ردعمل کی نفسیات اور اصلاح کا پہلو۔۔حسان عالمگیر عباسی

غصہ اور رد عمل کی کیفیات نفسیات سے متعلق ہیں۔ مذہب بھی کہتا ہے: والکاظمین الغیظ یعنی مناسب لوگ غصے کھا جانے والے ہوتے ہیں۔ غصے کے اوقات میں فیصلہ سازی ممنوع ہے۔ ردعمل میں جذبات کا استعمال ذمہ دارانہ فعل نہیں ہے۔ غصہ من جانب الشیطان ہے۔ سیاسی جماعتیں مارچ کرتی ہیں۔ ٹرین مارچ ہوتے آئے ہیں۔ احتجاج کبھی رنگ لاتا ہے تو کبھی بے سود جاتا ہے۔ احتجاج جمہوریت میں بے معنی نہیں ہوتا۔ احتجاجی سیاست ہوتی ہی تب ہے جب ایک طبقہ ظلم کی چکی میں دوسرے کو پیستا ہے۔ ننگے بھوکے لوگ تب باہر نکلتے ہیں جب ان کے کپڑے امیر کی کتیا پہن لیتی ہے اور روٹی امیر کا کتا کھا جاتا ہے۔ طبقاتی تقسیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ احتجاج کوئی بھی اٹھا لیں کم مثالیں ملیں گی کہ سب ہوش و حواس سنبھالے رہے۔ جنگ کیوں ہوتی ہے؟ غصے میں جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ دو آپس میں قتال کرتے ہیں تو تیسرا انھیں اپنی خوشی اور مسرت اور سکون اور اطمینان کے لیے استعمال کرتا ہے حالانکہ تیسرا گروہ صلح جوئی کے لیے ہونا چاہیے۔ عمران خان نے کل اپنے سیاسی حریفوں کو خوب برا کہا کیونکہ وہ شدید غصے میں ہے لیکن کیا کوئی خاتون ایسا کرے تو یہ معاشرہ تسلیم کر سکتا ہے؟ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی ہماری وزیر اعظم رہی ہیں۔ کبھی انھوں نے غصے کو اتنا بے قابو ہونے دیا؟ غصے کی حالت میں جسے آپ برا کہیں گے وہ صراطِ مستقیم پہ آ جائے گا؟ کل جو بچی سفاک نے مار ڈالی اس کی والدہ ابھی پریشانی کے عالم میں ہے پر سکون زندگی گزار پائے گی؟ کیا اس طرح کے ہزاروں کردار جو اپنی اپنی کہانیاں لیے جی مر رہے ہیں انھیں کوسنا یا ان کے مد مقابل اپنی بے راگ کی الاپنا یا ان کے سامنے آجانا حکمت و دانائی یا دانشمندانہ اقدام ہے؟ کیا جو ہمیں اپنی موت آپ مارنے کے درپے ہیں اور اندر سے کھوکھلا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ان کی کامیابی اسی میں نہیں ہے کہ ہم تقسیم ہو جائیں اور چکناچور ہو جائیں؟ مشورہ ہے کہ ٹھنڈی کوک پیا کریں اور ٹھنڈے رہا کریں۔ کچھ بھی خطرے میں نہیں ہے سوائے آپ کے اپنے سکھ اور چین کے۔ بچوں کو بچپن گزارنے دیں اور جوانان کو فیصلہ سازی میں شامل کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply