• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • صرف مغرب کے ساتھ رہنے کی آزادی ہے۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

صرف مغرب کے ساتھ رہنے کی آزادی ہے۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

روس اور یوکرین کا تنازع پوری دنیا کے میڈیا اور سفارتکاری کو اپنی لپٹ میں لیے ہوئے ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ مغرب نے یوکرین کی اونرشپ لے لی ہے اور وہ اس تنازع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ مغرب کی اس پالیسی کا عکاس بھی ہے، جس میں وہ اپنے بارڈرز سے دور اپنی جنگ لڑتے ہیں۔ اس بار صورتحال قدرے بدل چکی ہے، اب جنگ اگرچہ یورپی یونین میں تو نہیں مگر اس کے بارڈر پر ضرور پہنچ چکی ہے۔ میں نے پچھلے کچھ دنوں میں مغربی میڈیا کے اردو سیکشنز کا جائزہ لیا تو یہ بات کمپین کی طرح نظر آئی کہ مغربی میڈیا خبر نہیں دے رہا کہ پاکستان یوکرین کے ساتھ ہے، روس کے ساتھ ہے یا غیر جانبدار ہے بلکہ وہ پاکستان کو یہ بتا رہا ہے کہ اسے کہاں ہونا چاہیئے؟ جو ان کے خیال میں فقط اور فقط مغرب کی ہاں میں ہاں ملانا ہے۔ پہلے چند روز تو سفیروں کیخواہش کہ پاکستان کو یوکرین کا ساتھ دینا چاہیئے، جیسے سوفٹ دباو کے بیانات کی ترویج رہی۔ جب اس سے بات نہیں بنی تو مغرب پرست دانشوروں کی آراء لے کر دباو ڈالا گیا، جب اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا تو مغرب کے ساتھ نہ ہونے کے نقصانات گنوانے کا دور چل رہا ہے۔

یعنی اگر دنیا کا کوئی ملک یہ پالیسی بنا لے کہ بھئی ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے تو آپ اسے دشمن ملک سمجھ لیں گے؟ کیا پاکستان اور مغرب کا اس طرح کا کوئی معاہدہ ہے کہ ہم جنگ کی صورت میں مغرب کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ آج آپ ہم سے یہ امید رکھ رہے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں تو کیا آپ پنسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔؟ آپ نے سوویت یونین کے خلاف ہمارا استعمال کیا، بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ آپ پھر افغانستان پر حملہ آور ہوئے اور کولن پاول نے ہمیں پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی، جنرل مشرف صاحب نے آپ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ نتیجے میں ہمیں کیا ملا؟ ستر ہزار لاشیں اور تباہ حال معیشت؟ اس کے ساتھ ساتھ واشنگٹن سے جاری ہوتے منافقت کے سرٹیفکیٹ کہ ہم ڈبل گیم کر رہے ہیں؟ اور ہاں کیا آپ نے ہمارا ساتھ دیا ہے؟ ہم کشمیر پر دسیوں بار آہ بکا کر کرکے تھک گئے؟ آپ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کا بیان دینا بھی گوارا نہیں کیا۔

جسے یورپ تشدد پسندی کہتا رہا اور جس کے خلاف انسانی حقوق کے نام نہاد ادارے رپوٹیں جاری کرتے رہے، وہی کام اب یوکرین میں کیا جا رہا ہے اور یورپ اسے حب الوطنی اور جمہوریت پسندی جیسے خوبصورت نام دے رہا ہے۔ کل ہی ایک بڑے چینل پر ویڈیو چل رہی تھی کہ یوکرین میں لوگ یوٹیوب سے ٹینکوں کا راستہ روکنے کے آلات بنانے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ پھر ایک طرح سے ٹینک روکنے کے لیے آلات بنانے کی بڑے سوفٹ طریقے سے آگاہی فراہم کر دی گئی تھی کہ یہ کام یوں کیا جاتا ہے۔ ایک سٹوری ترکی ڈرون کی واہ واہ پر مبنی ہے، جسے خوب پھیلایا جا رہا ہے کہ ڈرونز بہت ہی اعلیٰ کردار ادا کر رہے ہیں اور روسی افواج کو بھاری نقصان پہنچا چکے ہیں۔ ساتھ میں یہ خبر بھی دے دی گئی تھی کہ ترکی سے مزید ڈرونز بھی مل چکے ہیں۔ اس سے اور کچھ ہو یا نہ ہو، ترکی کے ڈرونز کی پبلسٹی ضرور ہو رہی ہے، نتیجے میں ترکی کو کافی سارے آرڈرز مل جائیں گے۔

ایک اور اہم چیز ایسی خبروں کو آئیڈیالائز کرنا ہے، جس میں لوگ یوکرین جنگ میں شرکت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی بی بی سی پر ایک سٹوری گردش کر رہی ہے، جس میں ایک انڈین نوجوان کی بظاہر فوجی بننے کی خواہش اسے یوکرین لے گئی اور اب وہ روس سے جنگ کر رہا ہے۔ پیمانے کیسے تبدیل ہوتے ہیں، اس کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ یورپ یا دیگر ممالک سے افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والے بین الاقوامی دہشتگرد تھے اور یوکرین جا کر لڑنے والوں کی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ خبر بھی چلوائی گئی تھی کہ افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے والی پرائیویٹ کمپنی کے سپاہی یوکرین جانے کے لئے آمادہ ہیں۔ اسی طرح یہ ہوائی بھی اڑائی گئی کہ یورپ سے نوجوان یوکرین کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے طے کردہ پیمانوں کو اپنے مفادات کے لیے کیسے بدلہ جاتا ہے، یوکرین جنگ اس کی بہترین مثال ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے مغرب آزادی کا بڑا مبلغ ہے، دنیا بھر میں آزادی کے لیکچر دیتا ہے اور آزادی کا نعرہ سب سے زیادہ مغرب میں بکتا ہے۔ خیر کچھ لوگ تو بڑے خلوص کے ساتھ اس پر کام کرتے ہیں، مگر پالیسی ساز اربوں ڈالر اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہی خرچ کرتے ہیں۔ یہ ادارے بین الاقوامی رائے عامہ کو مغرب کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ عام قاری اتنی بار مغربی بیانیہ دیکھتا، سنتا اور پڑھتا ہے کہ اسے وہی درست لگنے لگتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمیں سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے، مغرب کا آزادی کا نعرہ دراصل یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اور ممالک آزادی کے ساتھ صرف مغرب کی حمایت میں سوچ سکتے ہیں، مغرب کے خلاف سوچنے والا آپشن دستیاب ہی نہیں ہے۔ ابھی رپورٹ آہی گئی، امریکی انٹیلیجنس نے خبر لیک کی ہے کہ مودی حکومت میں کسی بھی واقعہ پر جنگ والا آپشن اختیار کرنے کا خدشہ کسی بھی سابقہ انڈین حکومت سے زیادہ ہے۔ لو جی اور کر لو آزاد پالیسی کی باتیں، اس رپورٹ کا بظاہر پاکستان کی یوکرین پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے، مگر ہر چیز بڑی واضح ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply