مکڑی جال کا جُلاہا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

باغ میں لیمپ پوسٹ کے نیچے
ایک جھاڑی کے پتوں میں پیوست
ایک جالہ ہے، سیمگوں، زر باف
کسی مکڑے کی زیرکی کا فسوں
اہلیت، اختراع، استادی
اور مہارت کا پُر کشِش چکمہ!
رات کو لیمپ پوسٹ کے نیچے
اک ضیافت کا خوان سجتا ہے
روشنی کی کشش میں ٓاڑتے ہوئے
جال میں کیڑےپھنستے رہتے ہیں
را ت بھر مکڑا کھاتا رہتا ہے
اور دن کاٹتا ہے سوتے ہوئے!

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھ کو مکڑے سے کوئی بیر نہیں
پوچھنا ہے تو صرف اتنا ہی
جال کی بافت اور اس کی غرَض
نسل ِ آدم کو اس کے پُرکھوں نے
کیسے سکھلائی تھی مہارت سے؟
فرق اتنا ہے، مکڑے کی خوراک
اُڑنے والے والے پتنگے ہیں، کیونکہ
مکڑا مکڑے کو کھا نہیں سکتا
آدمی اپنا پورا اَٹ سَٹ جال
آدمی کے لیے ہی بُنتا ہے!!
۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
۱۹۸۵

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply