کشمکش۔۔ اعظم معراج

 کشمکش۔۔ اعظم معراج/وہ ایک ایسی ریاست کا شہری تھا جس کی اشرافیہ نے اس ریاست کے معماروں کے حصولِ ریاست کے مقصد کو پسِ پشت ڈال کر اپنی ہوس زر ۔و۔ اقتدار کی خاطر اپنے تقریباً21کروڑ شہریوں کی زندگی کو جنت نظیر عرضِ پاک میں جہنم بنا رکھا تھا معاشرتی نا انصافی، فکری، شعوری، معاشی، مذہبی، علمی غرض ہر طرح کے استحصال کے نتیجے میں لوگ مذہب رنگ نسل مسلک فرقوں میں بٹے ہوئے تھے۔کیونکہ وہ ریاست ہزاروں سال پرانی ایک دریا سے جڑی ہوئی تہذیب اور ہزاروں سال سے مختلف مذاہب کے فاتحین اور حکمرانوں کے زیرِ تسلط رہی تھی لہٰذا بے تحاشا ارتقائی ادوار سے گزر کر اس ریاست کے جغرافیائی سرحدوں میں بہت سے لسانی، تہذیبی، مسلکی و مذہبی گروہ بستے تھے اس لئے مفاد پرستوں کے لئے آسان تھا کہ ا پنے مفادات کے حصول کے لئے ان گروہوں کو آپس میں لڑائیں اس لڑائی کا زیادہ تر شکار دھرتی کے قدیم بچے بنتے چاہے ان کا کسی بھی مذہبی گروہ سے تعلق ہوتا۔ انہیں جب موقع ملتا ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے اس وجہ سے ملک میں چند لاکھ گھرانوں کو چھوڑ کر باقی شہری غربت افلاس کے مارے ہوئے تھے۔ وہ حکمرانوں کے اس طریقہ واردات کو یوں بیان کرتا۔
میری قوم کی جو وجہ افلاس ہے
میری اشرافیہ کا وہ ذریعہ معاش ہے
اس نے جس ماحول میں ہوش سنبھالا اس نے ا پنے اردگرد دیکھا اس کے عقیدے کے لوگ بھی اس جبر استعداد و معاشرتی ناانصافی کا شکار تھے بلکہ تعداد میں بہت زیادہ کم ہونے اور تاریخی طور پر شعوری معاشی معاشرتی، تعلیمی غرض ہر لحاظ سے پستیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے اور ریاست کے اکثریتی شہریوں کے ہم مذہب نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سماجی رویوں و امتیازی قوانین کا سامنا ضرورت سے زیادہ کرنا پڑتا اور حکمران طبقے نے لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکانے کے لئے اس کی ریاست کے بیانیے ہمیشہ ایسے بنائے کہ استعماری قوتوں کو کچھ خاص مذاہب سے جوڑ کر پیش کیا جاتا حالانکہ وہ استعمار بھی اپنے مقاصد کے لئے بین الاقوامی سطح پرایسے ہی کھیل کھیلتا اور استعمار بھی دنیا بھر میں اپنے کٹھ پتلی حکمران مقرر کرکے اپنے مقاصد اکثریتی شہریوں کی مدد سے حاصل کرتا تاکہ کسی دین کی ترویج و ترقی کا ایجنڈا پورا کرتا۔
جس سے ان ریاستوں کے اکثریت شہریوں والے مذاہب سے اس داستان گو کی ریاست کے اندر ایک نفرت کا رویہ ہر وقت ہلکی آنچ پر گرم رہتا مفاد پرست اسے جب چاہتے نقطہ ابال پر لے جاتے ہیں جس سے معاشرے میں اس کے مذہبی گرو کو امتیازی سماجی رویوں اور امتیازی قوانین کا سامنا زیادہ رہتا۔ کیونکہ ان خاک نشینوں کا مذہبی ناطہ انہی استعماری قوتوں سے تھا لہٰذا تاریخ کے اس جبر اور سماجی استحصالی و ظلم و ستم کے نتیجے میں اس کے مذہبی گروہ نے ایک خاص معاشرتی بیگانگی کا رویہ اپنا لیا اس رویے کے پیش نظر اس کے ہم مذہب لوگوں میں سے بہت سوں نے خوف و ہراس کی اس ظلمت شب و تیرگی کے ردعمل اور غصے میں مرثیہ گوئی اور نوحہ گری شروع کر دی ان میں سے کچھ یقیناً درد دل رکھنے والے اور نیک نیت تھے بلکہ وہ انہیں تین ٹکڑوں میں بانٹنا پہلے نیک نیت بے ہمتے پھر لاعلمے اور سب سے خطرناک بدنیت اس طرح نیک نیت پست ہمت لوگوں کے نیک نیتی سے شروع کئے گئے کام بدنیت مکاروں عیاروں اور شعبدہ بازوں نے ان رانددرگاہ لوگوں کی محرومیوں اور پستیوں کو بیچنے کو کاروبار بنا لیا۔ اس طرح چند بدنیتوں کی بدولت بے ہمتوں اور لاعلموں میں سے لاتعداد بدنیتوں کے گروہوں میں شامل ہو کر مردارخوری میں مبتلا ہو گئے اس کاروبار کو دوام اقوام عالم کے نیک نیت لاعلموں اور مذہب کے نام پر اپنے ہم مذہب لوگوں کی بہتری کے لئے شروع کئے گئے مفاد عامہ کے کاموں کی بدولت ملتا اوراستعماری ریاستوں کے خوشحال شہریوں کی بھیک اور چندوں کی بدولت ان ریاستوں کے بدنیتوں نے دنیا بھر کی ریاستوں کے ا پنے حکمرانوں کی بدولت غریب ریاستوں کے مفلس شہریوں کے نام اس دھندے کو دنیا بھر میں خوب پھیلایا جس سے اسے لگتا جیسے آہستہ آہستہ اس کے ہم مذہب ہم وطن صرف دوسرے تمام شعبہ روزگار چھوڑ کر صرف مذہب اور خدمتِ خلق اور مفاد عامہ کے کام ہی بطور روزگار رہ گئے جس کی بدولت اس کے ہم وطن ہم مذہبوں نے معاشرتی بیگانگی کا ایسا بھر پور رویہ ا پنایا کہ انہوں نے اپنی ریاست کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی آبادیوں کو چھوٹے چھوٹے جزیروں کی شکل دے دی اور نوجوانوں نے بھی صرف مذہب اور مفاد عامہ کے کاموں کو ہی اپنا بہترین مستقبل سمجھ لیا۔ جس کے نتیجے میں ان پسے ہوئے لوگوں نے اپنی دھرتی ماں سے نسبت اور اپنے اجداد اور موجودہ نسلوں کے اس ریاست کے قیام، تعمیرِ دفاع اور اس معاشرے کو اپنے خون پسینے سے سینچنے کی کوشش میں انہیں گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سے نکل کر آسمان کو چھوتی بلندیوں کو چھونے والوں کو بھی اپنی محرومیوں کی گہری ہوتی ہوئی فضا میں چھپا لیا۔ اس طرح نوجوانوں کے رول ماڈل بھی بدلنے لگے اور عزم حوصلوں صبر لگن محنت اور ریاضت کی بدولت بلندیوں کو چھونے والے روشنی کے میناروں کی جگہ بدنیت بے علم اور شعبدہ باز نوجوان نسل کے لئے قابلِ تقلید مثالوں میں ڈھلنے لگے۔
اس سادہ لوح داستان گو نے سوگواری میں ڈوبے اس ماحول میں آنکھ کھولی اس ساری صورتِ حال کا احساس اسے کم عمری سے ہی ہو گیا اس نے ہوش سنبھالنے کے بعدایسی درس گاہ سے بنیادی تعلیم حاصل کی جہاں اس کی ریاست کے ہر علاقے کے بچے پڑھتے تھے اس کی تعلیمی درسگاہ ایسے شہر کے علاقے میں واقع تھی جہاں اس ریاست کے تمام مذہبی لسانی مسلکی گروہوں کے لوگ آباد تھے اس کے ہم جماعت طالب علم بھی اس ریاست کے ہر حصے سے تھے اس نے محسوس کیا کہ باقی لوگ مختلف رنگ نسل و جغرافیائی پس منظر کے باوجود معاشرے سے جڑے اور معاشرے اور ریاست کے بارے میں ان کی سو چ فرق جب کہ اس کے ہم مذہب ہم جماعت فرق سوچتے اسی سوچ کے ساتھ وہ بڑا ہوا اپنے زیادہ تر ہم وطنوں کی طرح محنت مشقت کے مختلف ادوار سے گزر کر وہ ایسی غیر تسلیم شدہ خدماتی صنعت سے وابستہ ہو گیا جس میں بہت زیادہ تعلیم وتربیت نہ ہونے کے باوجود بھی رزق حلال وافر مقدار میں موجود تھا لیکن ساتھ ہی اس صنعت میں اشرافیہ کی لوٹ مار کی کمائی کا پیسہ چھپانے کی سہولت کی بدولت بے تحاشا پیسے کی ریل پیل کی وجہ سے ناجائز طریقوں سے بے تحاشا پیسہ کمانے کے بھی مواقع موجود تھے۔اس کی زندگی میں ذرا سی خوشحالی آئی تو اس نے اپنے بچپن لڑکپن اور نوجوانی کے دنوں کے محسوس کئے ہوئے احساس معاشرتی بیگانگی کو اپنے تیئں حل کرنے کاسوچتے ہوئے مختلف تعلیمی اور اپنے ہم مذہب لوگوں کی مذہبی درس گاہوں میں جاتا اور اپنے ہم مذہب ہم وطنوں کو ادب کے ذریعے معاشرے سے جوڑنے کی کوشش کرتا رہا یہ مشقت دس سال اس سوچ کے ساتھ کی گئی۔کہ‘‘ کسی فرد کو اُس کے معاشرے سے جوڑنے کے لئے ادب سے بہتر کیا ذریعہ ہو سکتا ہے’’ وہ طالب علموں میں کُتب بانٹتا، ادب کی اہمیت اور معاشرے سے جڑنے کی تلقین کرتا لیکن اس میں اسے اپنے ہم مذہب ، ہم وطنوں معاشرے سے جوڑنے میں بری طرح ناکامی ہوئی پھر اُس نے اپنی اس فکر کا جائزہ لیا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ غلطی پر تھا کوئی بھی انسان اپنی ذات کی خود شناسی ، خود آگاہی اور اس معاشرے سے اپنی نسبت جانے بغیر کبھی بھی کسی معاشرے سے نہیں جڑ سکتا۔ لہٰذا اس نے داستان گوئی کے انداز میں اپنے ہم مذہب ہم وطنوں کو دھرتی سے اپنی نسبت پہچان کر اور اس ریاست کے قیامِ تعمیر اور دفاع میں اپنے اجداد کے کردار کو جان کر اس معاشرے سے جڑ کر اس میں ترقی کرنے کی تلقین شروع کی لیکن حالات دن بدن ابتر ہوتے رہے اور اس کے ہم عقیدہ ہم وطنوں کی معاشرتی بیگانگی بڑھتی گئی اور مذہب کے نام پر چند بین الاقوامی مفاد پرستوں و شعبدہ بازوں نے اس مذہبی گروہ کو معاشرے سے بیگانے کرنے کا عمل تیز کر دیا۔ پھر اس نے ان حالات کے بغور مشاہدے اپنے تجزیے اور زیادہ پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود اپنے مطالعے کی عادت کی بدولت جدید اور قدیم تاریخ میں ایسے حالات سے متاثر ہو کر چلنے والی فکری تحریکوں کے بغور مطالے سے یہ نتیجہ اخذ کیا اس رونے پیٹنے نے آج تک اگر اجتماعی طور پر کسی کو کچھ نہیں دیا۔ سوائے چند عوامی سطح پر رونے والوں کا خلوتوں میں ہنسنے کے سامان پیدا کرنے کے…… تو کیوں نا اس معاشرتی بیگانگی کو کسی اور زاویے سے دور کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب کئی دہائیوں سے جاری اس آہ زاری کے سبب لوگ صدمے مایوسی اور فرار کی ذہنی کیفیت میں ہیں اس کے باوجود سب لوگ ہجرت بھی نہیں کر سکے بلکہ جن کے نام پر آہ زاری کی جاتی ہے ان میں سے تو شائد کوئی بھی نہیں کر سکاکم تعداداور تاریخی طور پر ہر طرح کی پستیوں کی بدولت کوئی منظم سیاسی لڑائی بھی نہیں لڑی جا سکتی تو کیوں نہ ان کو کوئی ایسی فکر دی جائے جو سب کو قابل قبول ہو اور اس سوچ بچار سے وہ اس نتیجے پر پہنچا ‘‘کہ کوئی بھی فرد یا کمیونٹی کسی ایسے معاشرے میں ترقی نہیں کر سکتے جسے وہ جانتے نہ ہوں اور اپنا مانتے نہ ہوں’’۔ لہٰذا ہمیں اپنی نسلوں کو یہ چھ نکاتی سبق پڑھانا ہے۔‘‘تم اس دھرتی کے بچے ہو، آزادی وطن، قیام وطن، تعمیر و تشکیل وطن اور دفاع وطن میں آپ کے اجداد کا شاندار کردار رہا ہے۔ لہٰذا اپنے اجداد کے تعمیر و تشکیل اور خاص کر دفاع وطن میں قابل فخر کردار کو اپنی شناخت بناؤ اور دھرتی سے اپنی نسبت کو پہچان کر اس معاشرے کو سمجھ، جان اور اپنا مان کر اس میں فخر سے جیو اور اس معاشرے میں فکری شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی، معاشرتی،علمی،مذہبی تہذیبی و سیاسی ترقی کرو۔ پہلے پہل اس نے اسکول کالجوں میں جا کر داستان گوئی شروع کی وہ نوجوان طالب علموں سے مکالمہ کرتا کہ تم دھرتی کے بچے ہو آزادی وطن، قیام وطن، تعمیر و تشکیل وطن اور دفاع وطن میں تمہارا شاندار حصہ ہے لہٰذا اس معاشرے کی تشکیل میں اپنے حصے کو اپنی پہچان بنا کر شان سے جیو۔ساتھ ہی اس جزوقتی داستان گونے نے ایسی روشن مثالوں کی تلاش شروع کر دی ۔ جنہوں نے اس ریاست کی تعمیرو تشکیل کے ان پانچوں مرحلوں میں قابل قدر خدمات انجام دی تھی اور پھر ان سچی روشن مثالوں کو روشنی کے مینار بنا کر داستانوں کی صورت میں نوجوانوں کو سنانا شروع کیا ابتدا میں وہ تنہا تھا کیونکہ اس گروہ کے کچھ کامیاب افراد بے حسی کی بیماری میں مبتلا تھے اور نیک نیت بے سمت ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔ ادارے، سیاسی وسماجی تنظیمیں زیادہ تر حالات سے مجبور ہو کر محرومیوں کے کاروبار میں شامل ہو کر ماضی میں اپنے پیش روں کے شاندار ماضی کو بھول چکی تھیں۔لیکن پھر لوگ ملتے گئے اور اس امید نو کی نوید سنانے والوں اور فکر نو کو پھیلانے والوں کا قافلہ بنتا گیا۔
اس طرح اس نے پہلے تنہا اور پھر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ہی ذلتوں کے مارے، پسے ہوئے امتیازی رویوں اور قوانین کے وار سہتے معصوموں کی بے رنگ روحوں میں روشن مثالوں سے تیرگی کے اس ماحول میں ان کے سینوں میں عزم و حوصلے بھرنے اور اُمنگیں جگانی شروع کر دی اس کے قصوں کے کرداروں روشنی کے میناروں جو کہ سماجی استحصال و جبر کے نتیجے میں پھیلی مرثیہ گوئی کے غم زدہ ماحول کی دھند میں گہنا چکے تھے۔انہیں تاریخ کے اوراق سے نکال نکال کر صبر ریاضیت اور اس یقین محکم کے ساتھ ان روشن مثالوں سے فکری انقلاب آئے گا وہ جس روشن مثال کو حقائق و شواہد سے خوب چمکا لیتا اسے داستان میں ڈھالتا اور اس طرح نوجوانوں کے سامنے پیش کر دیتا۔ ان داستانوں پر شروع میں کسی نے توجہ نہ دی پھر ان مثالی داستانوں سے روشنی پھوٹنے لگی اور اس روشنی سے اندھیروں میں گھرے ہوئے ہم وطنوں کو کچھ راہیں دکھائی دینے لگی پھر اس داستان گو کے اسی مقصد سے لکھے ہوئے قصے اور داستانیں مقبول ہونے لگے اپنی داستانوں قصوں کے اثرات دیکھتے ہوئے اس نے ان بامقصد قصوں اور داستانوں کو کتابی شکلیں دینی شروع کر دیں ان کتابوں کے مثبت اثرات معاشرے میں پھیلانے لگے روشن خیال شہریوں اورحب الوطن مقتدر حلقوں نے بھی اس جدوجہد اور کوشش کو سراہنا شروع کیا تو احساس محرومی و احساس کمتری کے مارے ہوئے خاک نشینوں کو فخر کا احساس ہونے لگا اور وہ دھرتی اور معاشرے سے جڑنے لگے اس سے اسے وہ ظلمت شب کا شکار مسکینوں کے مرثیے پڑھتے نوحے کہتے اور سینہ کوبی کرتے اور ان کی محرومیوں کو بیچنے والے اُسے اور برے لگنے لگے کیونکہ وہ سوچتا اگر کئی دہائیوں سے جاری اس محرومیوں کے کاروبار میں کچھ مذہبی ، سماجی و سیاسی ادارے یا افراد ان خطوط پر سوچتے اور بجائے محرومیوں کو بیچنے کے اس طرف توجہ دیتے تو آج یہ خاک نشین ایسے نہ ہوتے ان کی کمزوریوں کے علاوہ ان کے پاس معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے کچھ توانائیاں بھی ہوتی۔ گوکہ اس نے اس معاشرتی بیگانگی کے مرض کی تشخیص کے لئے مرثیہ گوئی بھی کی لیکن وہ مرثیہ گوئی صرف مرض کی حقیقت پسندانہ تشخیص کے لئے تھی لیکن ان مرثیوں میں سے بھی اس نیگھٹاٹوپ اندھیروں میں سے نکل کر آسمانوں کو چھو لینے والے آفتابوں اور روشن ستاروں کے قصیدے نکال کر ان اندھیروں میں سے بھی واضح اور روشن راستوں کا کھوج لگا کر صبح نو اور امید سحر کی نوید سنائی لیکن ریاست کے ذمہ داروں کی بدنیتی ذاتی شان و شوکت کی خاطر لوگوں کو ہروقت ذہنی پسماندگی میں رکھنے کی پالیسی کی بدولت ہر چھ مہینے سال بعد کوئی ایسا طوفان آتا جس سے اس کے روشنی کے میناروں کی روشنی ماند پڑنے لگتی اور اس کے اس روشنی سے سجائی روشن راہوں میں اندھیرے بڑھنے لگتے روشن چاند تاروں کی روشنیوں میں کمی ہونے لگتی شہداء کے سرخ لہوؤں میں سفیدی جھلکنے لگتی اور خاص کر جب کوئی انتہائی غلاظت کو ٹھکانے لگانے والے سیوریج کے نظام کو رواں رکھنے کی کوشش میں اشرافیہ کے غیر انسانی بنائے ہوئے نظام کے ہاتھوں مجبور کسی گٹر میں اترتا اورپھرسسکتی زندگی کی بھیک مانگتا کسی مسیحا کی پاگیزگی کے خبط کے ہاتھوں اسپتال میں تڑپ تڑپ کر ہزاروں سال پرانے ذات پات کے شکنجے میں جکڑے معاشرے کے مکرو چہرے کی بدولت زندگی کی بازی ہار جاتا۔
کسی کو نفرت تعصب اور جہالت کی بدولت زندہ آگ کے شعلوں کی نظر کر دیا جاتا انسانی بستیوں کو لالچ ہوس زدہ، ذاتی عناد کسی غلط فہمی کو بنیاد بنا کر خاکستر کر دیا جاتا یا حکمران اور ریاستی ادارے ا پنے ہوس زر اور ہوس اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر معصوموں بے گناہوں کو کال کوٹھریوں میں ڈال دیتے یا ایسے واقعات جس میں اس کا کوئی ہم مذہب فاختہ صفت بے گناہ معصوم شہری نفرت کا ایندھن بن کر بھٹیوں میں جلتا یا مردار خور گدھوں کی صفت والے جعلی عقابوں کے ہاتھوں چیر پھاڑ دیا جاتا یا کسی علامتی خادم اعلیٰ کہلانے والوں کے زیر انتظام چلنے والی سرکاری انتظامیہ کے کسی ذہنی مریض کے وحشیانہ تشدد سے گھبرا کر کوئی خود کشی کی کوشش کرتا تو اسے اس کرب کا سوچ کر خوف آتا جس سے کوئی انسان زندگی کو موت پر ترجیح دینے سے پہلے گزرتا۔ ایسے موقعوں پر رونا پیٹنا، مرثیہ گوئی، نوحہ گری اور محرومیوں کی خرید فروخت میں تیزی آ جاتی اس کا دل بھی دہل جاتا ۔ اسے لگتا اس کی ربع صدی کی یہ تپسیا ضائع گئی بلاوجہ اس نے اپنے بیوی بچوں کا وقت اور ان کے حصے کے وسائل اس کار ضیاع میں لگا دیئے کیونکہ اس کا روزگار ایک ایسی خدماتی صنعت سے وابستہ تھا جس میں رزقِ حلال بھی وافر ملتا تھا اور بڑی معمولی تگ ودو سے اپنے خاندان کے لئے بے تحاشا وسائل اکٹھے کئے جا سکتے تھے۔ لیکن اس کے شوق کو مقصد بنا کر شروع کئے گئے کام نے جب جنون کی صورت اختیار کر لی تو اس کا کام بھی خاصا متاثر ہونے لگا لیکن مثبت نتائج کی بدولت اسے کبھی پچھتاوا نہ ہوتا لیکن ایسے واقعات اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے۔ کہ اس کے جنون کو چھوتے اس مقصد کی بدولت اس نے اپنا اور اپنے خاندان کا بہت بڑا نقصان کر لیا ہے کیونکہ اگر ذاتی نقصان سے کوئی اجتماعی فائدہ حاصل ہو جائے تو انسان کو جو راحت اور خوشی ملتی ہے وہ ناقابل بیان ہے اور یہ احساس کہ میرے وسائل اوروقت بہت سوں کی فکری و شعوری آگاہی کا باعث بنا ہے انسان کو احساس ندامت کی بجائے روح کی تسکین ملتی ہے۔لیکن ذاتی نقصان کرنے کے باوجود اگر اجتماعی فائدہ بھی نہ ہو تو پچھتاوے انسان کو کھانے لگتے ہیں گو کہ اس کا خاندان اس کے اس جنون کو بڑا مقصد قرار دیتا اور اس وقت تک اس کے نتائج بھی انتہائی شاندارتھے یہ نتائج کبھی کبھار اس درویش صفت انسان کو انسانی کمزوری خود نمائی کی بدولت خبط عظمت میں بھی مبتلا کرتے لیکن وہ ان سنپولیوں کو کبھی بھی زیادہ دیر اپنے دماغ میں کلبلانے نہ دیتا بس وہ اپنے مقصد اور لگن میں مست تھا۔ لیکن ایسے واقعات کی بدولت اسے یہ سوچ کر جھرجھری آجاتی ہے کہ لاحاصل مشقت کا خراج کہیں اس کا خاندان نہ ادا کرے اس نے کیوں یہ راستہ منتخب کیا اس نے وہ مواقع چھوڑ کر کفران نعمت تو نہیں کیا جس سے کہیں کم مالی فوائد کیلئے لوگ اپنے آپ اور قوموں کی قومیں بیچ دیتے ہیں۔
گو کہ وہ ہمیشہ انہیں بُرا کہتا جو ظلمت شب کاشکار ہونے والوں کے مرثیے پڑھتے سینہ کوبی کرتے اور ان کی محرومیوں کو بیچتے کیونکہ اس نے اس مرثیہ گوئی سے بھی فرید الدین عطار کے ہد ہد کی طرح عزت وقار کی منزل پانے کے لئے اس مرثیہ گوئی سے بھی دلیلیں نکالی اور خاکستر ہوتے معصوم پرندوں کی راکھ سے بھی توانا سنہری ققنس اڑنے کی نوید سنائی اور اس ٹھنڈی ہوتی راکھ میں سے چنگاریاں نکال کر آفتابیاں نکالی مرثیے گوئی میں سے انہیں ان آفتابوں اور روشن ستاروں کے قصیدے سنائے جو چمکے اور چمک کر افق پر ایک روشن لکیر چھوڑ گئے اس نے ہمیشہ ظلمت و تیرگی کے گھٹا اندھیروں میں بھی واضح اور روشن راستوں کا کھوج لگا کر امید سحر کی نوید سنائی اور ذلتوں، پستیوں اور محرومیوں کو جھٹکنے کا درس دیا ۔ لیکن ایسے گھناونے واقعات کے نتیجے میں اس کے اعصاب پر بھی پہلے صدمہ، مایوسی پھر خوف اور پھر خوف سے ایسا غضبناک غصہ پھوٹتا جو انسان کے دل دماغ میں خون کو اُبال دیتا ہے اور یہ غصہ اور انتقام کا جذبہ بڑے بڑے عقلمند انسانوں کو بھی پاگل دیوانہ اور تعصب زدہ کر دیتا ہے اوروہ تو ایک سادہ جزوقتی داستان گو جو اپنی فکر دانش کی بجائے سچی روشن مثالوں سے جگنو اور روشنیاں بانٹتا اس پر بھی غصہ طاری ہو جاتا غم اس پر حاوی ہو نا شروع ہو جاتا۔ صبر کی جگہ انتشار لینا شروع کر دیتا حوصلہ ڈوبنے لگتا اس کے اعصاب چٹخنے لگتے اور اس کے وجودمیں کشمکش شروع ہو جاتی۔ اس میں مرثیہ گو نوحہ گروں اور سینہ کوبی کرتے گروہوں میں شامل ہونے کی خواہش مچلنے لگتی اور اس کا دل کرتا وہ ان گروہوں میں شامل ہو کر ایسی نوحہ گری کرے کہ طوفان نوح آ جائے نابغہ روزگار شاعر منیر نیازی کی خواہش اس کے سینے میں مچلنے لگتی۔
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمین پر اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسمِ قاہری
اس دل کو اب اس کی سزا دینا چاہیے
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ٹھہرا دینا چاہیے
وہ دل گیرہو کر بجھ سا جاتا اسے لگتا اس کی پوٹلی کے سارے چاند ستارے جعلی ہیں ان کی روشنیاں مصنوعی ہیں اس کے خزانے کے پارس ایسے ہیں کہ وہ سونے کو بھی چھو کر مٹی کر دیں۔ اس کا دل کرتا مرثیہ گوئی کرے اور ایسی کرے۔ کائنات کا سینہ پھٹ جائے ظالموں کے کلیجے دھل جائیں درندوں کی خوف سے گھگھی بندھ جائے اور مردار خورگدھ نما جعلی عقاب معصوم فاختاؤں اور چڑیوں کی چیر پھاڑ بھول کر اپنی بقا کے بین کرنے لگیں اور سرزمین پاک بہار صحرا کے نتیجے میں اٹھنے والے طوفانوں کے نتیجے میں ملیا میٹ ہوتی ریاستوں کی طرح انارکی کا شکار ہو کر فنا ہو جائے۔ پھر غم اسے کہتا وہ لکھو جسے شاعر مشرق نے بھوک سے بلکتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقان کو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
ایسے واقعات کے نتیجے میں وہ بھی ایسا ہی کچھ کہنا چاہتا
جس دیس میں دھرتی کے بچے نہ ہوں محفوظ
اس دیس کو لگے آگ اس دیس کو کھائے باڑھ
کبھی غم اسے منیر نیازی سے خیالات مستعار لے کر یہ کہنے پر اکساتا
اس وطن کے سنگ دل حکمرانوں کو جلا دو
پھر ان کی راکھ کو بھی فضاؤں میں اڑا دو
لیکن حالات کے اس سارے جبر سے متاثر مرثیے گوئی کی شدید خواہش کے باوجود وہ اپنے امید سحر اور صبح نو کی نوید سناتے نغموں کو وہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور روشن ستاروں کی قصیدہ گوئی ترک نہ کرنا چاہتا تھا مہک دار گھونسلوں میں نغمہ مرگ گاتے راکھ ہوئے ققنسوں کی راکھ سے توانا سنہری ققنس اڑنے کے خواب مرثیہ گوئی کی نظر نہ کرنا چاہتا تھا اسی کشمکش میں کبھی درندوں کی طرح سوچتا کہ کس طرح مردار خوروں کے سہولت کار بائیس، تیس، تیس سکے کمانے والوں نام نہاد مذہب کے نام پر عوامی نمائندوں کے آقاؤں، ہوس زدہ اقتدار کے پجاریوں کو چیر پھاڑ کھائے ان کے کپڑے بھی بیچ چوراہوں میں اتار کر انہیں ننگا کر دے یا ان سب کے بین الاقوامی آقاؤں مالکوں کے منافقتوں بھرے چہروں کو کل عالم میں بے نقاب کرے یا مردار خور گدھوں کو جعلی عقابوں کا روپ دینے والی قوتوں سے ٹکرا جائے پھر اسے نظر آتا کہ اگر بائیس ، تیس، تیس سکے کمانے والوں (علامتی چہروں اور کرداروں جن کی تعداد اور چہرے پر زمانے اور وقت کے اعتبار بدلتے رہتے ہیں)ان کے ہوس زر و اقتدار میں مبتلا ان کے آقاؤں اور مردار خور گدھوں کو جعلی عقابوں کا روپ دینے والی قوتوں کی کوتا اندیشوں اور لالچ ہوس زر و اقتدار کے نتیجے میں اگر عرض پاک بہت سوں کے خیال میں(خاکم بدہن) بہت جلد خون میں ڈوب کر ملیا میٹ ہوتی نظر آتی ہے۔ تو میں کیوں اس کا حصہ دار بنوں ۔میں اس کو محفوظ رکھنے میں کوشاں حب الوطن دھرتی کے انسان دوست شہریوں کا ہم نوا کیوں نہ بنوں جو اس ریاست کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے امین ہیں جو ان دس لاکھ جانوں کی قربانیوں کو نہیں بھولے جو اس ریاست کے قیام کے لئے دی گئی اور وہ روشن خیال اور نیک دِل شہری جو حالیہ جنگ کے نتیجے میں اس معاشرے کو خوبصورت بنانے کی کوشش میں اپنے ہی لہو میں ڈوب گئے لیکن پھر اسے خیال آتا کہ وہ ان معصوم فاختاؤں، چہچہاتی چڑیوں کے چیر پھاڑ میں ملوث ہوس زر و اقتدار کے اسیر دیدہ و نادیدہ درندوں اور ان کے حالیہ علامتی اس لئے کہ ہر دور میں ان کی تعداد اور چہرے بدلتے رہتے ہیں ۔ بائیس، تیس، تیس سکوں کے عوض بکنے والے غلاموں کے خلاف مزاحمتی مرثیہ گوئی نہ کرکے کہیں مجرم تو نہیں لیکن پھر وہ نوید سحر اور صبح نو کی امید سناتے نغمے اور درخشندہ روشن ستاروں کی روشنی سے روشن راہوں کی نشاندہی کے مشن کا تقابلی جائزہ لیتا تو اسے مرثیہ گوئی کے نتیجے میں ایک آدھ معصوم فاختہ صفت شہری کی موت پر گریہ زاری کے نتیجے میں کچھ حاصل نظر نہ آتا۔ چند مفاد پرستوں کی واہ واہ دیار غیر کے رابطے اور تیس تیس سکوں کے عوض بکنے اور دین امن کے ساتھ ہی پیامبر امن کو تیس سکوں میں بیچنے کی روایات کی آبیاری ہوتی نظر آتی۔ بے تحاشا سماجی،مذہبی و سیاسی راہنماؤں کی فوج تیار ہوتی نظر آتی لیکن روشن راہوں کی نشاندہی سے سب معصوم فاختہ صفتوں کی جانیں بچا کر ان کے لئے ان کے آباو اجداد کے دیس میں عزت وقار سے جینے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔پھر اس کا دل کرتا وہ اپنے اس سارے منفی انتشار غم غصے کو بھی چھوڑے اور اپنی ربع صدی کی مثبت مقاصد کے حصول کیلئے کی گئی تپسیا بھی چھوڑے اس تپسیائی کی بدولت حاصل شدہ نتائج کو بھی چھوڑے اپنے اس جنون پر بھی قابو پائے اور اگر کہیں خبط عظمت کے سنپولیے اس کے لاشعور میں پرورش پا رہے ہیں تو انہیں بھی کچل دے اور بے حسی کی دبیز سیاہ چادر اوڑھ کر اپنے روزگار میں جُٹ جائے اور اپنے اور اپنے خاندان کے لئے وسائل کے انبار لگائے۔
ایسے میں حوصلہ دلیل دیتا اسکول کے ان معصوم بچوں کے بارے میں سوچو جنہیں بارود میں اڑا دیا گیا جنہیں حلال پرندوں کی طرح ذبح کیا گیا جن کے سامنے ان کی معلمہ کو شعلوں میں مرغ بسمل کی مثال بنا دیا گیا اگر ان معصوم بچوں کے والدین نے اگر ایسی خواہشات کی ہیں تو پھر تو جائز ہے لیکن اگر وہ بھی اتنے غصے میں نہیں جتنے تم ہو تو پھر تُف ہے تم پر اے غم زدہ انسان کیاان مظلوموں کے والدین بھی تمہاری طرح سوچتے ہیں۔ جنہیں ہوس زر کے پجاریوں نے عقوبت خانوں میں سسکا سسکا کر اور تڑپا تڑپا کر موت کی وادیوں میں دھکیلا ہے ۔
غم اور غصہ کہتے ہمیں اس سے کیا لینا دینا حوصلہ اور فہم کہتے اسی لئے ہماری یہ حالت ہے ہمیں ایک دوسرے سے کوئی لینا دینا نہیں غم و غصہ کہتا میں یہاں5ہزار سال سے اس دھرتی کا واسی ہوں اور یہ موجودہ ریاست میری دھرتی پر بنی ہے پھربھی اس ریاست میں دو نمبرشہری ہی ہوں ہمیں بھی ہجرت کرنی ہے تاکہ جیسے70سال پہلے یہاں ہجرت کرکے آنے والے وطن کے حکمران بنے بیٹھے ہیں ہم بھی کہیں5سات سال کی ذلت سہہ کر عزت دار شہری بن جائیں حوصلہ کہتا ہجرت کرو، عزت وقار سے کرو بے توقیر ہو کر نہ کرو۔ غم و غصہ کہتا آؤ سڑکوں پر سیاسی جنگ کرتے ہیں جیسے اس ریاست کے دوسرے مظلوم قبیلوں والے لڑ رہے ہیں حوصلہ و تدبر کہتا وہ ایک ہیں تم دین مسیحیت جو کہ عالمگیریت کی شناخت ہے کے پیروکار ہونے کے باوجود اپنی کتاب کی ایک ایک آیت پر بٹے ہوئے ہو۔ اتنے تمہارے اپنے گھر نہیں جتنے تم نے اپنی اپنی بقا شکم کے لئے خدا کے گھر بنا لئے ہیں اتنے تمہارے ووٹ نہیں جتنے تمہارے لیڈر ہیں۔70سال میں اپنی گنتی نہ کر سکنے والے بلکہ گنتی پر متفق نہ ہونے والے سڑکوں پر نکل کر کیا کرسکتے ہیں اپنی ترجیحات طے کرو شناخت اور حقوق کی جنگیں ہمیشہ فہم و فراست سے لڑی جاتی ہیں۔ جیسی فکری و ذہنی انارکی کا تم شکار ہو ایسی انارکیاں تو سلطنتیں تباہ کر دیتی ہیں تم تو چند لاکھ لوگوں کے بے تحاشا چھوٹے چھوٹے گروہ ہو۔ جو صرف اپنے اجداد کی بدولت بلکہ اجداد بھی نہیں اس خطے میں مسیحیت کے بانیاں کی بدولت قابل ستائش ہو ۔ورنہ اپنے گریبانوں میں جھانکو اور دیکھو تمہارے پلے ہے کیا؟
اتنے تمہارے سماجی گروہ نہیں جتنے تمہاری سماجی بھلائی کے ادارے اور اشخاص ہیں سوچو پھر بھی پستیوں کا شکار کیوں ہو؟غم و غصہ مایوس ہو کر کہتا بتاؤ ان گھپ اندھیروں سے کیسے نکلیں؟ حوصلہ کہتا صدمے مایوسی اور فرار کی ذہنی کیفیت سے نکلنے کے لئے آؤ اپنی خود احتسابی کریں اس ریاست سے اپنا حصہ لینے کے لئے اپنی کمزوریوں ، طاقتوں، مواقعوں اور خطرات کا تخمینہ لگائیں ریاستی طاقت حاصل کرنے کے مراکز میں داخلے کی اپنی طاقتوں، فزیکل ،ریاستی ، نظریاتی،عددی، مالی اور روایاتی اہلیت کا اندازہ لگائیں پھر اس کے مطابق فہم و فراست سے کسی ایک نقطے پر متفق ہو جاؤ کوئی متفقہ منزل کا تعین کرکے اس کے حصول کی کوشش اور ترجیحات طے کرو پھر ان ترجیحات کے مطابق اپنے اہداف مقرر کرو لاکھوں کی گنتی نہیں کر سکتے۔ بلکہ گنتی پر متفق نہیں ہو سکتے تو نہ سہی مذہبی انتشار سے سیاسی قحط الرجحالی سے چند ہزار روشن مثالوں کی تو گنتی کر لوں اس دھرتی سے اپنی نسبت اور معاشرے کو بنانے سجانے سنوارنے اور اپنے لہو سے سینچنے والوں کی داستانوں کو اپنی نسلوں میں منتقل کرو روشنی کے میناروں سے ان کی راہوں میں پھیلے اندھیروں میں امید کے دیئے جلاؤ۔ پہلے خود احتسابی اور خود شناسی کرو پھر اپنی کمزوریوں اور طاقتوں کے تخمینے لگاؤ اس کے مطابق اپنے اہداف مقرر کرو۔
اس کے باوجود غم مرثیہ گوئی پر اُکساتا لیکن حوصلہ دلیل دیتا غموں کو حوصلے تدبر اور وقار سے جھیلتے فرد قبیلے قومیں ہی سنبھلتی ہیں غم کہتا تم بزدل ہو حوصلہ کہتا میں عقابوں اورکرگسوں کے دیس میں ققنس ہوں، غم کہتا ڈوب مرو، حوصلہ کہتا میں اپنے نغمہ مرگ سے جل کر نئے ققنس پیدا کروں گا۔ غم کہتا ہماری بقا مرثیہ گوئی اور سینہ کوبی اور خود رحمی میں ہے۔ حوصلہ کہتا دیکھو غموں کے طوق گلوں میں ڈالے لوگ کیسے زمانوں میں رسوا ہیں اور آج بھی اپنی خود احتسابی کرنے کی بجائے اقوام عالم کو اپنی ذلتوں کی وجہ قرار دینے والے کس طرح سب کچھ ہونے کے باوجود انارکی کا شکار ہیں۔ حوصلہ وصبر مزید دلیل دیتا کہتا دیکھو یاتو سارے اپنے آبا کی سرزمین سے ہجرت کر جاؤ یا لڑ مرو لیکن معروضی حالات بتاتے ہیں یہ دونوں راستے صحیح اور ممکن بھی نہیں تو پھر اس شناخت کو اجاگر کرو اور اپنا حق حقائق شواہد کے ساتھ مانگو اور اپنی نسلوں کو بھی حوصلے صبر تدبر سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے تیار کرو انہیں بتاؤ تم دھرتی کے بچے ہو جو صدیوں سے اس دھرتی کے واسی ہو آزادی کے سپاہی ہو قائد کے ہمراہی ہو قوم کے معمار ہو، وطن کے سپاہی ہو قابل فخر قابل دید ہو، محافظ غازی اور شہید ہو، شہداء کے وارث ہو حیدران کے ساتھی ہو جرات بسالت کے نشان ہو۔ غرض اپنی ریاست کے سبزو سفید ہلالی پرچم کی شان ہو اس کے چاند تارے ہو بس دھرتی سے اپنی اس نسبت اپنی اس شان پہچان وقار اور اس سارے ورثے کی شناخت خود بھی کرو بلکہ نوجوانوں کے دل و دماغ پر ثبت کر دو یہ شناخت تاکہ وہ اپنی اس قابلِ فخر شناخت کو دوسروں سے بھی منوا سکیں آؤ اپنے شہداء وطن کے لہو سے اس تیرگی میں دیئے جلاؤ اور اپنی خود شناسی سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بناؤ اور احساس دلاؤ اپنے ہم وطنوں کو…… تم بھی وارث ہو اس سرزمین کے غم اور غصہ کہتا سب لوگ اتنے صبر حوصلے اور تدبر والے نہیں ہوتے حوصلہ اور صبر کہتا سب نہیں ہوتے لیکن جو میرِ کارواں ہونے کے دعویدار ہیں انہیں تو یہ سبق سیکھ لینا چاہیے وہ کیوں ان کی محرومیوں کا کاروبار کرتے ہیں اور جو ہجرت کر گئے ہیں وہ فہم و فراست سے ان کے مسئلے اجاگر ضرور کریں لیکن دیار غیر میں بیٹھ کر ہمارے لئے مسائل تو نہ پیدا کریں اور اگر خلوص نیت سے کچھ نہیں کر سکتے تو پھر لاتعلق ہو جائیں اورجوپرخلوص ،نیک نیت ہیں وہ بدنیت اور بے علموں کو بھی لگام ڈالیں کیونکہ دیار غیر میں بسنے والے یہ نیک نیت پاکستانی مسیحی ان چند لاکھ فکری، شعوری، تعلیمی، معاشی، سماجی ، معاشرتی ،علمی اورتہذیبی طور پر پسماندہ لوگوں کیلئے بہت بڑا اثاثہ اور سہارا ہیں ورنہ معاشرتی ناانصافی پر مبنی معاشروں میں کمزور کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے بس انہیں یہ سمجھائیں جب کوئی سانحہ ہو جاتا ہے تو اسی وقت وہ مصیبت کے شکار افراد کو چارہ نہ بنائیں بلکہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کریں ان کی داد رسی کی وہ پھر چاہے عزت دارانہ ہجرت کا کوئی منصوبہ ہو یا اجداد کی زمینوں پر بحالی کے منصوبے ہوں بس ایسے نہ ہوں جس میں صدمے مایوسی اور فرار کی کیفیت پیدا ہو بلکہ کسی منزل کا تعین اور منزل حاصل کرنے کی جدوجہد کی نشان دہی ہو اوروقتی سہولت کاری ہو اوریہ خود انحصاری سے مشروط ہو بیچارگی اور بھکاری پن کی دائمی بیماری نہ ہو اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر لاتعلق کیوں نہیں ہو جاتے ان سے اگر نیک نیتی سے ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ان مسکینوں کو ان کے حال پر کیوں ان خاک نشینوں راندۂ درگاہ خود رحمی، احساس کمتری و احساس برتری کے پاٹوں میں پسے ہوئے ہم وطنوں کی روشن مثالوں کو بھی اندھیروں میں گم کرتے ہیں اور اپنی محرومیاں بیچنے کی تجارت سے کیوں زہر بھرتے ہیں ان کی زندگیوں میں ان گھپ اندھیروں میں ان فلک کو چھوتے روشن میناروں سے کیوں اجالے نہیں اُبھرتے ان کی زندگیوں میں اس طرح غم کی مرثیہ گوئی کے مقابلے میں حوصلے کی امید سحر کے نغمے گانے کی دلیلوں سے حوصلہ جیت جاتا۔
اور وہ جزوقتی سے کل وقتی داستان گو اورپھرایک فکری تحریک کے رضا کار میں ڈھلتا اور مثبت مقاصد کے لئے داستان گوئی کرتا سادہ لوح داستان گو پھر معصوم فاختہ صفت شہریوں کی موت سے بوجھل دل ، نڈھال جسم میں سے غم اور غصے کو جھٹک کر نئے عزم اور حوصلے سے وہ اپنے سہمے ہوئے صدمے مایوسی سے نڈھال مردہ دل نہ ہجرت کی نہ فرار کی طاقت رکھنے کے باوجود ہر وقت فرار کا سوچتے مردہ دلی سے اپنے آبا کی سرزمین پر زندگی گزارتے معصوم فاختہ صفت خاک نشین ہم وطنوں کے لئے اُمیدِ سحر کی نوید سناتے روشن چاند ستاروں کی تلاش میں اس تحریک سے نکل پڑتا۔کہ خود شناسی وخود آگاہی ہی ان فقیروں پر اسرار شہنشاہی افشاں کرکے ان کے لئے ان کے آبا کی سرزمین پر عزت سے جینے کے اسباب کرے گی۔

“دھرتی جائے کیوں پرائے “سے اقتباس

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply