اُستاد بھٰاواں (سائیں سُچّا)۔۔مشتاق احمد

مزنگ میں ٹیمپل روڈ کی سڑک ریگل کے چوک سے شروع ہو کر چونگی تک جاتی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف سفاں والا چوک تک بنگلے نما کوٹھیاں تھیں، جن میں زیادہ تر وکیل اور کاروباری طبقہ رہتا تھا، پھر سفاں والے چوک سے لے کر مزنگ چونگی تک سڑک کی دائیں طرف پرانا مزنگ تھا، بائیں طرف کُچھ نئے مکان اور کوٹھیاں تھیں۔ لیکن بھونڈپورا چوک کے بعد دائیں طرف مزنگئے اور بائیں طرف بھونڈپُورئے رہتے تھے، جن کا آپس میں سخت مقابلہ تھا؛ ویسے، ان میں اکثریت آرائیوں کی تھی جو باقی لاہور سے مقابلہ میں اکٹھے، لیکن آپس میں زبردست حریف تھے۔ کبڈی، کُشتی اور کرکٹ  مقابلوں میں بھاٹی اور اندرون شہر ایک طرف اور مزنگ و بھونڈپورہ دوسری طرف۔ کوئینز روڈ کی سڑک پر ، جو ملکہ کے بُت سے شروع ہو کر مزنگ چونگی پر ختم ہوتی تھی، ایک بہت پرانا، رومن انداز میں بنا ہُو ا یمفی تھیٹر تھا جہاں اُن دنوں، ۱۹۵۰ سے لے کر ۱۹۶۰ تک، کبڈی اور کُشتی کے دنگل ہوا کرتے تھے۔ بعد میں یہ سنا ہے کہ وہاں ایک تالاب بن گیا تھا جس میں مچھلیاں پالنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اس تھیٹر کے سامنے آوا پہاڑی تھی۔ میں اور میرے دوستوں نے اپنا بچپن اُس تھیٹر اور پہاڑی کے اِرد گِرد گزارا تھا۔ پہاڑی کا وہ رُخ جو کوئینز روڈ کی طرف تھا ، اور جہاں بہت بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں، اُسے بہت خوبصورت پودوں اور چھوٹے پیڑوں سے سجایا جاتا ، اور بہار میں تو وہاں پھولوں، پرندوں اور جگنوؤں کی بہتات ہُوا کرتی تھی۔ لیکن اسی پہاڑی کا جو رُخ بھونڈپورے کی طرف تھا بالکل بنجر زمین تھی، جہاں مزنگ کے آدم بیزار افراد پھِرا کرتے تھے۔

یہی پہاڑی استاد بھٰاواں کا اڈّہ  تھا۔ ویسے تو بھٰاوان آلو چھولوں کی چھابڑی لگاتا تھا، لیکن ہر صبح وہ اس پہاڑی کے پتھروں کی صحبت میں “من تڑپت ہری درشن کو” اور چند دوسرے کلاسیکل گانوں کی مشق کیا کرتا تھا۔ گرمی ہو یا سردی، پرندے جاگیں یا نہ جاگیں، استاد وہاں ضرور ہوتا تھا۔ بھٰاواں کو استاد کا تخلص بھی ہم نے ہی دیا تھا ۔ اُس نے کسی سے گانا سیکھا نہیں تھا، اور اپنا اُستاد خود ہی تھا؛ چنانچہ، ہم نے بھٰاواں کے ساتھ استاد کا اضافہ کر دیا تھا۔

تمام دِن تو وہ مزنگ کے مختلف علاقوں میں اپنی چھابڑی لگاتا، لیکن شام ڈھلے وہ بھونڈپورے چوک میں آ جاتا اور آلو چھولوں کی پلیٹ کی فروخت کے ساتھ ساتھ مختلف شوقینوں کی چٹکیاںاور چُٹکلے بھی سہتا ۔ بھونڈپورے کا چوک اُن دنوں میں رنگین مزاج لوگوں کا اڈّ ہ تھا۔ مولوی فروٹ والا بہترین پھل رکھتا تھا، شفیق کبابوں والے کا جواب ہی نہ تھا اور میہدھا اپنے چائے خانہ میں رات کو دیر تک چائے پلاتا اور ریڈیو سیلون سے گانے سُناتا تھا۔ رات کو دو تین بجے تک وہاں گہماگہمی رہتی تھی۔ ہمارا گھر میہدھے کے ہوٹل کے اوپر تھا؛ نتیجتاً  میں نے آج تک سونا نہ سیکھا۔ رات کے ایک بجے بھی اگر “تیرا جانا” ریڈیو پر لگے تو وہ میرا دروازہ کھٹکھٹا دیتے کہ “بئو ، تیرا گانا لگّا ہویا ا ے”۔

اُستاد بھٰاواں کے مداحوں میں ہم بھی شامل تھے۔ رات کو اگر بھُوک لگے تو چند دوست اور میں بھٰاواں سے فرما‏ئش کرتے تھے ،”استاد، آج ذرا من تڑپت ہو جائے۔ ”

استاد بھٰاواں یہ گانا ہمیشہ آنکھیں بند کر کے گا تا تھا، اور جب وہ اپنی لگن میں آسمان کی طرف دیکھ کر گا رہا ہوتا تھا تو ہم نیچے سے اُس کی چھابڑی خالی کر دیتے۔ بھٰاوان کو بالکل علم تھا کہ ہم نے گانے کی فرمائش کیوں کی اور ہم کیا کریں گے، لیکن نہ تو اُس نے کبھی ہماری فرمائش رد کی تھی اور نہ ہماری یلغار کے دوران اپنا گانا توڑا تھا۔ لیکن گانا ختم ہونے پر جو ہمیں گالیاں پڑتی تھیں، اُن کا مزہ  آلوچھولوں سے بھی زیادہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُس کا دِل بھر جانے پر ہم اُس کا بِل بھی ادا کر دیں گے ۔ معلوم نہیں یہ ڈرامہ کتنی مرتبہ ہُوا ہو گا، لیکن ہر دفعہ اس کا مزہ  علیحدہ اور آج تک اُس کی یاد اَمر ہے۔
پھر ۱۹۶۰ میں ایک دن میں مزنگ چھوڑ کر برطانیہ چلا آیا – سب ناطے ٹوٹ گئے!

۱۹۶۸ میں جب میں دوبارہ لا ہور گیا، تو چند دِن کی ضروری علیک سلیک کے بعد میں مزنگ تک پہنچا۔ شام کو میہدھے سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ کون ابھی ہے، کون نہیں اور کون کہاں۔ شام اور ڈھلی تو بھٰاواں کی یاد اُبھری۔
“بھٰاواں کیتھے اے؟”
“کدی کدی دسدا اے، پر بھٰیڑے حال وچ اے۔”
“کوئی ملاقات تے کرا۔” میں نے میہدھے سے کہا۔
“ٹھیک اے، کل آ جائیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اگلی شام جب وہاں پہنچا تو بھٰاواں پہلے سے موجود تھا۔ مجھے کرسی دی گئی تو میں نے بھٰاواں کے لئے بھی کرسی مانگی۔
“بئو، رین دے، مینوں پتہ اے میں کِتھے بہنا اے،” یہ کہہ کہ وہ میرے سامنے پھٹّے پر بیٹھ گیا، پر میرے اسرار کرنے پر اُس نے کرسی قبول کر لی ۔ میں یہ کہنا بھول گیا کہ بھٰاواں کا حلیہ وقت کے چکر سے باہر تھا۔ جیسا میں نے اُسے بچپن میں دیکھا تھا وہ آج بھی ویسا ہی لگ رہا تھا۔ کچھ اور دوستوں کا پتہ چلا کہ اُن کے ساتھ کیا ہُوا۔ چائے پی گئی، پھر میں نے اُس سے بہت عاجزی سے “من تڑپت ” کی فرمائش کی۔
“میں تے گانا چھڈ دتا اے۔” بھٰاواں نے کہا۔
“کیوں؟”
“بئو، جدوں تو ں ٹُر گیا تے تیرے نال سارے تیرے یار وی غیب ہو گئے۔ تے فیر میں کیدے لئی گاندا؟” اُس کی آنکھوں میں یاد، یاس اور پیار چھلک رہے تھے۔
سناٹا چھا گیا۔
چند لمحوں بعد وہ بولا، “پر میں اَج تیرے لئی گاواں گا؛ پر دس، تو آلوچھولے کِتھوں کھائیں گا؟”
“تو اوہدا نہ سوچ، میں تیری غیبی ٹوکری وِچوں کھانواں گا۔”
“تے فیر ہو جائے؟” اُستاد نے پوچھا۔
“ہو جائے!”
اُس کے بعد یاد نہیں کتنی دیر وہ محفل جمی۔ جناب اُستاد بھٰاواں نے دل کھول کر سُنایا۔ ہمارے ارد گِرد بہت سے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جب اُس کا من بھر گیا تو اُس نے گانا بند کر دیا۔ میں نے ہاتھ باندھ کر اُس کا شکریہ ادا کیا، اور پھر پُرانے وقتوں کی مانند جیب میں ہاتھ ڈالا۔
“بئو ، رین دے! اے تیرے تے چڑھ گئے۔ فیر کدی ملِاں گے تے چُکا دئیں۔”
پھر استاد بھٰواں وہاں سےچلا گیا۔
آج ۵۲ سال بعد بھی مجھ  پر اُس کی یاد اور اُس رات کے بِل کا قرض باقی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply