اک پھیرا اپنے دیس کا (4)۔۔کبیر خان

اک پھیرا اپنے دیس کا (4)۔۔کبیر خان/پہاڑیوں کی زندگی میں خوشی اور غمی دواہم مواقع ہوتے ہیں جب برادری کا اکٹھ ہوتا ہے۔ (ہمارے ہاں برادری کُف قبیلے ، رنگ نسل یا دین دھرم پر نہیں ،’’ونڈ‘‘یعنی زمینی تقسیم پر استوار ہوتی ہے)۔ ہر دو مواقع پر ہم مذاق و ہم خیال اہل دیہہ کی ٹولیاں سی آپی آپ بن جاتی ہیں ۔ ادھر ہنسی مذاق تو اُدھر سنجیدہ فکری۔ ایک زمانے میں تیسرا گروپ بھی ہوتا تھا۔ ۔ نے نوازگروپ ۔ لیکن اب نصراللہ جیسے نوابزادے رہے نہ حقّے کا چلن نہ چلم کا رواج۔ یار لوگ ’’واری ‘‘(باری) لگانے کی بجائے اپنے اپنے سگریٹ سے دوپیسی نکالا کیے۔ موت مرگ پر قبرستان کے کنارے اور شادی بیاہ میں’’چَر‘‘(کھُلے میں دیگوں والا عارضی چولہا) کے ارد گرد اکڑوں بیٹھ جاتے ۔ پھر خواہ دیگیں دُھل جائیں ، چاہے چولہے بجھ جائیں ، محفل یاراں اوس گرنے اور کہرا پڑنے تک گرم رہتی۔

ہم نے شادی ہال کے چاروں اور گھوم پھر کر دیکھ لیا،کوئی چر چولہا , دھواں دھاری نہ چلم کی باری کواری۔ مخملیں لبادے میں لڑکھڑاتی کُرسیاں اور اُن پر کھُبے ’’کوُن پڑے‘‘مدوعین با تمکین۔ ہال کے چاروں کونوں میں چار ٹولیاں اپنی اپنی بولیاں بول رہی تھیں ۔ قہقہے،ٹھٹھے ، چسکے،سِسکیاں چسکیاں ماحول میں گھل رہی تھیں ۔ ہم بھی تاک کر ایک ٹولی میں جا بیٹھے ۔ کس نمے پرسد کہ بھیّا کون ہو، تین ہو یاڈیڑھ ہو یا پون ہو؟۔ایک شخص جوش خروش سے اپنی بات جھاگ میں بجھا کراُڑا رہا تھا:

’’  میں کہیا کوئی پرواہ شرواہ نئیں، سو کی جغہ سوا سو لگ جائیں ، خصماں نوں کھائیں۔۔۔، بچّوں پر جند جان وار دوں گا ، ڈھنڈی ڈوگی کیا چیج ہے۔ دوسرے دیہاڑے یاروں نے ڈوہنگ والا ڈوگا بیچ دیا۔ بچّوں کو اکھاڑمی میں داخل کرا کر گھر مُڑے ۔ ہیں جی ۔۔۔، لو فیر تریجی بچّی کی واری آئی ،اگلوں نے فیس داخلہ کے لئے گھر والا کھیت بیچ ڈالا۔۔۔۔ میں کہیا کوئی پرواہ شرواہ نئیں۔ تیسری بھی اکھاڑمی میں ڈال دی۔۔۔۔ دیکھ لو جی اجّ جھُلّی کے گھر میں مال ڈنگر ہے نہ پہوُ بچھّا۔۔۔ ،ہیک بُڈھی کی ٹکّی،ہیک نا چیج۔ مگر پیر اولیا کی دعا سے گھر ایک افسر اور دو افسرانیوں سے دُبو دُب بھرا ہوا ہے ۔ ہور لو جی ! جھونگے میں کُل ملا کر تین بچّوں نے جماندرو جھُلّی کو فتح شیر خان بنا دیا۔ جواَجّ بلادری میں چھاتی تان کر بیٹھا ہے۔ ہے کہ نئیں؟؟۔ ڈوگوں سے کُھمیں (بُھٹّے) ہی نکلتیں ناں ؟ ۔اور اللہ بڑا بول نہ بلوائے،میرے بیٹے نے شناختی کارُڈ میں بھی میرا اصل نام لکھوانے کی عرضی مُنشی پٹوار کی خذمت ہیک دُسّ میں دائر کر چھوڑی ہے۔۔۔۔عرضے نیاز مند سردار فتح شیر خان ولدے گھیبا خان حال کمّی مکین رقبہ ڈوہنگ، نزد للّے نی چوہنگ۔ ‘‘

اگر وہ تفاخر سے اپنے کامیاب بچّوں کا ذکر نہ کرتا تو ہم شاید ہی پہچان پاتے کہ وہ جھُلّی ہے اور یہ کہ اُس کا اصل نام سردار فتح شیر خان ہے۔ ہم بڑھ کر اُس سے گلے ملے۔ وہ بھی اُتنی ہی گرمجوشی سے ملا۔ رسم کے مطابق تین بار تکڑے خوش کرنے کے بعد ہاتھ ملاتے ہوئے وہ بولا:’’آپ جنج والوں کی طرف سے ہیں یا ڈولی والوں کی طرف سے۔۔۔۔؟‘‘پھر خود ہی ماتھا پیٹ کر بولا’’جنج تو کِدھرے دِیگر ویلے آئے گی۔۔۔۔ میں وی ناں۔۔۔۔‘‘
کہا ، ہمیں بھی آپ اپنی طرح کُڑی والوں کی طرف سے سمجھ لیں ۔ ویسے ہم کُڑی کے ماموں ہوتے ہیں ۔ ۔
’’ نہ کریں جی ، کُڑی کا مانواں جگت مانواں صغیر خان ہے۔۔۔۔،کالج کا ہیڈ ماشٹر لگا ہوا ہے، فیر وی اخباراں لختا ہے۔۔۔۔، پینسے کی بھُکھ وی ناں بندے کو بندہ نئیں رہنے دیتی۔۔۔‘‘
جی وہ مانواں ہمارا چھوٹا بھائی ہے ۔
’’سگّا۔۔۔۔؟‘‘
’’جی‘‘ ہم نے جواب دیا
’’پدّر کا سردار خان پہائی آپ کا بھی پہائی تھا۔ ۔؟‘‘
پیو تھا۔۔۔ ‘ہم نے جواب دیا
’’سچّی مُچّی ۔۔۔۔؟‘‘اُنہوں نے پوچھا۔
سچّی مُچّی۔۔۔‘ ہم نے جواب دیا
’’نورا آپ کا کیا لگتا تھا۔۔۔۔؟‘‘
’’ہمارا ہمزاد تھا۔۔۔۔۔‘‘
’’ہم جات سگّا پھوفیر ہوتا ہے یا منہ بولا؟‘‘

جب تک ہمیں اُس کے آوٹ آف کورس سوال کا جواب سوجھتا،بائیں طرف کےدروازے سے بیک وقت کئی شناسا چہرے اور چالیں اور چُہلیں داخل ہوئیں ۔۔۔۔۔ ۔ پورے غول میں کُل ملا کرچار چہرے داڑھیوں کے پیچھے چھُپے ہوئے تھے، باقی بے حد عیاں ،بلکہ تا حدِ نگہ عُریاں۔ خالد ، طارق،طاہر، افتخار، ریاض ، اعجاز ،الطاف ،مہنّاں ، جِیرا، ہفیرہ، دُگّولا، پینٹھا، ارلی، ڈِرلی،ٹانڈا، بھُرجُو، میِسا، لال ،چھبّو، ہاکوُ، سِدّھا، پُٹھّا، تھاپا، پہاپا اور چار پانچ دیگر۔

’’لو جی ! ربع صدی کے بعد آج اپنے کلّب سے بھی ملاقات پکّی ہے‘‘۔ ہم نے سوچا۔اور کلب سے بغلگیر ہونے کو اُٹھے۔ چار پانچ نے توہمیں کھلم کھلا پہچان لیا، باقیوں نے دیکھا دکھی سیان لیا۔

’’بھگت صاحب ۔ ؟،آپ تو پہلے سے بھی زیادہ’’ہدیہ پدّ‘‘(شکستہ ،منہدم) آئے ہیں ۔ بھابی نے ’’ڈِس سپرنگ‘‘(ڈسپلن) کچھ جاستی ٹائیٹ کر دیا ہے؟جس تھاں بھر کے ماس تھِرکنا چاہیئے تھا، وہاں کرنگّ (ہڈیوں کا ڈھانچہ) تڑختا ہے۔ آپ کے تواِدھر اُدھر سے انگ ننگ دھڑنگ نکل آئے ہیں ۔ اور تو اور مونچھیں بھی ڈھلک کر شرافت کے قریب پہنچ گئی ہیں ۔ قسمے آج خزاں میں کیڑی کا مارا ٹانڈا یاد آگیا ہے۔۔۔،ترسا ہوا،مُرجھایا ہوا،جھُلسا ہوا۔۔۔۔ ۔اور کِرتی مُٹھّی سے آج یہ بھی بتا ہی دیں کہ ہفت روزہ عقاب نے آپ کا نام محمد کبیر کی بجائے بھگت کبیر کیوں رکھا تھا۔ جب کہ آپ ہندی میں دوہے نہیں ، پہاڑی بولی میں لیڈروں اور ٹھیکیداروں کو طبعزاد گالیاں نکالتے تھے۔۔۔۔ وہ بھی اتنی بےضرر کے بندہ آئینے کے روبروکھڑا ہو کر اپنے آپ کو بھی دے سکتا تھا۔
ہاسے ٹھٹول کے بعد ،جس طرح وہ سب ہمارے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتے تھے، اُسی طرح ہم بھی مدتوں بعد اُن کے بارے میں معلوم کرنا چاہتے تھے :
’’باقی تو سب ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ہم نے کہا’’ لیکن شہر ہمارے گاوں میں بہت اندر تک گھُس آیا ہے، یہ ۔ ‘‘
’’ یہ کلکّھن (ناپسندیدہ حرکت) بھی آپ کا بویا ہوا ہے۔۔۔‘‘ایک چِھنگ پتلا اور لمّ ڈھینگ قسم کا جوان تڑپ کر بولا ’’آپ نے ہی ہشکار کر گہل(مویشیوں کا رستہ)کو اپنی مدد آپ کے تحت سڑک میں بدلنے کی عِلّت ڈالی تھی۔ اگر پہلے ہی پھٹّ پر قبضہ گروپ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے تو گہل کی گہل رہتی ، دھنّ کی دھنّ۔ سڑک نہ بنتی تو شہر کبھی ہمارے گاوں میں نہ گھُس پاتا۔ اب ہور چوُپو۔ ہو سکتا ہے دیگر ازکاررفتگان کی طرح آپ کو بھی تقویٰ لاحق ہو گیا ہو، اور آپ کی نجات بھی ہو جائے لیکن شرط لگاتا ہوں کہ شہر کو گاوں میں گھسانے کی پاداش میں آپ کی بڑی سخت پکڑ ہو گی۔۔۔۔‘‘
’’اسے پہچانا۔۔۔؟‘‘ طاہر بولا ’’یہ وہی ہے جو قاعدہ اٹھا کر اسکول جاتے ہوئے ہر چھٹّے قدم پر پانچ منٹ کے لئے بیٹھ کر سانسیں استوارکر تا پھر گن کر پانچ قدم چلتا تھا۔ اور شام کو کلب ممبران کے ساتھ جھولی سے بیلچے کا کام لیتے ہوئے دو مُٹھی مٹّی یہاں سے وہاں منتقل کرتا تھا۔ یہ وہی ہے جس کے نیلے پیلے پچھکے ہوئے ناخن ،رُکی ہوئی بڑھوتری اور اُکھڑی ہوئی سانسیں دیکھ کر آپ منہ پھیر لیا کرتے تھے ۔ تب سانسیں اُکھڑنے کی وجہ سے دو جملے نہیں بول سکتا تھا۔۔۔۔ تھوڑا بڑا ہوا اور اس کے دل کے والو بدلے گئے تو چنگا ہو گیا، یکلخت خود بھی لمبا ہوگیا،اس کی زبان بھی۔ آپ اس کی باتوں کا بُرا نہ منانا‘‘۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم نے حسبِ سابق مدد طلب نگاہوں سے الطاف کی طرف دیکھا۔ اُس قہقہہ بار شخص کی شریر آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں ۔ وہ وہیں تھا لیکن وہاں نہیں تھا۔ ایسی حاضریاں اور غیر حاضریاں ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔ وہ جو کبھی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے، عدم توجہی کا نشانہ تھے۔ کیا یہ بھی اسی سڑک کی بدولت ہواـــــ؟ ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ہماری نگاہوں کے تعاقب میں ایک اور آواز بلند ہوئی۔۔۔۔۔ ’’قتل ، ڈاکہ، چرس، بھنگ،نشہ سب اسی شاہراہ سے گاوٗں کی فضاوٗں میں پھیلا ہے۔ اور ترقّیاں کرو، ہور چُوپو۔۔۔۔‘‘۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہم ہی اس گاوٗں بربادی کے اکلوتے ذمہ دار ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply