ڈاکٹر حسن منظر ایک عہد ساز قلمکار(ایک تعارف)۔۔گوہر تاج

اسے محض ایک اتفاق ہی جانیے کہ میرا تعارف لکھاری ڈاکٹر حسن منظر سے بعد میں اور ایک بہترین انسان کے طور پہ پہلے ہوا۔ جبکہ عموما صورتحال متضاد ہوتی ہے یعنی بظاہر روشن خیال دانشوروں کی تحریروں سے شناسائی  پہلے اور انکی شخصیت کے تاریک پہلوؤں سے واقفیت بعد میں ہوتی ہے ،جو آپکو ان سے دوری اختیار کرنے پہ مجبور کردیتی ہے۔

ایک اور حسن اتفاق یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر حسن منظر میری عزیز دوست اور کلاس فیلو تہمینہ کے بڑے بھائی  ہیں ۔ عمر میں خاصے فرق کی وجہ سے ان کے درمیان رشتے میں بھائی  کی محبت کے ساتھ باپ جیسی شفقت کی خو بُو بھی ہے۔

شروع میں میرا غایبانہ تعارف ڈاکٹر حسن منظر سے صرف اس حد تک تھا کہ وہ حیدرہ آباد میں سایئکٹری کی پریکٹس کرتے ہیں۔انکی بیوی طاہرہ منظر(جو بچوں کی معالج خصوصی تھیں اور چند ماہ قبل کووڈ (covid ) میں مبتلا ہو کے دنیاسے کوچ کرچکی ہیں۔)اور ان کے تین بچے نوفل، رودابہ اور ناجیہ ہیں۔

تہمینہ نے یہ بھی بتایا کہ انکے بھائی  نفسیاتی معالج ہونے کے ساتھ قلمکار بھی ہیں۔ ادب سے میرا تعلق واجبی سا سہی مگر سیپ ، افکار اور نقوش جیسے شمارے نظر سے گزرتے رہے تھے ۔ مگر ڈاکٹر حسن منظر کا نام کچھ شناسا نہیں لگا۔ لیکن اس زمانے میں انکی تخلیقات کی اشاعت میں کمی کی وجہ یہ بھی رہی تھی کہ اپنی تعلیمی مصروفیات اور بیرون ملک پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریوں کے سبب ڈاکٹر حسن منظرنے اتنے تواتر سے ادبی رسائل میں شائع ہونا نہیں شروع کیاتھا۔ماسوا چند ایک رسائل کے۔

۱۹۸۱ میں ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کی پہلی کتاب “رہائی” اور پھر افسانوں کی دوسری کتاب “ندیدی” ۱۹۸۳ میں شائع ہوئی  ۔ اسکے بعد سے انکے ادبی کام کی اشاعت میں تسلسل کے ساتھ حیرت انگیز اضافہ ہوتا گیاہے۔ باوجود گروپ بندی سے دوری اور پی آر کی کمی کے انکے کام کو سراہا ہی نہیں بلکہ ادب کے اعلی ترین ایوارڈز کا حقدار بھی قرار دیا گیا۔ لہٰذا آج کوئی  بھی اردو ادب سے شغف رکھنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حسن منظر کے نام سے واقف نہیں۔کیونکہ ایک بہترین افسانہ اور ناول نگار کی حثیت سے انکا نام ان اہم ادیبوں کی سرفہرست میں شامل ہے ، جنہوں نے طبقاتی، بورژوائی  اور زمیندارانہ نظام کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی  اور مراعات سے محروم طبقے کے حقوق کے لیے قلمی جہاد کیا۔اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا”مجھے استحصال اور تشدد کے شکار ، درد اور ناانصافی سے خوفزدہ گوشت پوست کے انسان لکھنے پہ مجبور کرتے ہیں۔” بقول انکے وہ اپنی کہانیوں میں سچائی  ، مقصدیت اور خوبصورتی کے قائل ہیں یعنی ستم، شیوم، سندرم۔(ترجمہ۔سچ، دیوتا، حسن)

ڈاکٹر حسن منظر کو پڑھتے ہوۓ مجھے دو اہم ادیبوں منشی پریم چند اور رابندر ناتھ ٹیگور کا بارہا خیال آتا ہے۔ جو ان کے بھی چند پسندیدہ قلمکاروں (بشمول غالب، حسرت ،گورکی، ٹالسٹائی , چیخوف، دوستوفسکی ،سر سید وغیرہ) میں شمار ہوتے ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ حسن منظر کی تحریریں سماجی تبدیلی کے اسی پیغام کا تسلسل ہیں جو ہمیں پریم چند اور ٹیگور میں نمایاں نظر آتا ہے۔ جو خواہ کسی غریب دہقان کا کسی جاگیر دار اور زمیندار کے ہاتھوں استحصال ہو یا سماج کی کسی مجبور عورت اور معصوم بے بس بچے کے ساتھ ہونے والا ظلم۔ان ادیبوں نے بہت دردمندی سے سماجی ، معاشی ، سیاسی ، مذہبی اور نظریاتی مسائل کا ادراک کرتے ہوۓ انسانی رویوں اور نفسیات کی گرہیں کھولیں ۔ البتہ آج کے جدید دور میں زمانےکے آگے بڑھ جانے اور جغرافیائی اور نفسیاتی مشاہدات میں وسعت کے ساتھ حسن منظر کے موضوعات کے کینوس میں مزید تنوع آیا ہے۔

حسن منظر نے ملازمت کے بہانے ہی سہی کئی  ممالک کی سیاحی کی۔ سفر نامے نہ لکھے تو سفر میں ملنے والے کرداروں اور انکی کہانیوں نے اچھوتے انداز میں انکی کتابوں میں گھر بنایا۔ویسے سفر تو دنیا میں بہت سے لوگ آنکھوں کو موند کے بھی کرلیتے ہیں ،ڈاکٹر حسن منظر نے ضمیر کی آنکھیں کھول کے اور احساس کی لو جلا کے انسانی آلام اور مسائل پہ وہ کچھ لکھ دیا جو زماں و مکاں کی قیود سے آزاد ہے۔ بغیر نعرہ بازی کے مدہم ، دھیمے اور دلگداز لہجہ میں انسانی آزار پہ کمال خوبی سے لکھ دینا ہی ڈاکٹر حسن منظر کو دوسرے ادیبوں سے ممتاز کرتا ہے۔

ڈاکٹر حسن منظر ہاپڑ(میرٹھ ) میں ۱۹۳۴ میں پیدا ہوئے۔ انکی علمی اور ادبی تربیت میں والدہ انور جہاں اور والدسید مظہر حسن کا حصہ ہے ۔لیکن انکے آباء و اجداد کا ورثہ بھی کم اہم نہیں ۔ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کے سبب انکے والد کے نانا کے سر کی قیمت لگی تھی۔جسکے باعث وہ سالوں ہمالیہ کی چوٹیوں پہ روپوش رہے۔ حسن منظر نے اپنے اجداد کی روایات کو قائم رکھا۔ حق تلفی اور ظلم کے خلاف مسلسل قلمی احتجاج کیا، نڈر سپاہی کی طرح۔

پریم چند کی طرح حسن منظربھی اپنے بچپن میں گاؤں کی زندگی اور دہقانوں کے مسائل سے جڑے رہے۔ “کھیت ، ندی ، کنویں۔۔ کھلی فضا میں دوڑتے لڑکے ، لڑکیاں، گاوں کے آس پاس چلتے مور۔۔۔”غرض گاؤں میں بتائی  سادہ زندگی کے سحر نے انہیں ہمیشہ ہی اپنے حصار میں رکھا ۔

دیکھا جاۓ تو ڈاکٹر حسن منظراپنے پیشے سے ملنے والی والی آمدنی میں ، مشکلات سے عاری ، پرتعیش زندگی بسر کرسکتے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ عام انسان کے مسائل سے ناطہ جوڑے رکھا۔اس میں یقیناً انکی زندگی کے تجربات،بشمول برصغیر کی تقسیم کا بہت بڑا حصہ رہا ہوگا ۔”نومبر ۱۹۴۷ میں حالات نے ہمیں اچانک مراد آباد سے اکھاڑ پھینکا”۔انکی تحریروں میں ہجرت کا تجربہ واضح طور پہ جھانکتا ہے جو ہندوستان سے تہی دامن آکر لاہور ریلوے اسٹاف ٹرانزٹ کیمپ میں رہنے کا تھا۔”ایک منجی، میرے بستر اور میز کرسی کا کام دیتی تھی۔ والد والدہ اور بڑی بہن فرش پہ سوتے تھے۔میں اس منجی پر الارم لگا کے سوتا تھا۔ دو بجے سے اٹھ کر بلب روشن کرتا جو سب کے سر پہ لٹک رہا تھا اور پڑھنے میں لگ جاتا۔” میٹرک کے بعد ڈاکٹر منظر حسن نے لاہور کے لنڈا بازار سے دس روپے میں میز اور کرسی خریدی۔ (“ادب لاہور اور میں”)

یہ ہجرت کا کرب اورکسمپرسی کا احساس ہی تو ہے کہ انہوں نے دور پار گوٹھوں اور دیہاتوں سے آنے والے مریضوں اور انکے لواحقین کے لیے اپنے حیدر آباد کلینک کے ساتھ “سراۓ مظہر حسن” کا انتظام کیا ۔تاکہ انہیں علاج کے دوران قیام کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

لاہور میں طالبعلمی کے دور میں انکا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین سے رہا، جہاں انہوں نے اپنی نوجوانی کے باوجود ترقی پسندانہ خیالات پہ مبنی سنجیدہ اور متاثر کن افسانہ “دو سڑکیں دو کنارے” پڑھا ۔ جس نے اسوقت کے نامی گرامی ادیبوں کو بھی دم بخود کر دیا ۔یہ وہی زمانہ تھا کہ جب اس ترقی پسند گروپ کے کچھ ممبران کمیونسٹ خیالات کی بناء پہ حکومت کے عتاب کا شکار اور انڈر گراؤنڈ تھے۔ سی۔آئی- ڈی کے لوگ سادہ لباس میں مخبری کے لیے ان اجلاسوں میں شرکت کرتے ۔ان سے بچنے کے لیے انکا نام سید منظر حسن سے twist ہوکر حسن منظر ہوگیا۔ حسن منظر کا ذہنی رجحان نہ سیاست میں تھا اور نہ ہی وہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے،لیکن ترقی پسند ہمیشہ سے تھے۔ ادب میں ترقی پسندی کے متعلق انکا کہنا یہ ہے کہ “یہ ایک رجحان ہمیشہ سے تھا اور رہے گا۔ میں سماج کو ویسا ہی نہیں دیکھنا چاہتا جیسا کل تھا اور آج ہے۔ اسمیں بہت کچھ ظالمانہ ہے اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔”

انکی پہلی تخلیق “دہقان” 11 جولائی ۱۹۴۳ کے استقلال کے شمارے میں شائع ہوئی۔ پاکستان ہجرت کے بعد زمانہ طالبعلمی میں انکے لیے وہ لمحہ بہت مسرت کا تھا کہ جب لاہورکے فورمین کرسچن کالج کے انگریزی کے استاد عبدالمجید بھٹی نے کہا “تم مجھے کرشن چندر کی یاد دلاتے ہو ، جہاں تم بیٹھتے ہو وہاں وہ بیٹھتا تھا۔” بقول حسن منظر “تو میں بغیر اپنی مرضی کے لاہور میں کرشن چندر کا جانشین تھا۔”

وہ جو کہتے ہیں کہ شکر خوری کو شکر مل جاتی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر حسن منظر کا ملازمتوں کے سلسلے میں نگری نگری پھرنا اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا انکی ادبی تخلیقات کی نمو میں کھاد کی صورت مزید زرخیزی کا باعث بنا۔لاہور کے گنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ڈگری کے بعد اندرون اور بیرون ممالک تعلیم اور ملازمتوں کے سلسلے میں ڈچ مر چنٹ شپ، سعودی عربیہ ، اسکوٹ لینڈ، ایڈمبرگ، نائجیریا، ملائشیا جیسے ممالک میں کام کیا ۔ وہاں کی زبانیں سیکھیں ان کی ثقافتوں اور رویوں کو سمجھااور اپنی تحاریر میں بہت سلیقے سے سمویا ۔ویسے تو کئی مثالیں ہیں لیکن انکی خوبصورت ناول “العاصفہ” کا نام ذہن میں آرہا ہے۔جو انہوں نے عرب ثقافت کے پس منظر میں لکھی۔

وہ نگری نگری پھرے ضرور مگر گھر کا رستہ ہرگز نہ بھولے ۔جب واپس پاکستان لوٹ کر آۓ تواپنی ترجیحی بنیاد پہ کراچی جیسے بڑے شہر کے بجاۓ حیدرآباد کو اپنا مسکن بنایا۔تاکہ بچپن سے ذہن میں بسے مراد آباد کے گاؤں کے ماحول میں ایکبارپھر بسنے کے خوابیدہ سپنے کو پورا کرسکیں ۔ چھوٹی جگہ کی سادگی نے انہیں نام ونمود اور پیسوں سے بے نیاز اور انسانی حقوق کی پرواہ پہ مائل رکھا۔یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے مصروف زندگی گزارنے کے بعد جب تخلیقی کام کی مہلت ملی تو پہلا مجموعہ پچاس سال کی عمر میں شائع ہوا۔اور جب سے آ ج تک وہ تخلیقی کام میں مسلسل مصروف ہیں۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈاکٹر حسن منظر نے فلم کے لیے اسکرین پلے بھی لکھے۔ لیکن انکا فلمی مواد فلم سازوں کو کچھ بھایا نہیں ۔ مثلا ً فلمی رسالے “اداکار” کے مالک نے فلم اسکرین سنکر ناپسندیدگی سے سر ہلایا “آپکا ہیرو نہ مجنوں بنا نہ رانجھا نہ ہی اسمیں گانوں کی سچویشنز ہیں۔” اسی طرح شوکت حسین رضوی نے انکے لکھے ہوے فلمی اسکرین سے پہلے ہالی ووڈ کا منظر شامل کرنے کو کہا تو یوں فلم کے شروع ہونے سے پہلے ہی اسکا اختتام ہوگیا۔اسطرح فلم کے شعبہ سے دل چسپی کے باوجود اس سے وابستگی نہ ہوسکی۔اگر ایسا ہو جاتا تو شاید ہم اتنے بلند قامت ادیب اور ذہنی امراض کے دردمند اور ذہین معالج سے محروم ہوجاتے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کون بڑا ہے؟ لیکھک حسن منظر یا سائیکیٹریسٹ حسن منظر؟ وہ اسکا جواب اسطرح دیتے ہیں کہ “لیکھک حسن منظر بڑا ہے۔سائیکیٹرسٹ کو فلشن نگار حسن منظر نے فیض پہنچایا ہے نہ کہ دماغی امراض کے معالج نے فکشن نگار کو۔”

میں نے ایسے کئی قلمکار دیکھے ہیں جو اپنی ہی لکھی باتیں دھراۓ ہی چلے جارہے ہیں اور علم وادب کے بجاۓ اپنے دولت کی بنیاد پہ کتابوں پہ کتا بیں چھاپ کر فضا کو کثیف کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر حسن منظر نے چھ یا سات سال کی عمر میں پہلی کہانی لکھی اور آج سات دھائی  گذرنے کے بعد بھی وہ مستقل بغیر دھراۓ ، کم آمیزی اوراختصار سے، ہر بار نئی بات لکھ رہے ہیں۔وہ اپنے کو مستقل باخبر رکھتے ہیں خاص کر عالمی ادب سے۔ انکا پیغام عالمی سطح پہ امن آ شتی اور انسانوں سے محبت کا ہے۔ انکا کہنا ہے “ زندگی میں کوئی  چیز اگر نفرت کیے جانے کے لائق ہے تو وہ نفرت ہے۔”یقینا ہم خوشنصیب ہیں کہ ڈاکٹر حسن منظر جیسے انسان اور اہم قلمکار کے دور میں سانس لے رہے ہیں۔

آخر میں بس صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ اگرآپ نے دور جدید کے پریم چند یعنی ڈاکٹر حسن منظر کی ستتم،شیوم، سندرم کہانیوں سے بلمشافہ ملاقات نہ کی تو یقین مانیے آپ گھاٹے میں ہیں۔

ڈاکٹر حسن منظر کی تصانیف
۱-رہائی (۱۹۸۱)، ۲۔ ندیدی (۱۹۸۳) ۳۔ انسان کا دیش (۱۹۹۱)، ۴۔ سوئی  ہوئی بھوک (۱۹۹۷)
۵۔ ایک اور آدمی (۱۹۹)، ۶۔ خاک کا رتبہ (۲۰۰۷)

۷۔منگل سوتر (ناول) (۱۹۹۱)، ۸۔ پریم چند گھر میں (۱۹۹۸)، ۹۔سمندر میں جنگ (بچوں کے لیے) ۲۰۰۱، ۱۰۔ جان کے دشمن (۲۰۰۴)، ۱۱۔ العاصفہ (ناول)۲۰۰۶)، ۱۲۔ دھنی بخش کے بیٹے (ناول) (۲۰۰۸)، ۱۳۔ وبا (۲۰۰۹) ۱۴۔ماں بیٹی (۲۰۱۰)
۱۵۔بر شیبا کی لڑکی (۲۰۱۰) ۱۶۔منظر کے خطوط کمال اظہر کے نام (۲۰۱۱) ۱۷۔انسان اے انسان (۲۰۱۳)، ۱۸۔ حبس ، ۱۹۔اے فلک نا انصاف

Advertisements
julia rana solicitors london

انعامات / ایوارڈز: اکیڈمی آف لیٹرزایوارڈز (دو بار )
یونائیٹڈ بینک ایوارڈ، سندھ گورنمنٹ شیخ ایاز ایوارڈ،
بہترین کتاب (اے فلک ناانصاف ) آکسفورڈ لٹریچر فیسٹول،!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply