تحریک عدم برداشت ۔۔قادر خان یوسفزئی

پاکستان ایک عظیم الشان بحران سے گزر رہا ہے۔ یہ بحران کس عمل و شکل میں بطور سزا ہے، اس کی مثال ایک ایسے اندھے مسافر کی سی ہے جو اندھیرے میں ٹکریں مار مار کر ذوق ِ سفر سے محروم ہوچکا ہو، قیام پاکستان عصری تاریخ میں ایک منفرد واقعہ تھا۔ اس کا شمار تاریخ عالم کے ان معدودے چند واقعات میں ہوسکتا تھا جن سے انسانیت نئے موڑ مڑنے کے قابل ہوئی اور آج ان کے دم سے موجودہ مقام تک پہنچ سکتی ہے لیکن تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملے گی کہ قوم نے ہمہ گیر مخالفت کے علی الرغم اپنے نصب العین کو وطن کی صورت میں متشکل کیا اور پھر اسی عمارت کے شکست و ریخت کے درپے ہوگئے۔ تحریک عدم اعتماد دراصل تحریک عدم برداشت ہے جس میں فریقین ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے چشم پوشی کرتے ہیں، ایسی تحریک کی عمارت جب بھی استوار کی گئی تو دیکھا یہی گیا کہ ہر شخص اور قریباً ہر جماعت اپنی ہوس رانیوں اور ذاتی اقتدار و مفاد کے استحکام و تکمیل میں منہمک ہوجاتے ہیں۔ یہ مہم جوئیاں پہلے بھی ہوتی رہی اور آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ یہ سب کچھ جو ہورہا ہے ملک کے لئے بھی المناک ہوسکتا ہے، نیا حادثہ اور زیادہ المناک ہوسکتا ہے، اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ارباب ِ اختیارر کی سیاست کے جملہ محرکات بخوبی آشکار ہوجاتے ہیں۔ ارباب حل و عقد کی نالائقی اور نااہلیت نے بھی مملکت کو معاشی اور معاشرتی نظام آلام میں مبتلا کردیا کہ قومی مفادات کے جذبات لطیف و شریف سے بیگانہ نظر آنے لگے، ان کی وحدت پارہ پارہ ہونے لگی اور وہ ہر راہ رو کا ساتھ دینے لگے کہ چاہے اس کے نتائج کس قدر تباہ کن کیوں نہ ہو۔

بد قسمتی یہ رہی کہ طوفان بد تمیزی کا ریلہ بالخصوص تبدیلی کے نام سے وارد ہوا اور تمام اخلاقی و پاکستانی اوصاف کو بہا لے گیا۔ لسانیت قومیت پر حاوی ہوئی تو بد دہنی سے بات گولی تک چلانے کی نوبت پر جا پہنچی۔ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ یہ فتنے درحقیقت ارباب ِ سیاست کے پیدا کردہ تھے اگر مذاکرات پر یقین محکم ہر شعبے میں موجود ہو تو اس قسم کے تنازعات پیدا ہی نہ ہوتے اور پاکستان درست سمت پر گامزن رہتا۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور المیہ کیا ہوگا کہ آج تک ایک بھی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ جس صوبے یا لسانی اکائی کو دیکھیں تو ایسا محسوس کرایا جاتا ہے کہ وہ بحیثیت ایک علیحدہ قوم اپنے ’جداگانہ‘ حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جہاں لسانی یا صوبائی اکائیوں میں منقسم سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے حریف ہیں تو وہاں مخصوص مفادات کے لئے بالکل یک زبان ہیں۔ راقم کو کبھی کبھار ہر گلی کوچوں میں جگتو فرنٹ کا سایہ نظر آتا ہے جس کے حواری اپنی مطلب براری کے لئے تفرقہ اندازی کررہے ہوں تاکہ انہیں اِ دھر اُدھر سے،کہیں سے بھی کچھ مل جائیں۔ تحریک عدم برداشت اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ تقاضا تھا کہ جذبات کو ٹھنڈے کرنے کے لئے اطمینان سے اس کا حل سوچ لیا جاتا،لیکن غیر معمولی تعجیل سے کام لیا گیا اور اب جیسا اعلان ہوگیا ہو کہ اپنے اپنے الیکٹیبلز کے جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی حالت اس قدر گردگوں ہوگئی، جیسے لسانی تنازع پر 22 اپریل1954کے دن کراچی میں ہڑتال منائی گئی جو مکمل تھی اس سے عوام نے اپنے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ مولوی عبدالحق کی قیادت میں ایک جلوس مرتب ہوا جو ریلی کی شکل میں مجلس دستور ساز تک گیا، دوسرے دن جب اس جلوس کی روائداد اخبارات میں شائع ہوئی تو ایک اخبار نے لکھا کہ شرکا ء جلوس کی تعداد پانچ ہزار تھی، دوسرے نے دس ہزار تعداد بتائی، تیسرے نے ایک لاکھ اور چوتھے نے اسے لاکھوں کہا، اس پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا کہ جلوس کی تعدادکونسی صحیح ہے، جس اخبار نے پانچ ہزار لکھا تھا اس سے باز پُرس ہوئی، اس نے الزام خبر رساں ایجنسی پر ڈالا، کسی نے جرات کا مظاہرہ نہیں کیا کہ اس تعداد کو وہی مان لیتے جو انہوں نے لکھی تھی، نہ دونوں نے اسے غلط کرکے معافی مانگی۔ اخبار مذکور نے معترضین کو خوش کرنے کے لئے خبر رساں ایجنسی کی ڈائریکڑی سے استعفیٰ دے دیا، حالاں کہ ان کی مدت بہت عرصہ پہلے ختم ہوچکی تھی۔

دراصل ہمارے قومی ذہن کے افق کی پستی کا یہ احوال روز اوّل سے عیاں آرہا ہے، اہل صحافت کے کسی بھی گوشے میں چلیں جائیں، ان کی بھی برداشت گویا ختم ہوچکی، ایسا لگتا ہی نہیں کہ ان کا فرض قلم کی حرمت اور غیر جانب داری کے ساتھ معاشرے میں اخلاقی اقدار کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہے نہ کہ مخصوص فریق کے حلیف بن کر قومی معاملات کا حشر نشر کریں۔ جس طرح مولوی عبدالحق اور ان کے رفقا علمی لوگ تھے لیکن سیاسی تحریکیں چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے، اس سے یہ ہوا کہ ان تحریکات کا فائدہ ان لوگوں نے اٹھا لیا جن کے مقاصد کچھ اور تھے۔ ہماری قومی زندگی کا بھی یہی پہلوافسوس ناک ہے کہ موجودہ دور میں بھی کارکن اور جماعتیں مفقود ہیں جو سیاسی تحریکات کی رہنمائی کرسکیں یہ محض تحریکوں کی ناکامی کی دلیل ہوگی بلکہ متفنی (عیار)لوگوں کے لئے دعوت عام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ذرائع ابلاغ کو اخلاقی حدود کا معیار از خود نافذ کرنا ہوگا کہ جو کوئی بھی ہو اس کی بد دہنی اور اخلاقی پس دماغی سے پورے معاشرے میں ناسور پھیلتا ہو، اس کے غیر محتاط رویوں پر اپنی ذمے داری پوری کرے۔ من و عن منفی رویوں سے عدم برداشت کا فتنہ نسل کی تباہی کا موجب بن جائے گا، اس عمل کو روکنا ہوگا۔ کسی بھی فریق کو محض اکثریت کے زعم میں مبتلا ہونے کے خبط سے باہر نکل جانا چاہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرلینا چاہے کہ ہم ایک قوم ہیں بھی یا نہیں، سیاسی جماعتوں میں نظریاتی اختلاف انوکھی بات نہیں لیکن وفاق کی مرکزیت کو کوئی بھی کمزور کرنے کی کوشش نہ کرے کہ علاقائی نسبتیں سے بالاتر قومی مفادات پہلی ترجیح ہیں۔ ریاست کے تمام اجزائے ترکیبی مساوی درجہ اور اختیارات رکھتے ہیں، طے بھی کرنا ہوگا۔ مملکت کی سلامتی و بقا کے لئے اختیارات سے متجاوز ہونا یکساں نقصان دے گا۔ تحریک عدم اعتماد کا جو بھی انجام ہو، اس پر برداشت کا رویہ اپنانا ہم سب کے حق میں بہتر ہوگا۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply