محبت ایک مکاشفائی بھید ۔۔ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

آسمان و زمین کی وسعتوں میں ایک چیز جو مشترکہ خصوصیت کی حامل ہے ۔اس کا نام محبت ہے جو اپنی آفاقی صداقتوں کی بدولت آج بھی زندہ ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم رہے گی یہ اپنا بھرم و وقار قائم رکھے گی ۔اگر اسے فطری تقاضوں کے تحیر میں یہ لکھا پڑھا اور سنا جائے کہ محبت ازلی و ابدی ہے تو کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی ۔کیونکہ نا اس کا کوئی شروع اور نا کوئی آخر ہے بلکہ نسل در نسل انسان کے خون کی رگوں میں دوڑتا ہوا وہ احساس ہے جو انسان کو قربت و وفا کی ترغیبات کے موسم ودیعت کرتا ہے ۔

اگر انسان کے خون میں محبت کا جوش ٹھا ٹھیں نہ مارے تو اس کا روح و بدن کوڑھ سے بھر جائے گا ۔لیکن محبت عالم کائنات کا واحد عنصر ہے جو پانی کی طرح دل کی زمین کو سیراب کرتا ہے اور انسان کے جسم کو وہ ضروری نمکیات فراہم کرتا ہے جہاں محبت کی آبیاری شروع ہوتی ہے ۔کیونکہ محبت خدا کی ودیعت ہے اور جب کسی چیز کا تجسم فلک سے ہو تو وہ چیز اپنی فضیلت و کرامات میں انوکھی داستان رقم کرتی ہے ۔

کیونکہ خدا محبت ہے اور وہ اپنی اس خوبی کے باعث اپنی مخلوق سے پیار کرتا ہے ۔بلاشبہ محبت میں جذبات کی فراوانی کے وہ تمام نمونے شامل ہوتے ہیں جو دوسروں کے دلوں میں لگن و وفا اور امید کے چراغ جلاتے ہیں ۔جب کہ فطرت میں اگے ہوئے نفرت کے انبار مثبت سوچ کو بھی لہو لہان کر دیتے ہیں ۔اگر ایک بجھے ہوئے دل کو لفظ محبت کی بھاپ دی جائے تو اس میں زندگی کی حرارت اتر آئے گی ۔اس کی افسردگی کے تمام جراثیم محبت کی حرارت سے ختم ہو جائیں گے ۔بے شک محبت کا انسان کے ساتھ ایک طلسماتی بندھن ہے جس کا آغاز اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ اسے اپنی روح میں اترنے کا موقع دیتے ہیں ۔

عصر حاضر میں انسان کی نفسیات نے ایک ایسا رخ ڈھال لیا ہے جہاں اس کی روح کے اردگرد نفرت کی وہ مکھیاں بھنبھناتی نظر آتی ہیں۔ یہ بھنبھاتی مکھیاں ہماری روح سے اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹیں گی جب تک غلاظت کے ڈھیر صاف نہ کیے جائیں ۔ کیوں کہ محبت منزہ جذبوں کی محتاج ہوتی ہے ۔ پاکیزگی اس کی روح میں شامل ہوتی ہے ، وہ صداقت کی پیروکار ہوتی ہے ، احساس کے نمکیات سے لبریز ہوتی ہے ، مثبت سوچ کے موتی اگلتی ہے ، دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالتی ہے ، ہمیشہ دوسروں کی بہتری کی خواہاں رہتی ہے ، دوسروں پر اپنے جذبات نشاور کرتی ہے ، اتحاد و یگانگت کے آثار و کیفیات سے بھرپور ہوتی ہے ، ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیتی ہے ، قربت کا دامن پھیلا کر فاصلوں کو سمیٹ لیتی ہے ، سمندر سے زیادہ گہرے اپنے اندر چشمے رکھتی ہے، سب کو اپنے پاس بلاتی ہے اور سب کو اس بات کا احساس فراہم کرتی ہے کہ میں بنای عالم سے پیشتر وجود میں آئی ہوں۔

کاش ! تمہاری آنکھوں میں روحانی بصارت ہوتی میری قدر اور لحاظ کر کے اپنا آنچل روح کے پھلوں سے سجا لیتےاور اپنے نتھنوں سے میری خوشبو لے کر دیکھو پھر تمہارے انگ انگ میں زندگی کی حرارت کیسے نہیں اترتی اس سے فورا تمہاری قوت مدافعت بحال ہوجائے گی اور تمہارے اندر ابلیسی تاثیر و ں سے لڑنے کی قوت پیدا ہو جائے گی ۔مجھے آزما کر دیکھو میرے اندر توانائی کے کتنے ذخائر ہیں جو تمہارے بدن میں ایسے ہارمون پیدا کر سکتے ہیں جہاں زندگی کے داخلی اور خارجی محرکات اپنی سمت دریافت کرتے ہیں ۔

محبت کا احساس بادلوں کی پھوار جیسا ہوتا ہے جن کی بوندوں سے تروتازگی اور شگفتگی روح و قلب کو ایسے سیراب کر دیتی ہے جیسے کوئی تھکا ہوا مسافر پیاس کے بعد راحت محسوس کرتا ہے ۔محبت ایک عالمگیرسچائی اور گرفت ہے جو اس کا دامن پکڑ لیتا ہے وہ خوش حال ہو جاتا ہے اس کی زندگی سے فتنوں کے جال کٹ جاتے ہیں ۔وہ روح پرور ماحول میں سانس لینے لگتا ہے ، وہ سچائی سے واقف ہو جاتا ہے ، وہ امیدوں کے محل تعمیر کرنے لگ جاتا ہے ، اس کے گھر خوشیوں کی برسات آ جاتی ہے ۔اس کے ہم خیالی اس سے ہاتھ ملانے آجاتے ہیں ، اس کی زندگی میں احساس کی نئی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں۔

ہر انسان کے اندر ایک روح ہے جو اسے اچھے اور برے کاموں کا احساس فراہم کرتی ہے ۔ایک طاقت انسان کو اچھائی کی طرف مائل کرتی ہے جب کہ دوسری اسے برائی کی طرف راغب کرتی ہے ۔یعنی ہماری روح میں مثبت چارج کا کرنٹ بھی موجود ہے اور منفی بھی ۔دونوں صورتیں الگ الگ تاثرات کی حامل ہوتی ہیں ۔آپ جس طاقت کے تابع رہنا چاہتے ہیں وہ آپ کی دوست بن جاتی ہے ۔البتہ محبت ایک ایسی منطقی طاقت ہے جو نہ بکھرتی اور نہ ٹوٹتی ہے ۔بلکہ وہ آپ کے بال و پر میں سات سمندر پار کرنے کی طاقت پیدا کر دیتی ہے ۔

جب تک ہم بدن کے وطن میں زندہ ہیں ہم مصائب و آلام میں گرتے بھی ہیں اور نکلتے بھی ۔ اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی کا جائزہ لیں تو کبھی ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں ، کبھی ہمارے پاؤں دلدل میں پھنس جاتے ہیں ، کبھی ہمارے ہاتھوں کو بیڑیاں لگ جاتی ہیں ، کبھی ہم پر بے بسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ، کبھی ہماری روح بجھ جاتی ہے ، کبھی ہم اپنی قسمت پہ کڑھنے لگ جاتے ہیں ، کبھی حالات کی مجبوری کا رونا دھوتے ہیں ، کبھی ہم دوسروں کے رویوں سے تنگ آجاتے ہیں ، کبھی ہمیں دوسروں کی طاقت خوف زدہ کرتی ہے ، کبھی ہم اپنے آپ کو کمزور سمجھ کر حالات کی جیل میں بند ہو جاتے ہیں ،کبھی ہمارے اردگرد دکھوں کے موسم آباد ہو ہوتے ہیں ، کبھی ہمارے ہاتھ سے صبر کا پیمانہ چھوٹ جاتا ہے۔ یہ وہ
بد روحوں کے سانپ ہیں جو ہمیں ہر وقت ڈستے رہتے ہیں ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے میں اپنے آپ کو کہاں کھڑا کروں ؟
جہالت کی دیوار پر یا محبت کی بنیاد پر ۔البتہ جو چیز مجھے استحکام بخشتی ہے وہ محبت ہی ہے ۔اگر اس میں ریاکاری کے عناصر شامل نہیں تو یہ دنیا کی ہر چیز سے قیمتی ہے اگر یہ نقلی اور بہروپیہ پن کی شکلوں سے عبارت ہے تو اس میں ملاوٹ ہے ۔اس بات سے اچانک میرا ضمیر مجھے جنجھوڑتا ہے اور مجھے آواز دیتا ہے اے میرے بیٹے !

اس میں ابدیت کی خوشخبری ہے تیرا دل میری باتوں کو مانے ۔میں تجھے مفت مشورہ دیتا ہوں جو چیز ازلی و ابدی ہے اس کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے ۔یہ تیری بقا کی ضامن اور زندگی کا روشن چراغ ہے ۔اپنی صلیب خود اٹھا اور اس راستے سے گزر جو سکڑا ہے۔ ہاں میں جانتا ہوں دنیا میں تجھے دکھ اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن میں بہت جلد تیرے آنسو پونچھے دوں گا اور تجھے وہ منزل عطا کروں گا جس کے مکاشفے سے لوگ واقف نہیں ۔لیکن میں یہ باتیں تجھ پر اس لیے ظاہر کر رہا ہوں تو کہیں دنیا کی بھیڑ میں نہ کھو جائے کیونکہ جو کھو جاتا ہے وہ بڑی مشکل سے واپس آتا ہے ۔لیکن میں تیرا خیر خواہ ہوں اور تجھے ایک ایسی منزل پر گامزن کرنا چاہتا ہوں جہاں زندگی کے چشمے اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان ساری باتوں کے بعد میں نے مصمم ارادہ کرلیا اور جان لیا کہ محبت ایک مکاشفائی بھید ہے ۔نا اس کا شروع ہے اور نا آخر ہے بس ایک بہاؤ ہے جس کا کنارہ مجھے نظر نہیں آتا ۔میں پھر بھی اس میں اترنا چاہتا ہوں تاکہ میری گندگی دھوئی جائے ۔اب میری نیت صاف اور میرا جسم اجلا ہے۔
آج میں نے ایک مکاشفہ پا لیا جو اپنے اثرات و ثمرات میں آسمان و زمین کے وسعتوں میں موجود ہے۔اس کا زندہ اور لافانی نام محبت ہے ۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد واہ کینٹ

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply