خان صاحب گھبرا گئے ہیں۔۔قراۃ العین

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ذاتی حیثیت میں خان صاحب آج بھی ملکی سطح کے دیگر تمام لیڈران سے زیادہ مقبول ہیں. اس بات کا اظہار کمر توڑ مہنگائی, بیروزگاری اور بد انتظامی سمیت بے شمار حکومتی خامیوں کے باوجود ان کے کامیاب ترین جلسے اور ان میں موجود عوام ہیں مگر لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد کے لئے “گھوڑوں کی تجارت” نے خان صاحب کو شاید واقعی گھبرانے پر مجبور کر دیا ہے. حالیہ میلسی میں منعقدہ جلسے میں   خان صاحب کی تقریر سن کر یوں محسوس ہوا جیسے خان صاحب کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگ گیا ہے یا شی اور پیوٹن نے مل کر پاکستان کے سارے ملکی قرضے چکا دئیے ہیں. خان صاحب کی طرف سے جس طرح کھلے عام انکل سام اور ان کے حواریوں کو للکارا جارہا تھا نظر بظاہر یہی آ رہا تھا کہ شاید خان صاحب کا خواب سچ ہو چکا ہے اور نوے لاکھ سے زیادہ پاکستانی غیر ممالک میں مقیم نہیں بلکہ لاکھوں امریکی اور یورپین پاکستان میں محنت مزدوری کر کے زر مبادلہ اپنے ملکوں کو بھیجنے لگ گئے ہیں نیز اربوں ڈالر کی ایکسپورٹس اور امپورٹس کے لئے آئندہ مغربی دنیا کے بجائے انحصار کسی بیرونی سیارے کی مخلوق پر کیا جائے گا. رہ گیا الفاظ کا چناؤ  اور خارجہ پالیسی کے معاملات تو یقینی بات ہے دیگر دنیا کے تمام معاملات کی طرح اس حوالے سے بھی خان صاحب سب سے بہتر جانتے ہوں گے اور ان بیانات کی قیمت سے واقف بھی ہوں گے.

اگرچہ “پیلی ٹیکسی” سے لے کر “ٹریکٹر ٹرالی” اور “یہودی ایجنٹ” تک بے شمار دیگر القابات کی بازگشت گاہے بگاہے ماضی میں سنائی دیتی رہی ہے مگر کنٹینر کی سیاست اور حکومتی سربراہی میں فرق ملحوظ خاطر رکھنے سے یقینا ًخان صاحب کے سیاسی قد میں اضافہ ہوتا مگر عوام اپنی حسرتوں پر آنسو ہی بہا سکتی ہے کہ عدم برداشت, رواداری اور اخلاقیات کے جنازے ہم بہت پہلے پڑھ چکے، ایسے میں خان صاحب سے شکوہ کرنا بھینس کے آگے بین بجانے جیسا ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق وہ بھی اسی رنگ میں رنگ چکے ہیں کہ اس حمام میں سب ایک جیسے ہیں.

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب آزادی اور خودمختاری کی قیمت چکانے کے لئے تیار ہیں. جہاں تک خان صاحب کی ذات کی بات ہے تو انھیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ دولت اور شہرت ان کا مسئلہ کبھی رہی ہی نہیں, بچے ماں کے ساتھ جو پاؤنڈز میں ارب پتی, سیاست میں بچوں کو لانا نہیں, دولت جائیداد اور اثاثے بیرون ملک بھی نہیں کہ فکر ہو. بحیثیت مجموعی مگر پاکستان اور پاکستانی قوم جو اربوں ڈالر قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہی ہو مہنگائی, غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہی ہو جس کی درآمدات اور برآمدات سمیت فارن ریمیٹینس امریکہ اور یورپی ممالک کے مرہون منت ہوں کیا اس ملک کے وزیر اعظم کے منصب پر موجود شخص کو زمینی حقائق کو پس پشت ڈال کر آبیل مجھے مار کی پالیسی اپنانی چاہیے؟  یقیناً  ہر ذی شعور شخص دل کی آواز ہونے کے باوجود اس کا انکار کرے گا کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

ملکی آزادی اور خودمختاری کے گُڑ میں لپٹے امریکہ کا یار اور غدار والے نعرے عوام میں مقبول تو بہت ہیں مگر عالمی طاقتوں کے شکنجے میں جکڑی ترقی پذیر قوموں کے لئے زہر قاتل بھی ہیں. جس ملک کے میڈیا سے لے کر سیاستدانوں تک ہر شعبے میں ان طاقتوں کے مفادات کے رکھوالے موجود ہوں, ملک میں دہشت گردی کی لہر پھر سے جاری ہو, عالمی منظر نامہ تبدیل ہوتے ہوئے نئے بلاکس کی تشکیل ہو رہی ہو اور ملک سیاسی اور اقتصادی طور پر عدم استحکام کا شکار ہو وہاں یہ سب ملکی سلامتی اور امن کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے. ہمارے ہینڈسم خان صاحب کے مگر رفقائے باکمال انھیں مرد مومن مرد حق بنانے پر تلے ہوئے ہیں.  ایسے میں بس یہی دعا ہے کہ اللہ پاکستان اور خان صاحب کی حفاظت کرے اور خان صاحب بھی جذبات میں آ کر آم کی پیٹیاں قبول نہ کر بیٹھیں کہ بہرحال “ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات”.  اس لئے کریں وہی جو ملکی مفاد ہو مگر سیاسی اور سفارتی تدبر کے ساتھ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کہ چھری اور خربوزے میں بہرحال کٹنا خربوزے کو ہی پڑتا ہے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply