لڑکیوں کی ہم جنس پرستی کا نفسیاتی جائزہ

‎میں نفسیات کی پروفیسر ہوں. روزمرہ کے معمولات میں میرا واسطہ کافی لوگوں سے پڑتا ہے، خصوصاً لڑکیوں سے. بطور استاد میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کیساتھ فلموں سے لیکر مذہب تک ہر شے پر تو بات کر لیتے ہیں مگر سیکس کی بات آتے ہی وہ روایتی شرمیلے مشرقی بن جاتے ہیں. آگے جاکر جب بچے عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ سیکس کو قبول نہیں کرپاتے اور قبول کر بھی لیتے ہیں تو منشیات کیطرح اسے اپنی زندگی کا جزو بنا لیتے ہیں اور تاحیات گمراہی کے اندھیرے انکا مقدر بن جاتے ہیں.

‎میری ایک سابقہ طالبہ جو ایک روایتی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اب شادی شدہ ہے، میرے پاس آئی کہ ٹیچر مجھے آپ سے بات کرنی ہے. مگر اس کی روایتی جھجک جو استاد اور شاگرد کے بیچ ہوتی ہے آڑے آرہی تھی۔ میں اس کی باڈی لینگویج نوٹ کررہی تھی، وہ بے چین تھی، کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر کہنے کا حوصلہ خود میں نہیں پارہی تھی. بالاخر اپنی جگہ سے اٹھ کر میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور خود کے قریب کرلیا. وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور میں نے اسے رونے دیا جب رو کر خاموش ہوگئی تو میں نے پوچھا بتاؤ بیٹی آپکا مسلہ کیا ہے؟ وہ بڑی مشکل سے خود پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی، بالاخر اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور ٹوٹے ہوئے الفاظ میں گویا ہوئی کہ اس کیوجہ سے آج اس کے والدین کا سر شرم سے جھک جائے گا اور اس کا گھر اجڑ جائیگا، جو وہ افورڈ نہیں کرسکتی. میں نے استفسار کیا کہ کیا وہ اپنے شوہر کیساتھ خوش نہیں ہے یا اس کا شوہر کا کسی اور کیساتھ چکر چل رہا ہے. …. اس نے نفی میں جواب دیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے. پھر اس کے بعد جو اس نے بتانا شروع کیا میرے سر پر گویا پہاڑ گر پڑا.

‎اس کا تعلق ایک پسماندہ ضلع سے تھا. والدین کی اکلوتی اولاد تھی تو والدین نے روایات سے انحراف کرکے اس کی تعلیم پر توجہ دی تاکہ بیٹے کی کمی کسی طریقے سے پوری کی جاسکے اور اسکو میٹرک کے بعد گرلز کالج بھیج دیا گیا. رہائش دور تھی لہذا اس کو ہاسٹل میں رکھا گیا. اسکی ایک روم میٹ تھی، بڑی شوخ نٹ کھٹ اور زندہ دل، لہذا دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی گئی. ایک دن اس لڑکی نے اسے ایک اخلاق باختہ فلم دیکھا دی جس میں دو خواتین ایک دوسرے کیساتھ غیر فطری تعلقات کو بہت کھلے انداز میں برت رہی تھیں. اس کے لئے یہ سب کچھ عجیب تھا کیونکہ اس کا اس معاملے میں مرد کا جو تصور تھا وہ اس دن ٹوٹ گیا. ہمارے معاشرہ میں مرد ایک مرکزی کردار ہوتا ہے لہذا خواتین کا اختیار ہمیشہ مرد کے پاس رہتا ہے. مرد کا حصول مشکل اور خواتین کا سنگ آسان تھا۔ ‎بچپنا تھا مگر مرد کے روایتی کردار سے اس کو بھی چھٹکارہ مل گیا اور روزانہ یہی فلمیں اپنی سہیلی کیساتھ دیکھنے لگی اور بالاخر دونوں موبائل پہ دیکھی فلموں ہی کی طرح ایک دوسرے سے قریب ہو گیہہں۔

‎دن گزرتے گئے اور بالاخر گریجویشن کرنے کے بعد اس کے سنہرے دن ختم ہوگئے وہ روتے دھوتے اپنے آبائی علاقے واپس آ گئی. گریجویشن کے بعد اس نے کافی شور مچایا کہ اس کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت دی جائے مگر اس کے والدین جو پہلے ہی برادری کے طعنوں سے تنگ تھے، مزید اس کی خاطر خود اپنے اندر لڑنے کی سکت نہیں دیکھ پا رہے تھے اور اسے گھر بٹھا ڈالا. یہاں کے سیدھے سادے ماحول میں اس کا دم گھٹ رہا تھا کیونکہ چار سال سے وہ ہم جنسی پرستی کے جس لذت کی عادی ہوچکی تھی وہ مردوں کے روایتی ماحول میں ناممکن تھا. ‎مردوں میں اس کیلئے کوئی خاص کشش نہیں تھی اور ان کے والدین اس کوشش میں تھے کہ جلد از جلد اس کے ہاتھ پیلے کرکے شادی کردی جائے مگر وہ کسی اور ہی دھن میں تھی.
‎کچھ اچھے رشتے بھی آئے مگر اس نے کسی طرح ان آفرز کو ریجکٹ کردیا. اس اثنا میں حکومت نے مختلف این جی اوز کیساتھ ملکر خواتین کے ابتدائی تعلیم پر توجہ دی اور اس کے گاؤں میں ایک اسکول منظور ہوگیا اور اسے بطور ہیڈ مسٹریس تعنیات کیا گیا. اسکول کی صفائی کیلئے ایک آیا بھی رکھ لی گئی.
‎ایک دن جب وہ اپنی کرسی پر بیٹھی کام کر رہی تھی اچانک آیا کسی کام سے اندر آئی. اس نے محسوس کیا کہ آیا اسے کسی اور ہی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ یہ سب محسوس کر کے اسے ایک عجیب کیفیت کا احساس ہوا۔ آیا بھی شاید اسی جیسی کیفیت کا شکار تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

نجمہ سلطانہ
خیبرپختونخواہ کی ایک یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات میں لیکچرار ہیں اور خواتین کے نفسیاتی مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”لڑکیوں کی ہم جنس پرستی کا نفسیاتی جائزہ

  1. صرف اور صرف موبائل کمپیوٹر سستا انٹر نیٹ اور غیر اخلاقی مواد تک انتہائ آسان رسائ نے مجھ سمیت سب کواس گندے سمندر میں دھکیل دیا

Leave a Reply to Arshad Cancel reply