گئے دنوں کی یادیں (13)۔۔مرزا مدثر نواز

پی ٹی وی پر شام چھ بجے پندرہ منٹ کے لیے انگلش نیوز پیش کی جاتیں جس میں نیوز اینکر اکثر شائستہ زید ہوتی۔ آدھا گھنٹہ دورانیہ کا فہم القرآن پروگرام بھی بہت معلوماتی ہوتا جس میں کافی عرصہ مشہوراسلامی سکالر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک نے علم کے موتی بکھیرے۔”سکندر برصغیر میں“ ایک نہایت ہی معلوماتی ڈاکومنٹری پروگرام تھا جس میں میزبان سکندر کے اپنائے گئے راستوں پر جا کر تاریخ کے اوراق پلٹتا۔ سات سے آٹھ بجے کے ڈرامہ میں ”سونا چاندی“ بہت مشہور ہوا۔ اندھیرا اجالا بھی پی ٹی وی کا شہرہ آفاق ڈرامہ ہے جس نے اس میں کام کرنے والے کئی کرداروں کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔دلدار پرویز بھٹی کا پنجابی پروگرام ”پنجند“ بھی خاصا مقبول تھا جس میں انعام کے طور پر اڑھائی و پانچ کلو کے بناسپتی گھی کے ڈبے بھی دیے جاتے تھے۔ آٹھ سے نو بجے تک لگنے والا ڈرامہ سارے گھر والے اکٹھے دیکھتے‘ جو زیادہ تر تیرہ اقساط پر مشتمل ہوتا اور ہفتہ میں صرف ایک قسط دکھائی جاتی۔ ان ڈراموں کے کردار اکثر بہت مشہور ہوتے۔ اس دور کے مشہور ڈرامہ سیریل جو مجھے یاد ہیں‘ الف نون‘ ان کہی‘ ففٹی ففٹی‘ گیسٹ ہاؤس‘ وارث‘ دھواں‘ راہیں‘ دشت‘جنجال پورہ‘ برادری ہوٹل‘ فیملی فرنٹ‘ انگار وادی‘ دل آویز‘ انوکھا لاڈلہ‘ نیلام گھر یا طارق عزیز شو‘ ہائے جیدی‘ خواجہ اینڈ سن وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک قسط پر مشتمل ڈراموں میں ”قرآۃ العین“ تو سدا بہار ڈرامہ ہے۔ اس دور کے مشہور اداکاروں میں علی اعجاز‘ قاضی واجد‘ طلعت حسین‘ خیام سرحدی‘ نجیب اللہ انجم‘ مسعود اختر‘ قوی خان‘ جمیل فخری‘ عرفان کھوسٹ‘ معین اختر‘ محمود اسلم‘ نعمان اعجاز‘ توقیر ناصر‘ وسیم عباس‘ سلیم و جاوید شیخ‘ بہروز سبزواری‘ اسماعیل تارا وغیرہ شامل ہیں جبکہ اداکاراؤں میں عتیقہ اوڈھو‘ زیبا بختیار‘ بشریٰ انصاری‘ ثانیہ سعید‘ شگفتہ اعجاز‘ لیلیٰ زبیری‘ سویرا ندیم‘ مشی خان‘ سیمی زیدی‘ ماریہ واسطی‘ ماہ نور بلوچ‘ غزل صدیقی‘ عارفہ صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔
رات نو بجے والے خبرنامہ سے پہلے ایک حدیث بیان کی جاتی‘ ان میں سے ایک حدیث آج بھی یاد ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ”جائیدادیں اور جاگیریں نہ بناؤ‘ اس طرح تم دنیا ہی کے ہو کر رہ جاؤ گے“۔ خبرمانہ کا تمام بالغان کو انتظار ہوتا جس کا دورانیہ آدھا گھنٹہ ہوتاجس کے آخر میں موسم کی صورتحال بتانے والے محکمہ موسمیات کے ملازم محمد حنیف کی یہ لائن اس وقت کے ناظرین کو آج بھی یاد ہو گی کہ پاکستان کے بالائی علاقوں خصوصاََ مالاکنڈ‘ سوات‘ مالم جبہ سمیت شمالی علاقہ جات کے اکثر مقامات پر کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ ہلکی بارش و برف باری کا امکان ہے۔ کافی عرصہ تک جمعرات کی رات کو ایک اردو فلم بھی دکھائی جاتی جبکہ عید کی خصوصی نشریات میں بھی فلم خاص طور پر شامل ہوتی۔ عید کے سارا دن کچھ اس طرح کے پیغامات بار بار سننے کو ملتے کہ ”فلاں سگریٹ بنانے والوں کی طرف سے پوری قوم کو عید مبارک“ ”فلاں صابن بنانے والوں کی طرف سے تمام قوم کو عید کی خوشیاں مبارک“ وغیرہ وغیرہ۔ پی ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات میں ان دنوں سگریٹ بنانے والی کمپنیاں سر فہرست تھیں جبکہ سٹیٹ لائف‘ مولٹی فوم‘ ڈنٹونک کے اشتہارات بہت مقبول ہوئے۔
انڈیا کے نیشنل چینل ”دوردرشن“ کی نشریات بھی کئی علاقوں میں دیکھی جاتی تھیں‘ ٹی وی انٹینا کی سمت سے پتہ چل جاتا تھا کہ اس وقت کون سا چینل ٹیونڈ ہوتا۔ دوردرشن پر ہفتہ میں دو دن شام کے بعد آدھا گھنٹہ دورانیہ کے فلمی گانے دکھائے جاتے۔ اس پروگرام کو بہت زیادہ دیکھا جاتا‘ سکول میں اگلے دن اکثر لڑکے یہی گانے گنگنا رہے ہوتے‘ سکول میں سینئر اور بڑے پیارے دوست محمد وحید الحسن جو اَب محکمہ ڈاک میں ملازم ہیں‘ کی ایک گانے ”میں مرنے چلا ہوں‘ اے حسن تیری خاطر میں مرنے چلا ہوں“ کو گنگناتے اور ڈانس کرتے ہوئے ویڈیو میرے ذہن میں آج بھی محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ جمعہ‘ ہفتہ اور اتوار کو سہ پہر چار بجے کے قریب ایک فلم دکھائی جاتی جسے اشتہارات سمیت بڑے اطمینان سے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دیکھا جاتا‘ ایک دن بہت پرانی جبکہ باقی دن قدرے نئی فلم دکھائی جاتی۔ عامر خان و جوہی چاولہ کی بیشتر فلمیں دور درشن پر ہی دیکھنے کو ملیں۔
نوے کی دہائی میں فلم کو تفریح کا بہت بڑا ذریعہ سمجھا جاتا‘ میوزک سنٹر کا کاروبار اپنا عروج دیکھ رہا تھا۔ ہر نئی آنے والی فلم کے بولڈ پوسٹر میوزک سنٹر کے باہر و اندر چسپاں کیے جاتے‘ کئی کئی دن لوگوں کو نئی آنے والی فلم کی ماسٹرویڈیو کیسٹ کرایہ پر لینے کے لیے انتظار کرنا پڑتا۔ وی سی آر یا وی سی پی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا جنہوں نے زیادہ تر بیرون ملک سے خریدا ہوتا۔ کچھ لوگ فلم دیکھنے کے شوقین بچوں سے پیسے اکٹھا کر کے ویڈیو کیسٹ کا کرایہ پورا کرتے اور بدلے میں انہیں فلم دکھاتے۔ کافی سارے لوگ رنگین ٹیلی ویژن و وی سی آر میوزک سنٹر سے کرایہ پر حاصل کر کے فلمیں دیکھتے۔ اس دور کی فلمیں جو بہت زیادہ مشہور ہوئیں‘ ان میں ساجن‘ رنگ‘ ہم آپ کے ہیں کون‘ سڑک‘ چاہت‘ اگنی ساکشی‘ خدا گواہ وغیرہ شامل ہیں‘ اسی طرح کئی فلمی گانے بھی بہت زیادہ مشہور ہوئے جیسا کہ‘ نہ کجرے کی دھارنہ موتیوں کے ہار‘ تو چیز بڑی ہے مست مست‘ چاند سے پردہ کیجئے‘ کتنا حسین چہرہ کتنی پیاری آنکھیں‘ گورے گورے مکھڑے پہ کالا کالا چشما‘سات سمندر پار میں تیرے پیچھے پیچھے آگئی‘ پردیسی پردیسی جانا نہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ بچوں پر والدین کی طرف سے سخت پابندی ہوتی کہ وہ کسی صورت سینما گھر کا رخ نہ کریں۔سینما گھر والے فلم کی تشہیر کے لیے تانگہ پر فلم کے بڑے بڑے پوسٹر لگاتے اور ایک ڈھول والا بٹھا کر گاؤں گاؤں چکر لگاتے۔ بعض اوقات سگریٹ کمپنیاں اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کے لیے گاؤں میں بڑی سکرین پر رات کو فلم دکھاتیں‘ ایک دفعہ مجھے بھی ایسی ہی ایک فلم دیکھنے کا موقع ملا جو بارش کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکی لیکن اس فلم کا نا م ”بھابھی دیاں چوڑیاں“ آج بھی یاد ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply