مصوّرِ وقت۔۔مظہر حسین سیّد

مصوّرِ وقت۔۔مظہر حسین سیّد/کسی کتاب کی اشاعت میرے نزدیک ایک انسان کے جنم لینے کے مترادف ہے ۔ جس طرح ایک بچے کا جنم اپنے اندر لامتناہی امکانات لیے ہوئے ہوتا ہے اور یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ بچہ آگے چل کر کیا بنے گا اور معاشرے پر کس طرح کے نقوش ثبت کرے گا بالکل اسی طرح ایک کتاب بھی سماج پر کیا اثرات مرتب کرے گی اور ان اثرات کی حدود و قیود کیا ہوں گی اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔
اس وقت میرے پیشِ نظر محمد توفیق کی کتاب ـ ‘‘ واہ کی تہذیب اور فنونِ لطیفہ ’’ ہے ۔
محمد توفیق سے پہلی شناسائی کی کرن ڈھونڈنے نکلتا ہوں 1994 سال ذ ہن میں آتا ہے ۔
پاکستان آرڈیننس فیکٹریز کے اندر ایک سرکاری تقریب تھی جو لگے بندھے روایتی انداز سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ حاضرین بھی بیزاری کی کیفیت میں تقریب کے خاتمے کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک وجیہہ شخص سٹیج پر نمودار ہوا گرجدار لہجے اور گونج دار آواز نے ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔
بے باک اندازِ خطابت اور دلچسپ اندازِ بیان نے اس خشک تقریب میں رنگ بھر دیے ۔ بیزاری انہماک میں بدل گئی ۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ وجیہہ اور بے باک شخص محمد توفیق تھے ۔
دل میں تجسس نے سر اُٹھایا کہ ان کے بارے میں مزید جانا جائے ۔ اور پھر ہر گزرتے لمحے اس کے جوہر کھلتے اور نمایاں ہوتے چلے گئے ۔
افسر ، منتظم ، کمنٹیٹر ، کمپیئر ، کھلاڑی ، صحافی ، سیاح ، کالم نگار اور سفرنامہ نگار ، ان کی شخصیت اتنی جہتوں کی حامل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔
اس پر طرّہ یہ کہ ہر شعبے میں نمایاں خدمات اور نامور حیثیت کے حامل ، جو کام بھی کیا یوں لگا کہ جیسے انھی کے لیے بنایا گیا تھا ۔
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

دفاع سے منسلک ادارے میں ملازم ہونے کے اپنے محدودات ہوتے ہیں ۔ اور ان میں اس طرح کا راستہ بنانا انتہائی مشکل اور پُرخطر کام ہے ۔ یہ انتہائی لگن اور انتھک محنت کا اسمِ اعظم ہی تھا جس نے ان کے رستے میں آنے والے ہر در کو وا کیا ۔ اور وہ ہر میدان میں سرخرو ٹھہرا ۔
بہرحال اس وقت مجھے ان کی تازہ کتاب ـ‘‘ واہ کی تہذیب اور فنونِ لطیفہ ’’ پر اپنی معروضات پیش کرنی ہیں ۔ یہ کتاب نہ صرف اس خطے کی قدیم تاریخ اورتہذیب کا احاطہ کرتی ہے بلکہ پاکستان آرڈنینس فیکٹریز کے قیام اور اس کے بعد کے حالات و واقعات کو بھی مفصل طور پر بیان کرتی ہے ۔
عمومی طور پر تاریخ کو ایک بے کار اور غبار آلود مضمون کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ اور بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی اس کی اہمیت اور افادیت کو درست طور پر نہیں سمجھ پاتے ۔
امریکی فلسفی جارج سنتیانا نے کہا تھا :
ـ‘‘ جو تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا بالآخر اسے دہرانے پر مجبورہو جاتا ہے ’’۔
تاریخ کا مطالعہ نہ صرف ہمارے حال کی وضاحت کرتا ہے بلکہ مستقبل کی جانب سفر میں ہمارے لیے راہِ عمل بھی متعین کرتا ہے ۔
معروف مارکسی دانشور ٹیڈ گرانٹ کا کہنا ہے کہ ‘‘ ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا ’’ ۔
معروف مقولہ ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں وقت ان کا جغرافیہ بدل دیتا ہے ۔

خوش آئند پہلو یہ ہے کہ محمد توفیق تہذیب وتاریخ کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے افادی پہلو سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ تاریخ کو بیان کرنا محض واقعات کی تکرار نہیں ہے بلکہ یہ جاننا ہے کہ کیا ہوا ، کیسے ہوا اور کیوں ہوا ۔
انھوں نے عمومی طور پر قائم اس تصور کو بھی مسترد کیا ہے کہ تاریخ کا بیان خشک اور اکتا دینے والا ہوتا ہے ۔
اس کی تحریر انتہائی دلچسپ ،شگفتہ اور زندگی سے بھرپور ہے ۔
تحریر کو پرتاثیر بنانے کے لیے مشاہیر کے اقوال اور معیاری اشعار نگینے کی طرح جڑے ہوئے ہیں ۔ جنھوں نے تحریر کوایک ادبی چاشنی عطا کی ہے یوں قاری تحریر کو پڑھتے ہوئے پڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔
تاریخ کی واقعیت کو مجروح کیے بغیر اس میں دلچسپی کا عنصر پیدا کرنا ادبی ہنرمندی اور لسانی چابکدستی کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔
زبان و بیان کا ایک دلچسپ نمونہ دیکھیے جو محمد توفیق کا خاصہ ہے ۔
‘‘یہ پی او ایف کا ابتدائی زمانہ تھا، بہت سے افسران کو تربیت کے لیے انگلستان بھیجا گیا ان میں سے کچھ انگریز خواتین سے شادی کے بندھن میں بھی بندھ گئے لیکن یہ تجربہ ان کے لیے عقد گاہ سے فیض کے الفاظ میں قتل گاہ کا سفر ثابت ہوا۔ دیسی زمین میں بدیسی میموں کی غیر فطری کاشت ممکن نہ ہو سکی۔
ازراہِ تفنن مشتاق یوسفی کے بقول” انگریز عورت کو حبالہء نکاح میں لانے سے نہ تو انگلستان فتح ہو تا ہے نہ سمجھ میں آتا ہے بلکہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے خود عورت بھی سمجھ میں نہیں آتی” سو جلد ہی صورت حال  ابنِ انشا کے الفاظ میں ایسی ہو جاتی کہ ” میں اور میری بیوی یک جان دو قالب ہیں، نیند کی گولی وہ کھاتی ہے اور سکون مجھے ملتا ہے” نتیجتاً ایسی اکثر شادیاں طلاق پر منتج ہوئیں۔”

تاریخ اور تہذیب کے ارتقا کوعام طور پر بادشاہوں اور بالا دست طبقات کے کرداروں اور واقعات تک محدود رکھا گیا ہے ۔ خاک نشین اور محنت کش طبقات مؤرخین کی نظر میں اس قابل نہیں ہوتے کہ ان کا تذکرہ کیا جائے اور ان کے کردار کو واضح کیا جائے ۔ لیکن اس کتاب میں ایسا نہیں ہے ۔ محمد توفیق جانتے ہے کہ سماجی عمل تمام طبقات کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں سرانجام پاتا ہے ۔ اس میں کسی طبقے کو نظر انداز کرنے کا مطلب متعصب ، جانبدار اور خوشامدی رویہ اپنانا ہے ۔ بھلا ہم محمد توفیق جیسے نڈر بے باک اور حساس شخص سے اس رویے کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں ۔
اس کتاب میں محنت کشوں کے کردار اور ان کی سرگرمیوں کو نمایاں حیثیت میں بیان کیا گیا ہے ۔زندگی کاغذی پیراہن میں دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب واہ کی تہذیب میں ایک معتبر حوالے کے طور پر زندہ رہے گی ۔
اس ضمن میں درج ذیل پیراگراف دیکھیے :
‘‘حکمت کے حوالے سے حکیم خلیل اور حکیم محمداللہ خان روھیلہ ، ہومیو پیتھک علاج میں ڈاکٹر عبدالمغنی ملک اور ڈاکٹر عبد الرشید ، ایلوپیتھک میں ڈاکٹر سراج الدین اور ڈاکٹراے جی خان معتبر ترین نام تھے۔جب کہ دائی کے طور پر سسٹر چودھری مشہور تھیں۔ حجام کا پہلا باقاعدہ حمام اسلم مارکیٹ میں ‘‘بنارس ہئیر کٹنگ’’ کے نام سے ‘بنارس’ نے قائم کیا۔ جب کہ لائق علی چوک میں دو بھائیوں خلیل اور جمیل نے بھی حمام بنایا۔20ایریا چوک میں موبائل کھوکھے میں قائم حجام کی دُکان اور اس کے مالک نے ‘‘ڈورا نائی ’’ کے نام نے شہرت حاصل کی۔ ان کے علاوہ انوار چوک میں ختنہ کے لیے مشہور
‘‘چپٹا نائی’’ اور مکھن نائی بھی مشہور تھے۔یوسفی صاحب کے بقول ” حجام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی تاوقتیکہ ساری دنیا سکھ مذہب اختیار نہ کرلے اور سکھ یہ کبھی ہونے نہ دیں گے۔”

واہ کی تہذیب و تاریخ کو اس انداز سے مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے ۔

مصنف:محمد توفیق

واہ کی کاروباری زندگی ہو یا محنت کشوں کی زندگی کے شب وروز ، واہ کی ادبی سرگرمیاں ہوں یا تعلیمی اداروں کا قیام و ارتقا ، کھیلوں کی سرگرمیاں ہوں یا واہ کی تعمیر و ترقی میں اقلیتوں کا کردار ہر پہلو کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے ۔ اور اسے دلچسپ و خوشگوار انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔
اور یہ بات محض بیان تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ جہاں جہاں انھیں بگاڑ اور قابل ِاصلاح پہلو نظر آئے ان کی نشاندہی سے بھی نہیں چوکے۔ یوں ‘‘جو ہے جیسا ہے’’ کی بنیاد پر مناظر کو پیش کیا گیا ہے ۔ یوں رائی کا پہاڑ بنانے اور ہتھیلی کے پیچھے چاند چھپانے کے رویے سے گریز کا کھرا اور واضح انداز اختیار کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے ماحولیاتی آلودگی کا ذکر کرتے ہوئے کچھ یوں رقم طراز ہے ۔

‘‘ قدیم زمانے سے واہ عمومی طور پر ایک سرسبزوشاداب خطۂ زمین رہا ہے ۔ واہ گارڈن اور ‘‘دھمرا’’کا چھوٹا سا دریا اس کی سیرابی کا زندہ استعارہ رہا ہے۔ لیکن صنعتی ترقی اپنے جلو میں ماحولیاتی آلودگی کا مُضر زہر لازماً لیکر آتی ہے، اس کے علاوہ مارگلہ کی پہاڑیوں کا تعمیراتی مقاصد کے لیے کٹاؤ، خودرو پودوں کی مانند سراٹھاتی ماربل فیکٹریز، لوکاٹ کے باغات کی کمرشل پلازوں کی تعمیر کے لیے وسیع پیمانے پر کٹائی اور صنعتی فضلے نے اس کے روایتی حسن کو گہنا دیا ہے۔چِمنیوں سے اُٹھتا دُھواں یہاں مُضر صحت دھندکی دبیز چادر بچھا دیتا ہے۔ ارض کا منظر نامہ کچھ یوں تبدیل ہو گیا کہ حرص، بدذوقی اور کاروباری لالچ و ہوس نے جگہ جگہ قدم جما لیے۔ چند افراد ضرور امیر ہوگئے لیکن زمین بانجھ ہوتی چلی گئی۔’’

واہ کے تہذیبی ارتقا میں یہاں کے شعرا و ادبا کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ ملک کے طول وعرض سے شعرا یہاں آتے رہے اور یہاں کی محفلوں کو رونق بخشتے رہے ۔ اسی طرح بہت سے شعرا نے یہاں سے مختلف شہروں کی جانب ہجرت کی اور ملکی ادب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔
لہلہاتی کھیتیوں پر جب مشینوں نے رقص کیا ۔ اور زرعی سماج جدید صنعتی عہد میں داخل ہوا تو حساس دل شعرا اور ادیبوں پر اس نے کیا اثرات مرتب کیے اس کی جھلکیاں یہاں کی تحریروں میں جا بجا نظر آتی ہیں ۔ یہاں کی خوبصورت فضاؤں میں ایسے بے شمار اشعار نے جنم لیا جو اردو دنیا میں پھیل کر زبان زدِ خاص و عام ہوئے ۔
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے مرے صحن میں رستے بنا لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فن کی تکمیل پہ فن کار برے لگتے ہیں
قصر بن جائے تو معمار برے لگتے ہیں
میں نے چاہا تھا کسی شاخ پہ تنکے دھرلوں
آئی آواز خبردار! برے لگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٹی کا کھلونا بھی میسر نہیں آیا
میں اس کی خوشی لے کے کبھی گھر نہیں آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کی خوبصورت فضا ، صنعت و محنت کی کشمکش ، علمی ماحول اور مختلف ثقافتوں کے تال میل نے یہاں کی ادبی فضا کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع دیا ۔ بڑے ادبی مراکز سے دور شاید ہی کسی خطے میں معیاری اور مقداری حوالے اتنا بڑا ادب تخلیق ہوا ہو ۔ اور زیرِ نظر کتاب نے اس دعوے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے ۔
(یہاں میں دانستہ طور پر شعرا کے ناموں اور تذکرے سے گریز کر رہا ہوں کہ اس مختصر اظہاریے میں واہ کی پوری ادبی فضا کو سمونا ممکن نہیں ویسے بھی اس کی مفصل روداد کتاب میں موجود ہے اور یہاں تذکرہ تکرارِ محض کے ضمن میں آئے گا )۔
محمد توفیق نے واہ کی ادبی تاریخ کو بیان کرنے میں کتاب کے دیگر ابواب کی نسبت زیادہ محنت ، تحقیق اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ انھوں نے اسے محض ادیبوں کے تذکرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ادب اور ادیبوں سے منسلک دیگر لوازمات کا بھی تفصیلی احاطہ کیا ہے ۔ واہ کی ادبی تنظیمیں ہوں یا واہ کے اہل قلم کی شعری اور نثری تصنیفات ، واہ میں مشاعرے کی روایت اور ارتقا ہو یا شاعروں اور ادیبوں کی نجی محافل ، شعرا کے رجحانات اور چٹکلے ہوں یا ان کے منتخب اشعار اس کتاب میں کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ اسی طرح واہ کے ابتدائی عہد کے اہل قلم سے لے کر جدید عہد کے نوجوان ادیبوں تک سب کا تذکرہ موجود ہے ۔ اس ضمن میں یہ واہ کی پہلی مفصل اور مستند ادبی تاریخ قرار پاتی ہے ۔
بقول شاعر :
کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لیے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہماری ملاقات ایک حساس محقق اور ایک درد مند مؤرخ سے ہوتی ہے ۔ جو سماجی گھٹن ، مسائل ، بدامنی اور مذہبی انتہا پسندی سے پریشان ہوتا ہے ۔ اور سماج کو پرامن ، خوشحال اور روشن خیال دیکھنا چاہتا ہے ۔ اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس حوالے سے وہ بہت پر امیدبھی ہے ۔

واہ کی سرزمین کے تہذیبی ارتقا اور تعمیرو ترقی کے بیان کو پڑھتے ہوئے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم ایک جادوئی بستی کی طلسماتی فضا میں سانس لے رہے ہیں اور وہ ہماری نظروں کے سامنے بس رہی ہے
یوں سمجھیے کہ علی مطہر اشعر کے شعر :

وقت کی لوح پہ مضمونِ حسیں لکھا گیا
واہ کو خطہء فردوسِ بریں لکھا گیا

کی نثری تفہیم کی گئی ہے ۔
محمد توفیق نے واہ کے حسن اور تہذیب کو جس حسنِ بیان سے نوازا ہے وہ ان کے کمالِ فن پر دلالت کرتا ہے ۔
اس ضمن میں خود کو مجبور پاتا ہوں کہ اپنا ایک شعر ان کی نذر کروں ۔

بیانِ حسن کو حسنِ بیاں ضروری ہے
کمالِ فن بھی ہے لازم جمالِ یار کے ساتھ

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس کے پاس حُسن کے بیان کا کمال سلیقہ اور ہنرمندی کا اعلی معیار موجود ہے ۔ انھوں نے واہ کی تہذیبی زندگی کو ایسے مناظر کی شکل میں بیان کیا ہے جو جامد و ساکت نہیں بلکہ حرکت کرتے اور سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریر میں ہر لحظہ بدلتے ہوئے وقت کو تصویر کرنے کا عمل نظر آتا ہے ۔ واہ کی زندگی کے کردار متحرک ہو کر عملی صورت میں ہمارے کے سامنے آتے ہیں ۔
ایسے میں اُن کے اس عمل کی تفہیم ‘ ‘ مصوّرِ وقتـ’’ کہہ کر ہی کی جا سکتی ہے ۔

کسی کتاب کی اشاعت میرے نزدیک ایک انسان کے جنم لینے کے مترادف ہے ۔ جس طرح ایک بچے کا جنم اپنے اندر لامتناہی امکانات لیے ہوئے ہوتا ہے اور یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ بچہ آگے چل کر کیا بنے گا اور معاشرے پر کس طرح کے نقوش ثبت کرے گا بالکل اسی طرح ایک کتاب بھی سماج پر کیا اثرات مرتب کرے گی اور ان اثرات کی حدود و قیود کیا ہوں گی اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔
لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ کتاب واہ کی علمی ، ادبی ، کاروباری اور تہذیبی تاریخ میں یقینا ایک حوالے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی ۔
اور اس کے ساتھ ہی محمد توفیق کانام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا کیونکہ بقول رئیس فروغ

Advertisements
julia rana solicitors

حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply