی اور نفسانی ہوتی ہیں۔ جن کا پھیلاؤ اور گھیراؤ شدت آمیز ہوتا ہے۔ ان کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ان سے آسانی سے پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا۔بلکہ اس سے نجات پانے کے لئے وقت کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو مہینے اور سال بھی ضائع ہو سکتے ہیں۔

آزمائشوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے جن کا مقابلہ کرنے کے لیے خدا قوت برداشت دیتا ہے۔ البتہ دنیا میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر قوت برداشت کی کمی ہوتی ہے۔وہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں۔ لیکن جن کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے وہ ڈیرھ ہونے کی بجائے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ خدا ان کے اندر حوصلہ و طاقت بڑھا دیتا ہے۔ وہ ضرور غالب آ جاتے ہیں۔لیکن جب آزمائشیں انسان کو جکڑتی ہیں تو انسان کی سوچ مفلوج ہو جاتی ہے۔ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ آ جاتی ہے ۔وقت کا قرض بڑھ جاتا ہے۔ دکھ سہنے کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے۔ ذہنی کرب بڑھ جاتا ہے۔ہمت جواب دے جاتی ہے ۔ ماتھے پر شکنیں پڑ جاتی ہیں۔ اسے تنہائی کا خوف ڈسنے لگتا ہے۔لیکن جب وہ اپنی بشری کمزوریوں کو تسلیم کرتا ہے۔تو خدا نکلنے کی راہ پیدا کر دیتا ہے۔ خدا معجزاتی طور پر ساتھ دیتا ہے۔ اسی مناسبت سے اپنا ایک اختصاریہ پیش خدمت ہے۔

” بےشک ساتھ اور سایہ تو وقتی ہوتا ہے لیکن دلوں میں برسوں کے لیے یاد پیدا کر جاتا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بلاشبہ آزمائشوں کے جال کاٹنے کے لئے کسی تیز آلے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں سمجھتا ہوں سب سے قیمتی اور تیز آلہ انسان کا ایمان ہے۔ جب آپ غالب آنے کے لئے مصمم ارادہ کر لیتے ہیں تو خدا بھی آپ کا ہاتھ تھام لیتا ہے ۔وہ سب راستے ہموار کر دیتا ہے۔ تنہائی اور مایوسی ختم کر دیتا ہے۔ ہمت و حوصلہ بڑھا دیتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ذہن و قلب پرسکون بنا دیتا ہے۔
آئیں ایک نئے ارادے اور جذبے کے ساتھ آزمائشوں کا مقابلہ کرنا سیکھیں۔ ہر وقت تیار رہیں ۔ کیونکہ ان کا کوئی مخصوص وقت نہیں یہ کسی وقت بھی جکڑ سکتی ہیں۔ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔اپنے ہاتھ میں لڑنے کے لیے ایمان کا عصا رکھیں تاکہ آپ دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply